ابوبکرؓسے صدیق اکبرؓ تک

آپ کا نام عبداﷲ کنیت ابو بکر، والد کا نام عثمان کنیت ابو قحافہ اور والدہ محترمہ کا نام ام الخیر بنت ضحر بن عامر بن کعب تھا سلسلہ نسب القرشی التمیمی ہے۔ دیانت ،امانت اورراست بازی کی وجہ سے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،زمانہ جاہلیت میں بھی شراب سے سخت نفرت تھی ،جوا،قمار اور بت برستی سے ہمیشہ بچے رہے،الغرض آپ عہد جاہلیت میں بھی اخلاق حمیدہ سے متصف تھے،غریبوں کی خبر گیری ،بے کسوں اوراپاہجوں کی مدد ،مہمان نوازی اور مسافروں کا خیال کرتے تھے،پاکیزہ زندگی آپ کا شعار تھا۔نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے جوارِ رحمتِ باری میں منتقل ہوجانے کے بعد جو فتنے ظہور پذیر ہوئے، ان کی بیخ کنی کی خاطر آپؓ نے جو لشکر روانہ کیے، اس کے نتیجہ میں فتنوں کا خاتمہ تو ہوہی گیا، تاہم مسلمانوں کو اس میں ہوشربا نقصان پہنچا، جس میں خاص طورپر صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد جو قرآن کے حافظ تھے‘ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ کو سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے مشورہ دیا کہ قرآن کریم کو فی الفور جمع کرنے کی ضرورت ہے، مبادا ایسا نہ ہوکہ قرآن کریم سے مسلمان محروم ہوجائیں، توآپ نے فرمایا: جو کام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں کیا، وہ میں کیسے کروں؟ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ: اس میں مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی ہے۔ بالاآخر رسول( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کا شرح صدر ہوگیا اور امیر المؤمنین نے حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کو حکم دیا کہ صحابہ کرام سے دو گواہوں کی موجودگی میں قرآن کریم کے جزء کو مکمل کرنے کا اہتمام کریں۔خلیفہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور حضرت زیدبن ثابت رضی اﷲ عنہ کی اَنتھک محنت سے قرآن کریم کو یکجا جمع کرلیا گیا۔ یہ ایسا احسانِ عظیم ہے کہ دشمنانِ اسلام سرتوڑ کوشش و جستجو کرنے کے باوجود چودہ سوسال بعد بھی قرآن کریم سے ملتِ اسلامیہ کے اعتماد کو گزند پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔صدیق اکبروہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلام کا مبارک ارشاد ہے کہ حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص نہیں جس کو میں اسلام کی دعوت دی ہواور اس نے بغیرتامل ،سوچ وبچاراور غور وفکر کے اسلام قبول کر لیا ہو۔تبلیغ اسلام کی وجہ سے مصائب برداشت کئے ،اپنا مال اسلام کے لیے وقف کر دیا،مسلم غلاموں کوخرید کر آزاد کرتے تھے ،ہجرت مدینہ کے سفر میں بنی کریم ؐ کی معیت نصیب میں آئی،یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی ہجرت کی ایک رات تمام راتوں سے بہتر تھی جب نبوت کے قدم آبلہ پا ہو گئے تو مخلص وجا نثا ر ساتھی نے سواری کے لیے اپنا کندھا پیش کیا ،اور رسول اﷲ کو غار ثور تک لے گے ،تین دن تک وہاں قیام فرمایا یہیں قرآن پاک کی آیات نصرت الہی کی نوید اور صحابیت صدیق اکبرکے اعلان میں نازل ہوئیں۔یہ ایسی سعادت مندی تھی کہ حضرت عمرؓ اس وجہ سے آپ پر رشک کیاکرتے تھے۔رسول ؐکا ارشاد مبارک ہے کہ ہر نبی کے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو اہل زمین میں سے ہوتے ہیں میرے وزیر اہل آسمان میں جبرائیل اور میکائیل اور اہل زمیں میں سے ابوبکر و عمر ہیں۔