نوجوانوں کی معاشی پریشانیوں کو کیسے دور کیا جائے؟ مال
کی محبت کیسے ختم کی جائے؟
قیامت کے متعلق بیان کردہ روایتوں میں حدیثِ وھن بڑی اہم ہے جس میں
مسلمانوں کی زبوں حالی اور کثرتِ تعداد کے باوجود دیگر قوموں کا مشقِ ستم
بننے کا سبب وھن یعنی حبِ دنیا اور کراہیتِ موت کو بتلایا گیا ہے
اب یہ دونوں ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی سے کیسے ختم کریں؟
اس کے لیے ہمیں اولاً یہ دیکھنا ہوگا کہ مال کی محبت پیدا کیوں ہوتی ہے؟
بنیادی طور پر مال کی محبت کی وجہ غریب کے اندر ضرورت اور مال دار میں حرص
ہوتی ہے، لیکن اس کو ذرا کھول کر بیان کریں تو جائز و ناجائز اسباب کی
فہرست کچھ یوں بنے گی
1 آخرت کا عدم استحضار
2 موت اور حادثات کا ڈر
3 لوگوں کی زبانی پیسوں کی اہمیت کو سننا اور ویڈیوز میں دیکھنا
4 خواہشات کو ضرورت بناکر عیاشی کی عادت بنانا
5 دوسروں سے ہمدردی کا نہ ہونا
6 عزت و مرتبے کا حصول
7 دوسروں کی مدد کی خاطر
8 اپنے عظیم خوابوں کو پورا کرنے کے لیے
9 بنیادی ضرورتوں کے بقدر پیسے نہ ہونا
10 اسلام کے معاشی نظام و نظریے سے نا واقف ہونا
یعنی جب ہمارا نوجوان ہماری زبان سے پیسوں کی اتنی اہمیت سنتا ہے کہ ہر چیز
پیسے سے ہی ہوتی ہے، پھر وہ حقیقی زندگی میں دیکھتا بھی ہے کہ میری ضرورتیں
بھی صرف پیسے سے پوری ہورہی ہیں، میری پڑھائی بھی پیسوں سے ہی ہوپارہی ہے،
عزتیں بھی پیسے والوں کو ہی مل رہی ہے، تو پھر کیوں نہ اس کو زندگی کا مقصد
بنایا جائے کیوں نہ اسی کے حصول میں زندگی گزار دی جائے
ہمارے معاشرے کی ناکامی کی کھلی دلیل یہ ہے کہ ہمارا نوجوان علمی استعداد
پیدا کرنے کی عمر میں اور دنیا کو نت نئے خیالات اور تخلیقی جوہر سے واقف
کرانےکے دور میں اگر غریب ہو تو صرف مادی وسائل کے حصول، اپنا گھر بنانے،
والدین یا بال بچوں کی خاطر پیسے کمانے پر مجبور ہوتا ہے اور پھر وہ زندگی
بھر بس ایک عام سا انسان بن کر رہ جاتا ہے، اور اگر امیر ہو تو وہ آخرت اور
دوسروں کی مدد سے بے پرواہ، سیلفش، عیاش، اور حریص بن کر اپنی خواہشات کو
پورا کرنے اور معزز بننے کی خاطر کمانے لگ جاتا ہے اور حادثات کے ڈر سے
ذخیرہ اندوزی کرنا اور انشورنس کروانا شروع کردیتا ہے، کیوں کہ باطل نے
فیملی سسٹم تو پہلے ہی تباہ کردیا ہے الا ماشاءاللہ۔
تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پیراڈائم کو شفٹ کیا جائے، اس سوچ اور اس رویے کو
بدلا جائے اس کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
1 ان کے اندر دینی و اجتماعی فکر پیدا کی جائے
2 ان کو تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کئے جائیں (ان دونوں کے
طریقہء کار پر ہم اگلے مضمون میں گفتگو کریں گے ان شاءاللہ)
3 ان کے معاشی مسائل کو حل کرکے اپنے قول و عمل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ
