طالب علم کو درپیش مسائل اور ان کا حل

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں سب سے اہم کردار پڑھی لکھی اور جوان نسل کا ہوتا ہے. اگر معاشرہ پڑھا لکھا ہوگا تو تمام اچھی عادات اس میں خودبخود آجائیں گی. لیکن اگر نوجوان نسل کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو ایک اچھے ماحول کی توقع رکھنی بیکار ہے. دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں. اور جوان ہوتی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے میں لگے ہیں. مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں باقی تمام شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے. کسی بھی ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے نوجوانوں کو مفت تعلیم مہیا کرے. مگر افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں تعلیم دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہے. جو غریب بچوں سے پڑھنے کا حق چھین رہی ہے. مہنگائی کے اس ہوشربا دور میں جہاں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے وہاں غریب والدین کے لیے بھاری فیسیں دے کر بچوں کو پڑھانا کافی مشکل ہوگیا ہے. اگر پاکستان میں رائج تعلیمی نظام پر بات کی جائے. تو عام طور پر پاکستان میں رٹا سسٹم عام ہے. جسکی وجہ سے طالب علموں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آتیں. غیر ضروری چیزوں پر توجہ دی جاتی ہے. اور ضروری چیزوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے. اگر موجودہ دور کی بات کریں تو جب سے کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے. تب سے مشکلات اور بھی ذیادہ ہوگئی ہیں. چونکہ اسکول بند ہیں. اس لیے آن لائن سسٹم کے ذریعے پڑھائی جاری ہے جو کہ خاص طور پر پاکستانی طلبہ کے لیے ایک نیا تجربہ ہے. جس کی اکثر طلباء کو سمجھ ہی نہیں ہے. جو انہیں پڑھائی سے بیزار کر رہی ہے. آن لائن پڑھائی دور دراز رہنے والے طلبا کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے. جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں. سگنلز کے مسئلے پر بھی اکثر طلبہ نالاں دکھائی دیتے ہیں. کیونکہ اس طرح اساتذہ کا لیکچر سر پر سے گزر جاتا ہے. اس طرح بہت سے طلبہ اس بات پر بھی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آن لائن پڑھائی کی طرح آن لائن امتحان بھی لیے جائیں. حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ان مسائل کا حل تلاش کرے. بہت سے طلباء تو کلاس لیتے ہی نہیں ہیں. حالیہ دنوں میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں طلباء کی اکثریت سائنس اور ریاضی میں کمزور ہے. میرے خیال میں اس کی وجہ بنیادی تعلیم کے بجائے نصابی تعلیم پر زور دینا ہے. جو یقیناً طلباء کی صلاحیتوں کو کم کر دیتا ہے. اساتذہ کو بھی چاہیے کہ پرانے طریقے چھوڑ کر پڑھائی کے انداز میں جدت لائیں. کورس سے ہٹ کر طلباء کو مختلف طریقوں سے سکھایا جائے. اس سلسلے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ نجی و سرکاری کی تفریق کو ختم کرے تاکہ قوم کے یہ معمار کل کو اس ملت و قوم کا نام زندہ رکھ سکیں..
 

حسن المآب
About the Author: حسن المآب Read More Articles by حسن المآب: 6 Articles with 9165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.