|
|
ہمارے معاشرے میں عام طور دعوی تو یہی کیا جاتا ہے کہ ہم
اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہیں لیکن جب عملی طور پر بیٹی یا بہنوں کو
جائيداد میں حصہ دینے کا وقت یاد آتا ہے تو یہ سارے دعویٰ کہیں گم ہو جاتے
ہیں- اور سو میں سے کوئی دو مرد ہی ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی بہنوں بیٹیوں
کو ان کا حق دیا ہوگا- |
|
جائيداد میں یا وراثت
میں خواتین کا حصہ |
اسلام سے قبل کی طرز معاشرت میں عورت کو کسی قسم کی
وراثت کا حق دار نہیں سمجھا جاتا تھا- مگر اسلام کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس حوالے سے قرآن کی مدد سے بہت وضاحت کے ساتھ اس حق کو بیان
کیا ہے اور قرآن میں سورۃ النسا میں نہ صرف عورتوں کا وراثت میں حق تسلیم
کیا گیا ہے بلکہ پوری وضاحت کے ساتھ اس کی شرح کو بھی بیان کیا گیا ہے- عام
طور پر بیٹی کا حصہ قرآن کے مطابق بیٹے کے حصے سے نصف بیان کیا گیا ہے اسی
طرح بیوہ کو بھی وراثت میں حق دار قرار دیا گیا ہے اور اس کی شرح بھی قرآن
میں بیان کیا گیا ہے اور پاکستانی قانون کے مطابق بھی اس حق کو تسلیم کیا
گیا ہے- |
|
جائيداد میں خواتین کے
حصے کو تسلیم کرتے ہوئے بھی نہ دینا |
زيادہ تر افراد کسی نہ کسی طرح سے جائيداد کی تقسیم کے
وقت اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو اس میں سے اپنی خواتین کو حصہ نہ
دینا پڑے اس کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں- ان طریقوں کو حیلے
بہانے ہی کہا جا سکتا ہے ان حیلوں بہانوں کے بارے میں ہم آپ کو بتائيں گے- |
|
جہیز کو خواتین کا حصہ
قرار دینا |
شادی کے موقع پر ہمارے معاشرے میں بیٹی کو بھاری بھرکم جہیز دے کر رخصت کیا
جاتا ہے اس جہیز پر خرچ کی جانے والی رقم کو جائيداد کا حصہ قرار دینا کسی
طرح بھی ثابت نہیں ہے- مگر لڑکی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ
گھرانوں میں اس کی رخصتی سے قبل ہی جائيداد کے کاغذوں پر انگوٹھا لگوالیا
جاتا ہے تاکہ شادی کے بعد وہ کسی قسم کی جائيداد کے حصے کا تقاضا نہ کر سکے- |
|
|
|
تعلیم کا خرچہ حصہ قرار
دینا |
ماں باپ کے ذمے بیٹے اور بیٹی دونوں کو اچھی تعلیم و
تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر کچھ خاندانوں کے نزدیک بیٹی کو
تعلیم دلوانا ایک بوجھ کی طرح ہوتا ہے- ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ بیٹی کی
اعلیٰ تعلیم کا ان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہونا ہے اس سے اس کے سسرال والے
ہی فائدہ اٹھائيں گے- اس وجہ سے بیٹی کے تعلیم کے اخراجات کو اس کا حصہ نہ
دے کر پورا کیا جاتا ہے اور اگر بیٹی اپنے حصے کا مطالبہ کرے بھی تو اس کو
یاد دلایا جاتا ہے کہ اس کا حصہ تعلیمی اخراجات کی مد میں پورا ہو گیا ہے- |
|
جذباتی بلیک میلنگ
|
زمین اور پیسے کے ٹکڑے کی ویلیو تمھاری نظر میں کیا اپنے
باپ بھائی سے زيادہ ہے ۔ یہ وہ جملہ ہوتا ہے جو جائيداد کے کاغذات پر اپنا
حق چھوڑنے کے لیے انگوٹھا لگوانے سے پہلے ہر باپ بھائی دہراتا ہے-اس طریقے
سے لڑکی کو اس بات کا احساس دلوایا جاتا ہے کہ اگر تم نے اپنا حصہ طلب کیا
تو اس صورت میں باپ بھائيوں سے ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم ہو جائے گا حالانکہ
یہ ایک غلط نظریہ ہے- |
|
ایک بار حصہ لے
کر کیا کرو گی تمہیں ساری عمر باپ بھائی ہی پوچھیں گے |
اکثر خواتین کو حصہ لینے سے روکنے کی خاطر یہ
سبز باغ بھی دکھائے جاتے ہیں کہ ایک بار حصہ لے لینے سے زيادہ بہتر ہے کہ
ساری عمر میکے سے کھاتی رہو۔ بچوں کی شادیوں میں دیے جانے والے تحفے یا کسی
میت کے موقع پر دیا جانے والا کھانا عورت کے حصے کا ہم پلہ قرار دیا جاتا
ہے- |
|
|
|
میکے کے قائم رہنے کی قیمت پر اس طرح سے
پاکستان کی نوے فی صد خواتین کو جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے ان کے شرعی حق
سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے خاندان والے یہ فراموش کر بیٹھتے
ہیں کہ اس کا وبال ان کی اگلی نسلوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے- |