یہ ایک ایسا سوال ہے کہ ہر شخص اسے جاننے کی دھن میں نظر
آتا ہے۔ طلبا اپنے خیالات کااظہا ر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اپنی سائنسی مہارتیں
آزماتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا اپنا نظریہ ہے۔ علماء بھی ان کے بارے میں بہت
کچھ کہتے ہیں۔ اس سب کے با وجود کوئی ایک نقطہ پر متفق ہونے کو تیا ر نہیں۔
میرا خیال تو یہ ہے کہ خو د عورتوں کے بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔
جب میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ عورت تو ایک ہے مگر فلسفے اتنے زیادہ کیوں
ہیں ، تو یاد آیا کہ ہر شخص اپنے نظریے کے مطابق جواب دیتا ہے۔ تو میں نے
نتیجہ نکالا کہ عورت تو واقعی ایک ہےنظریے زیادہ ہونے کی وجہ سے فلسفے بھی
زیادہ ہیں۔
جہاں تک میں نے پڑھا ہے، سنا ہے، دیکھا ہےیا جانا ہے عورتوں کی خواہش ہوا
کی طرح بدلتی ہے۔ اور یہ آپ مجھ سے پہلے جانتے ہیں۔ میں نے اپنے علم کو
اُلٹ پلٹ کر جو نتیجہ نکا لا ہے وہ یہ کہ عورت کی خواہش کا انحصار تین
چیزوں پر ہے اور وہ ہیں رشتے ، مذہب اور جغرافیہ۔
عورت کی خواہشات اور رشتے:
ہر عورت کی خواہش کا انحصار اس سے منسلک ہونےوالے رشتے پر بھی ہوتا ہے۔
کیونکہ عورت پیدا ہونے سے مرنے تک مختلف حیثیتوں میں زندگی گزارتی ہے۔ اور
ہر حیثیت میں اس کی خواہش بدلتی رہتی ہے۔ عورت اپنی زندگی میں پیدا ہونے سے
لے کر جوانی تک بیٹی اور بہن کی حیثیت سے زندگی گزارتی ہے۔ اس کے بعد بیوی
اور ماں کے رشتوں سے ہوتے ہوئےدادی ، نانی کے رشتے سے گزرتی ہے اور آخر کا
قبر کی زندگی گزارتی ہے۔ اپنی جوانی کی عمر میں کچھ عورتیں ایک نیا رشتہ
بھی بنا لیتی ہیں اور وہ معشوقہ کی زند گی گزارتی ہیں۔
عورت کی خواہش بحیثیت بیٹی کے:
لڑکی پیدا ہونے سے بارہ سال کی عمر تک نا سمجھی کی زندگی گزارتی ہے۔ اسکی
تما م ضروریات کا خرچ اس کے والدین اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں اسکی خواہشات
ہوتی ہیں کہ اسکی ہر بات مانی جائے، نہ مانی جائے تو رو کر منوا لیتی ہے۔
ڈرامے دیکھنا پسند کرتی ہے۔ سہیلیوں سے عا شقی کی باتیں کرتی ہے۔ اس کی یہ
خواہش عجیب ہوتی ہے کہ ماں اس کے سر سے جویئں نکالے اور اگر وہ کچھ توڑ دے
تو اس کو بلکل نہ ٹو کا جائے۔
عورت کی خواہش بحیثیت بہن کے:
بھائی اور بہن کا رشتہ بڑا انمول ہے لیکن زیادہ تر یہ رشتہ لڑ کھڑا تا رہتا
ہےکیو نکہ عورت اپنی چاپلوس زبان کی طاقت سے ہمیشہ بھائی کے مقابلے میں
زیادہ جیب خرچ لی جاتی ہے۔ اور بھائی کو ہمیشہ اسی کی وجہ سے جیب خرچ کم
ملتا ہے۔ اگر رشتہ برابری کا ہو تو دونوں کو برابر کا خرچ ملتا ہے اور
بھائی اس خوشی میں بہن کے نخرے اُٹھا لیتا ہے۔
عورت کی خواہش بحیثیت بیوی کے:
جب عورت بیوی کے رشتے میں منسلک ہوتی ہے، تو وہ اس سے پہلے بیٹی اور بہن کی
حیثیت سے زندگی گزار چکی ہوتی ہے۔ اور اس زمانے کی ساری خواہشات کا گٹھا
شوہر کے سر پڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دو چار اور خواہشیں بھی پیدا ہو جاتی
ہیں۔ ان خواہشات میں پہلی ہوتی ہے کہ وہ روٹھے اور اس کا شوہر اس کے منائے۔
وہ ہر وقت خوبصورت لگے۔ لو گ اس کی تعریف کریں اور کہیں آپ تو ڈاکٹر اسلم
کی بیگم سے بھی خوبصورت ہیں۔ اسے کوئی کام کرنے کو نہ کہا جائے بلکہ کر کے
دیا جائے۔
عورت کی خواہش بحیثیت ماں کے:
لفظ ماں پر قلم اُٹھاتے ہی مجھے ایک بات یاد آتی ہے۔
M-O-T-H-E-R
‘M’ is for million things she gave me,
‘O’ means she is growing old,
‘T’ is for the tears she shed to save me,
‘H’ is for her heart of purest gold,
‘E’ is for her eyes with love-light shining,
‘R’ means right, and right she will always be.