پیسوں سے ہی سارے مسئلے حل نہیں ہوتے
اب یہ جو تبدیلی ہمیں لانی ہے اپنی نسلوں میں اس کا طریقہ کار کیا ہو؟
دیکھئے تبدیلیاں تین قسم کی ہوتی ہیں
1 ذہنی تبدیلی: جس کی طرف قرآن أفلا تتفکرون أفلا یتدبرون القرآن جیسی
آیتوں کے ذریعے دعوت دیتا ہے
2 عملی تبدیلی: جس کی طرف قرآن و ما تجزون الا ماکنتم تعملون اور بیالیس سے
زائد جگہوں پر واللہ خبیر بما تعملون جیسے الفاظ کے ذریعے تحریض پیدا کرتا
ہے
3 مظاہر کی تبدیلی: یعنی مجھے چھوڑ کر جو بھی مظاہر ہیں جسے میں حواس کے
ذریعے دیکھتا اور سنتا ہوں، خواہ وہ دوسرا انسان ہو یا مناظر فطرت ہو یا
پھر انسانوں کے بنائے ہوئے مظاہر مثلاً، آرٹ، عمارتیں، حکومتیں، ملٹی میڈیا
اور میٹاورس وغیرہ وغیرہ، تو مظاہر کی جانب قرآن عموماً أفلا تبصرون أفلا
تسمعون، و من آیاتہ، قل أرأیتم، أفرأیتم، اور أرأیت جیسی آیتوں کے ذریعے
ترغیب دیتا ہے
تو جب ہم تقویتِ امت اور اپنی نسلوں کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو صرف ذہنی
تبدیلی کافی نہیں ہے اور نہ ہی فقط عملی یا محض مظاہری تبدیلی، حقیقی
تبدیلی اسی وقت آسکتی ہے جب ہم بیک وقت تینوں طرح کی تبدیلی پر کام کررہے
ہوں
اب آئیے ہم چند عملی طریقے بتاتے ہیں جن کے ذریعے یہ تبدیلیاں لائی جاسکتی
ہیں اور اجتماعیت پیدا کی جاسکتی ہے
اپنے قول و عمل کے ذریعے مال کی محبت کیسے ختم کی جائے؟
1 پہلے ہم عوام اور نوجوانوں کے سامنے اسلام میں زکات دینے کے بعد بچے ہوئے
مال کی حیثیت اور صدقے کا فلسفہ پیش کریں تا آنکہ وہ اپنی خواہشات کو محدود
کریں (تفصیل پھر کبھی)
2 جب وہ اسکولوں میں یا مدرسوں میں جائیں اس راستے میں جتنی بھی دکانیں ہیں
ان میں دعاؤں اور اسلامی فرائض و واجبات اور دینی و اخلاقی طریقوں وغیرہ کی
لسٹ بنادی جائے اور یہ اعلان لگادیا جائے کہ تم یہ دعا یا یہ چیز سناؤ
تمہیں فری میں پانچ روپے کی چیزیں ملیں گی اور ان دکانوں کی بھرپائی گاؤں
کی بنائی ہوئی مشن تقویتِ امت کی ٹیم کرے، یہ چیز ان کے اندر دینی رجحان
بھی پیدا کرے گی اور مال کی محبت ختم کرنے میں بھی مدد دے گی
3 گھر بناکر دئیے جائیں: ہمیں اپنے نوجوانوں اور غریبوں کو اب ہمارے معاشرے
کی طرف سے گھر بناکر دینے ہوں گے کیوں کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ
اس کے پاس رہنے کے لیے ایک اچھا گھر ہو، مگر اس شرط پر کہ وہ اپنا زیادہ
وقت اب کمانے کے بجائے قوم کی بہتری کے لیے، تخلیق اور ریسرچ کے لیے خرچ
کریں، اور اس طرح کے گھر بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، مستری اور لیبر
مہینے میں ایک دن فری کام کرے قوم کے لئے، اور سیمنٹ بالو کی دکان والے دس
فیصد اپنے ذمے لیں، جس کا گھر بنایا جارہا ہے وہ تیس فیصد اپنے ذمے لے اور
باقی کے ساٹھ فیصد گاؤں والے اپنے ذمے لے لیں
