تمام دنوں کا سردار جمعہ ہے، اس دن گنہ گار سے گنہ گار
مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ لوگ جو اور دنوں میں
فرائض تک کا اہمتام نہیں کرتے،وہ بھی اس مبارک دن میں کچھ نہ کچھ نفل کام
کر گزرتے ہیں۔جماعت میں غیر حاضر رہنے والے جمعے کے دن نہا دھو کراور خوش
بو لگاکرجلد مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اسی لیے اس موقع پر وعظ و نصیحت کا سلسلہ
جاری ہوا، جس کا سرا خیرالقرون سے ملتا ہے۔لیکن ہمارے زمانے میں اس میں بڑی
بے اعتدالی در آئی، بعضوں نے اس وعظ و تقریر کو بدعت کہا تو بعض فرض و
واجب کی طرح لازم و ضروری قرار دینے لگے۔ اکثر مقامات پر جمعے کا بیان اب
ایک رسم بن کر رہ گیاہے،جب کہ جمعے کے بیان میں مسلمانوں کا وہ طبقہ آتا
ہے جو پورے ہفتے کسی اور وقت میں خاصی تگ و دو کے بعد بھی نہیں آسکتا، اس
لیے ہونا یہ چاہیے کہ کسی محقق عالمِ دین کو وعظ و نصیحت کے لیے منتخب کیا
جائے جس میں صلاحیت بھی ہو اور صالحیت بھی۔ جو قدیم و جدید علوم کا سنگم ہو
اورکسی صاحبِ نسبت بزرگ کا تربیت یافتہ بھی۔ کاش کہ ذمّےداران اس مسئلے کی
نزاکت کو سمجھتے کہ مسجد کے منبر سے پورے محلے کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے
اور درگت بھی۔ حال یہ ہے کہ واعظین غیر معتبر روایات، سُنی سُنائی باتیں
اور قصّے کہانیاں سنا کر طے شدہ وقت میں اپنی بات کہہ لینے کو کافی سمجھنے
لگے۔ بیان سے ایک منٹ پہلے بھی ان سے پوچھیے کہ آج کس عنوان پر بات ہوگی،
تو کہیں گے کہ ’جو اللہ بلوائے‘۔ بیان کے لیے کوئی تیاری کی جاتی ہے نہ
مطالعہ۔ بعض جگہوں پر بیان کا حاصل صرف چندہ وصول کرنا سمجھا جانے لگا تو
بعض جگہ غیر ضروری فروعی باتیں اصل موضوع ٹھہریں۔الا ما شائ اللہ
ضرورت اور فوائد
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آج کل یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جمعے کے دن
امام صاحب خطبے سے پہلے اردو وغیرہ میں تقریر کرتے ہیں، اس درمیان جو لوگ
آتے ہیں، ان کو نہ تحیۃ المسجد پڑھنے کا موقع ملتا ہے، نہ قرآن کی تلاوت
کی جاسکتی ہے، نہ سورۂ کہف پڑھنے کا موقع ملتا ہے اور نہ توبہ واستغفار
کا۔اس سلسلے میں حق بات یہ ہے کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
امتِ مسلمہ کا فریضۂ منصبی ہے اور اس کی ایک صورت وعظ وبیان بھی ہے۔جمعے
کے دن لوگ جس یک سوئی کے ساتھ دینی باتیں سنتے ہیں، شاید ہی کسی اور موقع
پر سنتے ہوں۔ پھرمسجد کا پاکیزہ ماحول اور خود سامعین کے پاکی اور طہارت کی
حالت میں ہونے کا بھی اثر پڑتا ہے اور ممکن ہے کہ کچھ اہلِ علم حضرات ایسے
ہوں جن کو دینی احکام ومسائل سننے کی ضرورت نہ ہوبلکہ ان کو پہلے سے معلوم
ومحفوظ ہوں اور ان کو تقریر ووعظ سے گرانی ہوتی ہو، لیکن مسلمانوں کی
اکثریت ایسی نہیںبلکہ وہ محتاج ہیں کہ ان کو احکام ومسائل بتائے جائیں۔ ان
کو اس سے نفع بھی ہوتا ہے۔ عموماً اپنے دنیوی مشاغل میں مسلمان اس قدر
پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کو دینی علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جمعے میں
ان کو موقع مل جاتا ہے، تو ان کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اس لیے یہ بہت ہی
مفید سلسلہ ہے اور اس سے خطبے کے مقصد کی بھی تکمیل ہوتی ہے۔خطبہ ذکر بھی
ہے اور تذکیر بھی۔ عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے عربی خطبے سے ذکر کا
مقصد تو پورا ہوجاتا ہے، لیکن تذکیر کا مقصد حاصل نہیں ہوپاتا۔ خطبے سے
پہلے کا بیان اس کمی کی تلافی کردیتا ہے۔ اس لیے اس میں کچھ حرج نہیں۔ فی
الجملہ اس کا ثبوت حدیث سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی ہے۔ کتبِ