Put them altogether they spell
ماں کا رشتہ بہت ہی انمول ہوتا ہے۔ یہ ٹھنڈے سائے کی طرح ہوتا ہے۔ عورت
حاملہ ہوتے ہی اپنے بچے کے لیے خواہشیں جمع کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور بچو
ں کے حوالے سے اس کی خواہشیں اس کے ختم ہونے پر ہی ختم ہوتی ہیں۔ ماں کی
حیثیت میں اسکی جو خواہشیں ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کا بچہ خوبصورت تو ہےہی،
اور لوگوں کو بھی کہنا چاہیے کہ آپ کا بچہ خوبصورت ہے۔ اس حیثیت میں وہ
اپنی ساس کو ایک طعنہ دیا کرتی ہے کہ میر ا بچہ آپ کے بچے سے زیادہ خوبصورت
ہے۔
عورت کی خواہشیں اور مذہب:
عورتوں کی خواہش کا رجحان ان کے مذہب کے مطابق بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر مذہب
کا ایک دائرہ کا ر ہے، اور ہر عورت اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتی
ہے۔ دنیا میں اسلام، یہودیت ، عیسائیت بڑے مذہب ہیں اور ان کے علاوہ بھی
ہیں۔ مسلمان عورتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، زکوۃ
دیں اور سچ بولیں۔ ان کی بڑی دھن یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پارسا و نیک نظر
آئیں۔ اپنے حجاب کا خیال رکھنا بھی ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہ تنگ کپڑے
پہننا معیوب جانتی ہیں۔
یہودیت اور عیسائیت دو ایسے مذہب ہیں جو ایک دوسرے میں زم ہیں۔ ان مذاہب سے
تعلق رکھنے والی عورتیں پارکوں میں گھومنا ، لڑکوں سے دوستی کرنا، فیس بک
پر سیلفی بھیجا ، جدید کپڑے پہننا، ہنسنا کھیلنا، خوبصورت لگنا اور شکل سے
راہبہ معلوم ہونا پسند کرتی ہیں۔ یہ اپنے انداز اور لباس سے چاہے ان پڑھ
بھی ہوں ڈاکٹر لگتی ہیں۔ ہندو خواتین اپنی ثقافت کے مطابق ساڑھی پہنتی ہیں
اور ماتھے پر بندیا لگاتی ہیں۔ یہ ویسے تو انگریزی ادب کو پسند نہیں کرتیں
مگر پرکشش لگنے کےلیے پسند کرتی ہیں۔ یہ چاہتی ہیں پتی کے ساتھ گھومیں،
مندر جائیں اور پوجا کریں ۔ یہ چاہتی ہیں کہ گھر کا سارا کام پتی کرے
کیونکہ ان کو اس کی رکشہ کی خاطر پوجا سے فرست نہیں۔
عورتوں کی خواہش کا تعلق علاقے اور ملک سے بھی ہے۔ جیسا کہ عورتیں پاکستان
میں شلوار قمیص پسند کرتی ہیں، بھارت میں ساڑھی پسند کرتی ہیں اور یورپی
ممالک میں جینز پسن کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خواہش کا اتار چڑھاو مال
و دولت ، بارش ، ہوا ، صبح ، شام پر بھی ہوتا ہے۔ صاحب علم کہتے ہیں کہ
عورت میں احساس بھر دیا گیا ہے، بلکہ صاحب عقل کہتے ہیں کہ عورت میں
خواہشیں بھر دی گئی ہیں۔
میرا اپنا قول ہے۔
' خواہشوں کا گول لٹو عورت کہلاتا ہے'۔
|