4 اشیاء ضروریہ پر فری بیز دئیے جائیں: جب کمپنیاں ڈسکاونٹ دے کر اپنے
پروڈکٹس کی طرف لوگوں کو مائل کرسکتی ہیں تو ہم اسی تدبیر کو اجتماعیت و
اسلامی جذبے کی بیداری، نوجوانوں کو قوم کے لئے فارغ کرنے اور خدمت خلق کے
لیے کیوں نہیں استعمال کرسکتے، تو انسانی ضرورت کی جتنی چیزیں ہیں مثلاً
دوا چاول وغیرہ، یہ سب ڈسکاونٹ کے ساتھ دئیے جائیں، اس کی صورت یہ ہوسکتی
ہے کہ ہر دکان پر یہ اعلان لگاہوا ہو کہ جس کی تنخواہ دس ہزار (یہ محض بطور
مثال کہا ہے) سے کم ہو اسے اس دوکان سے ضروری اشیاء خوردنی بیس فیصد یا
پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ دی جائیں گی لیکن مکمل مفت خوری کی عادت نہ
لگائی جائے، البتہ دوا مفت کی جاسکتی ہے جس کی صورت یہ ہو کہ ایک ڈبہ رکھ
دیا جائے دوا کی فارمیسی کے سامنے کہ جو صاحب ضرورت مندوں کی مدد کرنا
چاہیں وہ اس میں پیسے ڈال دیں اور ضرورت مند حضرات یہاں سے پیسے لے سکتے
ہیں، یہی طریقہ ہوٹلوں میں بھی اپنایا جاسکتا ہے اور کئی جگہوں پر
ماشاءاللہ لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں، لیکن اس میں نمازی ہونے کی شرط لگادی
جائے مثلاً جب وہ سوال کرنے آئے اس سے پوچھیں کہ آپ نے اس وقت کی نماز پڑھ
لی ہے اگر ہاں کہیں تو سامان دے دیں ورنہ کہیں کہ یہ سامان آپ کا رکھا ہوا
ہے جائیے پہلے نماز پڑھ کے آئیے پھر سامان لے جائیے، کیوں کہ یاد رکھیں
ہمارا اصل مقصد اس کو اللہ کی عبادت کی طرف لانا ہے اس کے معاشی پرابلم کو
دور کرنا حقیقی مقصد نہیں
5 اجتماعی تجارت: گاؤں میں کوئی ایسا اجتماعی بزنس شروع کیا جائے جس میں ہر
امیر غریب کا شئیر ہو، جو ادا نہیں کرسکتا اس کی طرف سے مشن تقویتِ امت کی
ٹیم انویسٹ کرے بطورِ قرض، اس سلسلے میں سب سے اچھا بزنس ہے مینوفیکچرنگ کا
بزنس جس میں ہم خود ہی انویسٹر بھی ہوں گے اور اس کے ایک بڑے حصے کے صارف
بھی، اس کے چار فائدے ہیں
1 پورا گاؤں نفع نقصان میں برابر کا شریک ہوگا تو اس سے اجتماعیت کو تقویت
ملے گی کیوں کہ سب کا مفاد جڑا ہوا ہے ایک چیز سے
2 اس سے لوکلائزیشن کو فروغ ملے گا اور ان ظالم کمپنیوں کا زور کم ہوگا
3 چیزیں ہمیں سستی اور نیچرل ملا کریں گی
4 اس میں جب چھ مہینے سال بھر کے بعد نفع ہونے لگے گا تو ہم اس قسم کی قید
و پابندی لگاسکتے ہیں کہ جو نماز کی پابندی نہیں کرے گا اس کا نفع روک لیا
جائے گا اسی طرح ممنوعات اور حرام اشیاء کی ایک فہرست بنادی جائے کہ جو اس
میں ملوث پایا گیا اس کا نفع روک لیا جائے گا ایک سال یا دو سال کے لیے
6 اسکالر شپ دئیے جائیں: گاؤں کی سطح پر ہم پیشوں کی ایک لسٹ بنائیں
ترجیحات کے اعتبار سے (یہ لسٹ ان شاءاللہ جلد ہی جاری کی جائے گی) کہ سب سے
زیادہ ابھی ہمیں کس پروفیشن کے لوگوں کی ضرورت ہے اور پھر اسی حساب سے
اسکالر شپ باٹے جائیں