سیرت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ اُحد (جس میں عبداللہ بن ابی کا
نفاق پوری طرح واضح ہوکر آگیا) سے پہلے تک رسول اللہ ﷺ کے خطبے سے پہلے
کچھ دیر اس کی گفتگو ہوا کرتی تھی، جس میں وہ اللہ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت
کی تلقین کرتا۔ اور حضرت عمر فاروقؓکی اجازت ومشورے سے حضرت تمیم
داریؓاذانِ جمعہ سے قبل ہر جمعے کو وعظ فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت
ابوہریرہؓکے بارے میں منقول ہے کہ شاہانِ بنواُمیہ کے زمانے میں خطبےسے
پہلے وہ کچھ وعظ فرمایا کرتے تھے۔ جہاں تک تحیۃ المسجد کی بات ہے تو یہ اس
بیان کے درمیان بھی پڑھی جاسکتی ہے اور توبہ واستغفار کے لیے بھی اور مواقع
ہیں۔ اور جہاں تک سورۂ کہف پڑھنے کی بات ہے تو اس کا اذانِ جمعہ کے بعد ہی
پڑھنا ضروری نہیں، اس سے پہلے یا جمعے کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی پڑھ
سکتے ہیں،کیوں کہ احادیث میں مطلقاً جمعے کے دن سورۂ کہف پڑھنے کی ترغیب
آئی ہے، دن کے کسی خاص وقت کی تحدید منقول نہیں۔ [کتاب الفتاویٰ]
اصولی بحث
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس پر اصولی بحث کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہیں کہ [جمعے کے خطبے کی اذان سے پہلے بیان کرنا یا ] خطبے کا ترجمہ
سنانا تذکیر ہے اور آیت وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ
الْمُؤْمِنِينَ۔[الذاریات]اپنے عموم سے ہر وقت کے تذکیر کی اجازت دیتی ہے،
بہ جز ان مواقع کے جو مستقل دلیل سے ممنوع ہیں اور درجِ ذیل قیود اس میں
قابلِ اضافہ ہیں:(۱)ایک یہ کہ عوام الناس اس کو ہمیشہ کے لیے لازم نہ
سمجھیں، دلیل اس کی مشہور ہے(۲)دوسرے یہ کہ یہ مذکر اس وقت منبر سے دور ہو،
تاکہ ہیئتِ خطبہ کا ایہام نہ ہو۔ دلیل اس کی مجوزینِ تکرارِ جماعت کی یہ
تقیید ہے کہ عدول عن المحراب ہو۔پس ان سب قیود کے ہوتے ہوئے کوئی امر جواز
سے مانع نہیں، لہٰذا جواز کا حکم کیا جائے گا اور کراہت کی کوئی وجہ نہیں۔
اور اس جواز کی تائید شیخین کی احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ روی مسلم عن جابر فی
قصۃ یوم الفطر ثم خطب النبیﷺ الناس فلما فرغ نزل، فأتی النساء فذکرہن
الحدیث، وروی البخاری عن ابن عباس بعد وعظ النساء ثم انطلق ہو بلال إلی
بیتہ، الحدیث۔یہ احادیث اس میں نص ہیں کہ اس تذکیر کے وقت میں (جو کہ خطبہ
نہ تھی، جس کا قرینہ یہ ہے کہ یہ تذکیر بعد فراغِ خطبہ تھی اور نیز منبر پر
نہ تھی اور اس کے بعد عود الی المنبر نہیں ہوا) اور خطبے کے وقت میں کوئی
فصل نہ تھا، جس سے معلوم ہوا کہ اس تذکیر اور خطبے کے وقت میں فصل نہ ہونا
مانعِ جواز نہیں اور تقدیم و تاخیر کواس میں کوئی دخل نہیں، پس اس کا جواز
سنت سے بھی ثابت ہو گیا۔[دیکھیے امداد الفتاویٰ]
جمعے کا بیان کس وقت ہو؟
خطبۂ جمعہ سے قبل وعظ کہنا جائز ہے، اس میں کوئی وجہ ممانعت کی نہیں
ہے۔اگر خطیب اذانِ خطبہ سے پہلے مقامی زبان میں پندرہ بیس منٹ کچھ ضروری
باتیں بیان کردے، اس کے بعد اذان کہلوائے اور بہ قدر ادایگیِ فرض مختصر طور
پر عربی میں خطبہ پڑھ لے (اور خطبے کے لیے پانچ سات منٹ کافی ہوں گے) تو یہ
صورت بہتر ہے۔[کفایت المفتی]بس اتنا خیال رہنا چاہیے کہ یہ تقریر نمازِ
جمعہ کے آداب و سنن میںسے نہیں ، مستقل چیز ہے۔ جس وقت میں سامعین کے لیے
انفع ہو، اس وقت کا تعیّن کر لیا جائے۔ [خیر الفتاویٰ]
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒایک سوال کے جواب میںرقم طراز
ہیں:رہا خصوصیت کے ساتھ نمازِ جمعہ اور خطبے سے قبل یا بعد نمازِ
جمعہ[وعظ]، سو اس کے متعلق انکار کسی جگہ وارد نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ جس