(ترمذی)اور فرمایا کہ یقین جانو ! اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث فرمایاتو تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو،صرف ابوبکر نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں،انہوں نے اپنے مال و جان سے میری غم خواری کی، تو کیا تم اپنی بحث و تنقید سے معاف رکھو گے۔ (صحیح بخاری۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی، مہمات امور کا فیصلہ ہوا ،رو م و فارس کی سلطنتوں کو خلافت اسلامیہ میں داخل کیا گیا،لیکن ان سب کی داغ بیل سالار صحابہ، یار غار و مزار خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓکے دور میں ڈالی گئی۔خلیفہ راشد سیدنا ابوبکرصدیقؓ کسی بھی اہم معاملے میں اہل الرائے و فقہاء صحابہؓ سے مشورہ لیتے تھے جب بھی کسی عامل کا انتخاب فرماتے تو اس کو بلا کر اس کے فرائض کی تفصیل اور خوف خدا کے بارے میں ارشاد فرماتے ’’خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو جو اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ایسی جگہ سے رزق کا انتظام فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،اور اس کا اجر دو بالا کر دیتا ہے ،بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے۔انفاق فی سبیل اﷲ ،مہمان نوازی اور لباس و غذا میں سادگی میں اپنی مثا ل آپ تھے۔حضورپاک ؐ کے پردہ فرمانے کے دوسال اورچندماہ کے بعد اپنی لخت جگر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا میری جائیداد فروخت کر کے زمانہ خلافت میں مجلس شوری ٰ کی طرف سے دیے گئے مشاہرے کی مجموعی رقم بیت المال میں جمع کر دینا ،وفات کے وقت پوچھا کہ آج کونسا دن ہے؟؟لوگوں نے بتایا (پیر )پھر پوچھا رسو ل اﷲؐ کا وصال کس دن ہوا؟بتایا گیا اسی روز تو فرمایا میری آرزوہے کہ آج رات تک اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں چنانچہ یہ آرزوبھی پوری ہوئی اور 65برس کی عمر میں ۲۲جمادی الثانیہ ۳۱ھجری کو راہ گزین عالم جاودانی ہو ئے۔وصیت کے مطابق آپؓکی زوجہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیااور بیٹے عبدالرحمن نے ان کی مدد کی، حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت عثمان ،طلحہ ،عبد الرحمن بن عوفؓ، اور حضرت عمرؓ نے قبر میں اتارا ، حضرت صدیق اکبرؓنے دنیا میں رسول اﷲ کا ساتھ نبھایا ،مہر ووفا کی لازوال داستانیں رقم کیں جس کی نظیر نہیں ملتی ، اس کا صلہ اﷲ تعالیٰ نے یہ دیا کہ روضہ رسول میں قیامت تک آپ کو جگہ عطا فرما دی۔ سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنی زندگی اور اپنے دورِ خلافت میں پر خطر حالات کے باوجود تنہا جس بے باکی، شجاعت وبہادری اور پختہ عزم کا مظاہرہ کیا‘ تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ یقینایہ جانشینِ رسولؐ کی فطری شجاعت تھی، جس کے نتیجے میں دین اسلام کو عروج ملا جس کا اعلان نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی زبانِ مبارک سے کر گئے۔ آج جبکہ اْمتِ مسلمہ ہمہ جہتی سازشوں کاشکار ہو کر کفارکے سامنے مغلوبیت کی حالت میں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اْمتِ مسلمہ کے حکمران،علماءٗ اور عوام ان سخت حالات کا مقابلہ سیرتِ صدیق اکبرؓکی روشنی میں اسی ایمانی بصیرت و شجاعت کے ساتھ کریں،اﷲ پاک ہمیں صدیق اکبرؓ کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائیں اور اسلام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.