7 حکومت سے ملنے والی مراعات و اسکیم کی معلومات حاصل کی جائے اور ہمارے
نوجوانوں کو اس سے فائدہ پہنچایا جائے، دراصل ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ
مراعات کتنی مل سکتی ہیں، اگر معلوم بھی ہوتا ہے تو بیچ کے ہڑپ کرجانے والے
لوگوں کو سدھارنے کا طریقہ نہیں معلوم ہوتا، اس کے لیے آر ٹی آئی کا سسٹم
بے حد مفید ہے
یقین جانیں کہ جب ہمارے نوجوانوں کو اتنی ساری چیزیں مفت میں مل رہی ہوں گی
تو مال کی اہمیت و محبت خود بخود ان کے اندر سے کم ہوتی چلی جائے گی اور
پھر ان کا مقصد زندگی ان کی ضروریات زندگی پر غالب آتا چلا جائے گا، اور
صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا یہی فلسفہ ہے جس کی قرآن میں فریضہ زکات سے
بھی زیادہ بار ترغیب دی گئی ہے، پھر صرف علماء اور عمائدین شہر کی ذمہ داری
رہ جائے گی کہ وہ ان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع
فراہم کریں
اب سوال یہ ہے کہ مشن تقویتِ امت کی ایک گاؤں کی ٹیم اتنے پیسے لائے گی
کہاں سے؟ دیکھئے اس کے لیے سب سے پہلے ہم گھر کے مختلف افراد کی، پھر
خاندان کے افراد کی، پھر پورے گاؤں کی، پھر مسلمانوں کے متمول افراد اور
ویلفئیر آرگنائزیشن کی، پھر حکومتی مراعات کی مدد لیں گے اور پھر اللہ سے
مدد مانگیں گے واللہ خیر الناصرین
بقیہ آئیڈیاز ہم اگلے مضمون میں پیش کریں گے ان شاءاللہ
دوسری چیز تھی کراہیتِ موت تو موت کا ڈر اور خوف کیسے ان کے اندر سے ختم
کیا جائے؟
اسکاؤٹ ٹریننگ اور گھڑ سواری کی ٹریننگ دی جائے: دراصل ہوتا یہ ہے کہ انسان
جس سچویشن سے مصنوعی طور پر بار بار گزرتا ہے تو حقیقی سچویشن آنے پر اس کو
ہینڈل کرنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، اس لیے اسکاؤٹ ٹریننگ ضروری ہے
تاکہ جب مقابلے کی نوبت آئے تو ذرا سا خون بہتا ہوا دیکھ کر ہمارے سر نہ
چکرانے لگیں اور راہ فرار اختیار کرنے بجائے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے پر
مجبور کردیں ۔
2 گاؤں ہماری فیملی کو تحفظ فراہم کرے: ہمیں مرنے یا دشمن کے مقابلے جواں
مردی نہ دکھانے کا خوف اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ اگر
کچھ انہونی ہوگئی تو ہمارے بعد ہماری فیملی کا مداوا کون کرے گا، اسی ڈر کا
فائدہ یہ انشورنس کی کمپنیاں اٹھارہی ہیں اور ہم چار و ناچار اس حرام کام
میں ملوث ہونے پر مجبور ہیں، جب ہم اپنے نوجوانوں کو یہ تحفظ فراہم کردیں
گے تو پھر موت کا ڈر ہمارے اندر سے بڑی حد تک کم ہو جائے گا ان شاءاللہ، و
أعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم۔
یہ معاشرےاور 'مشن تقویتِ امت' پرلکھےگئےمضامین کی آٹھویں قسط ہے
مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی، استاذ یونیک ریسرچ سینٹر، پرسنالٹی ڈیولپر
گجرات
|