وقت سہولت سے آدمی جمع ہو جائیں یا جس وقت ضرورت پیش آئے، اسی وقت اس
فریضۂ تبلیغ کو ادا کرنا چاہیے۔ جمعے کا دن اجتماعِ مسلمین کا دن ہوتا ہے،
اس لیے اس دن کو اختیار کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں بلکہ علامہ ان قیمؒ نے
’زاد المعاد‘میں تحریر کیا ہے کہ یومِ جمعہ تذکیر اور وعظ کا دن ہے۔اس لیے
اگر جمعے کے روز مخصوص طور پر قبلِ خطبہ یابعد نماز بلا دلیلِ شرعی وعظ کو
واجب نہیں کہا جاتا تو بدعت کہنے کی بھی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔[فتاویٰ
محمودیہ]’موضوعاتِ کبیر‘ کی روایت نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں؛اس روایت سے
معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت تمیم داریؓکو بار بار درخواست کرنے پر جمعے
کی نماز سے پہلے وعظ کی اجازت دے دی تھی اور وہ وعظ فرمایا کرتے تھے اور
خروجِ خطیب پر وعظ ختم کر دیا کرتے تھے۔ اگر بعد نمازِ جمعہ مجمع ٹھہر جایا
کرے تو اس وقت وعظ کہہ دیا جائے، ورنہ جمعے سے قبل وعظ کہہ دیا جائے اور
سامعین آکر شریکِ وعظ ہوتے رہیں اور خطبے سے دس منٹ قبل وعظ ختم کر دیا
جائے اور سب سنتیں پڑھ لیا کریں۔ اس صورت میں سنتوں میں بھی خلل نہیں آئے
گا اور وعظ بھی ہو جایا کرے گا، یا سنتیں مکان پر پڑھ کر آئیں تو زیادہ
بہتر ہے۔[ایضاً]ایک جگہ فرماتے ہیں؛ جمعہ وعیدین میں مقررہ وقت سے اتنی
تاخیر کرنا کہ نمازیوں کو اکتاہٹ ہونے لگے، درست نہیں ہے۔ ائمہ وخطبا کو
اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے، اور اپنے طرزِ عمل سے انھیں اکتاہٹ اور
ناگواری میں مبتلا نہ کرنا چاہیے، اور خاص کر اس تاخیر کی عادت بنالینا تو
بہت نقصان دہ ہے۔ اور جمعہ میں دستوریہ ہونا چاہیے کہ خطبے سے ۵-۱۰ ؍منٹ
قبل تقریر ختم کردیں، تاکہ لوگ بہ آسانی سنتیں ادا کرسکیں۔[ایضاً]
خطیب اور مقرِر الگ الگ ہونا
عربی خطبے اور اُردو بیان میں واضح فرق کرنے کے لیے علما نے مشورہ دیا ہے
کہ خطیب اور مقرر الگ الگ ہو۔ حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوریؒ تحریر
فرماتے ہیں؛ خطبے سے پہلے بیان کرنا بدون حرج کے جائز ہے، مگر اس کو لازم
قرار نہ دیا جائے۔ کبھی کبھی ترک بھی کر دینا چاہیے، تاکہ لوگ ضروری نہ
سمجھنے لگیں۔ بیان مختصر ہو اور ایسے وقت ختم کر دیا جائے کہ خطبے کی اذان
سے پہلے چار سنتیں پڑھی جائیں، پھر خطبۂ جمعہ بھی مختصر ہونا چاہیے تاکہ
لوگ اُکتا نہ جائیں اور سنت بھی یہی ہے کہ خطبہ مختصر ہو۔ اور بہتر یہ ہے
کہ خطیب اور مقرر دونوں الگ ہوں۔[فتاویٰ رحیمیہ]
مفتی عزیز الرحمن فتح پوری صاحب لکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص مستقل امام ہو
اور جمعہ بھی پڑھائے تو درست ہے۔ امام تقریر نہ کر سکتا ہو یا دوسرا کوئی
اس سے بہتر مہیّا ہو تو تقریر کے لیے دوسرے کو بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ رہا
مستقل امامِ جمعہ کا معاملہ تو جہاں اس کی ضرورت ہو یا اس انتظام کی بنا پر
زیادہ نمازیوں کے آنے کی امید ہو تو الگ سے امامِ جمعہ مقرر کرنے میں بھی
کوئی حرج نہیں، اور ضرورت ہو یا دینی لحاظ سے مفید ہو تو تقریر کے لیے بھی
کسی باصلاحیت عالم کو مستقل مقرر کر سکتے ہیں۔ اس انتظام سے امام کی کوئی
حق تلفی نہ ہوگی۔ یہ انتظامی معاملہ ہے۔ ضرورت و افادیت کی بنیاد پر جیسا
بھی نظم کیا جائے صحیح ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ایک ہی
شخص پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ جمعہ بھی پڑھاتا ہے تو غیر اولیٰ ہے۔ شرعاً
یہ بھی درست ہے، بلکہ اصل یہی طریقہ ہے، جب کہ ضرورت یا افادیت کے مدِ نظر
دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے تو حرج اس میں بھی نہیں ہے۔ [دینِ فطرت]
|