معاشرے کے ابتدائی دور میں جب انسان نے ٹولیوں میں رہنا
سیکھ لیا تو وہ مجموعی طور پر اشتراکیت پسند تھا۔ یہ اشتراکیت کا ابتدائی
دور تھا جب وہ شکار کر کے لاتا اور سب اکٹھے ہو کر اسے پتھر کی جلائی ہوئی
آگ پر بھون کر آپس میں بیٹھ کر کھایا کرتے تھے۔ یہ اشتراکیت کا وہ ابتدائی
دور تھا جس میں ہر ایک کو اسکی حیثیت کے مطابق ملتا تھا اور بلا کسی
استحصال کے وہ سب کام مل جل کر کرتے تھے۔ جب انہیں شکار ملتا تو وہ اس شکار
پر خوب ناچتے اور شور مچاتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔ یہ اشتراکیت کی وہ
ابتدائی شکل تھی جس میں انسان پتھر کے دور سے آگے بڑھا اور غاروں سے باہر
آیا۔ اشتراکیت ہی وہ سوشل ازم ہے جس نے سب کو یکساں اور وسائل کی تقسیم کا
آغاز کیا۔یہ ایسی تقسیم تھی جس میں سب برابر تھے کوئی کمزور، غریب اور
طاقتور نہ تھا بس ہر ایک منصفانہ تقسیم کے پابند تھے۔
ہم سوشلزم کی تعریف اسطرح کرتے ہیں کہ’’کار بقدر استعداد اور اجرت بقدر
کار‘‘ ہے۔ یعنی آپ مزدور ہیں یا ڈاکٹر آپ کو مقررہ وقت کے لیے مقررہ کام
کرنا ہوگا چاہے وہ آپ کی صلاحیت کے مطابق ہو یا اس سے مختلف مگر آپ کو کام
کے مطابق اجرت دی جائے گی یعنی تقریباً سبھی کو برابر انکی استعداد کار کے
مطابق۔ محصولات میں باقی بچ رہنے والے وسائل سے لوگوں کے حالات زندگی بہتر
کرنے اور معیار زندگی بڑھانے کی تگ و دو کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
''سوشل ازم'' کی اصطلاح سب سے پہلے پیئر لیروکس نے پیش کی جسکا مطلب
اشتراکیت ہے۔ ہم سوشلسٹ نظریات کے پہلے نظریہ نگاروں میں ہیگل، سینٹ سائمن
کوسمجھ سکتے ہیں، بعد میں اس موضوع کو فوئیر، پراوڈھون کی تخلیقات میں
اٹھایا گیا۔ سوشلزم کے اصول انسان سے انسان کے استحصال کے خاتمے (سرمایہ
داری کی خصوصیت) اور نجی املاک کے مسترد ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔
ہوسِ زر، خود غرضی اور ملکی وسائل پر قبضے کی خواہش اشتراکی فلسفے کے عملی
نفاذ کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں۔ زرعی اور صنعتی انقلاب میں بھی ِ
بندہ و آقا کی تمیزبرقرار رہی۔ مزدور صنعت کار کے ہاتھوں اور مزارعہ
جاگیردار کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ اہلِ مغرب کے خرد مندوں
نے انفرادی استحصال کو اب قومی استحصال میں بدل دیا ہے۔ قوموں کو سیاسی طور
پر آزادی تو مل گئی، لیکن اکثر اقوام ابھی تک معاشی آزادی کے لیے ترستی ہیں
اور مغرب کی معاشی جمہوریت کے شکنجے میں اس طرح جکڑی ہوئی ہیں کہ ہر طرف
بربادی کا عالم ہے اور ایک عام اور کمزور شخص کو کچلا جا رہا ہے۔ سرمائے کو
مستقل طور پر ایک مزدور کی محنت کا استحصال کر کے اسے اپنا غلام بنایا جا
رہا ہے جو سرمایا دارانہ جمہوریت کا خاصہ رہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ نجی اورشخصی املاک کودنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں اور معیشت
دانوں نے معاشرے کی برائیوں میں ایک جز قرار دیا۔ چنانچہ کارل مارکس سے بہت
پہلے اہلِ حکمت (فلسفی) نے مقتدر طبقے اور مذہبی پیشواؤں کے گٹھ جوڑ میں
چھپی مکاری کی طرف اشارے کیے جس کی بدولت طاقتور طبقہ مزدوروں کی کمائی پر
عیش کرتا ہے۔ آدم سمتھ اورڈے کارٹ نے محنت کو تمام دولت کا منبع قرار دیا۔
کارل مارکس کا اہم کام یہ ہے کہ اس نے اشتراکیت کے مثالی تصور کو نہ صرف
قابلِ عمل بنایا بلکہ اسے ایک سائنٹفک اور منطقی نظام بنا کر پیش کیا۔
جسکے مقابلے میں تا حال کوئی ایسا نظام وضع نہ کیا جاسکا جو اسکا مقابلہ کر
سکے۔ کارل مارکس نے اشتراکیت کے مثالی تصور کو نہ صرف قابلِ عمل بنایا بلکہ
اسے ایک سائنٹفک اور منطقی نظام بنا کر پیش کیا۔ جس میں سب برابر کے شراکت
دار ہوتے ہیں۔
صحت، تعلیم، مہنگائی کیخلاف مظاہرے، سماجی بے چینی، پولیس کے ساتھ تصادم،
جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور معاشی کٹوتیاں ٹیکسوں کی بھرمار ایک
معمول بن چکی ہیں۔’’جمہوری حکومتیں‘‘ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام
پر ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ہمارے محنت کش اور نوجوان زیادہ
لمبے عرصے تک یہ سب کچھ برداشت نہیں کریں گے اور سرمایہ دارانہ نظام کبھی
بھی حقیقی طور پر جمہوری نہیں ہو سکتا اور ہم ہر اس نظام کیخلاف ہین جس میں
طبقات پیدا کئے جائیں۔ ہمیں ایسے نطام کی ضرورت ہے جو غربت اور طبقات کو
ختم کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ آؤ ہم سب اس سرمایہ دارانی نظام کے خلاف
جدوجہد کریں اور اپنی منزل (سوشل ازم) کو حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کریں اور
اسے اٹھا کر پھینک دیں۔
تحریر۔ ظل عباس نقوی
|