سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد
خلافت میں قحط پڑ گیا، نئی ریاست مدینہ کو چیلنج درپیش تھا۔ اہل مدینہ کی
حالت قدرے بہتر تھی لیکن بدوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا، اردگرد کی ساری
آبادی سمٹ کر مدینے میں جمع ہوگئی، ان پناہ گیروں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ
مدینہ منورہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی اور اہل مدینہ بھی آزمائش میں
مبتلا ہوگئے، آپ ؓنے حکم دیا کہ مدینے میں کوئی شخص اپنے گھر کھانا نہیں
کھائے گا، نہ ہی کسی کے ہاں انفرادی طور پر کچھ پکے گا۔ جو کچھ کسی کے پاس
ہے، سب ایک جگہ جمع ہوگا اور سب کو ان ’پناہ گزینوں‘ کے ساتھ مل کر ایک
دستر خوان پر کھانا ہوگا۔ اس حکم کی تعمیل میں خود امیر المومنین ؓ کا
گھرانہ پیش پیش تھا، مسلسل فاقوں اورکم خوراک کی وجہ سے آپ ؓ بیمار ہوگئے،
چہرے کی رنگت سیاہ پڑگئی، رفقاءؓ نے کئی مرتبہ کہا کہ آپؓ نسبتاََ اچھی غذا
کھایئے، ملت کو آپؓ کی صحت کی بڑی ضرورت ہے، آپ ؓ یہ سنتے اور انہیں اپنی
بصیرت اور دور اندیشی سے خاموش کردیتے، بقول اقبال کہ:خون شہ رنگین تراز
معمار نیست (بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ رنگین تو نہیں ہوتا)۔
ایک دن آپ ؓ نے دیکھا کہ آپ ؓ کا پوتا خربوزہ کھارہا ہے۔اپنے بیٹے (حضرت
عبداللہ بن عمر ؓ) کو بلایا اور کہا کہ مسلمانوں کے بچے روٹی کو ترس رہے
ہیں اور عمر ؓ کا پوتا پھل کھارہا ہے؟، اس کا جواب ہے تمہارے پاس؟، انہوں ؓ
نے کہا کہ بچے کو صبح (دوسرے بچوں کے ساتھ) جو کھجور کی گٹھلیاں ملی تھیں،
اس نے ان کے بدلے ایک بدّو لڑکے سے خربوزہ لے لیا تھا۔ یہ ہے حقیقت اس
’میوہ خوری‘ کی ورنہ عمر ؓ کے گھر والوں کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو دوسرے
قحط زدہ مسلمانوں کو۔آپ ؓ ریاست مدینہ کے لوگوں کے غم میں اس قدر نڈھال تھے
کہ (حضرت اسامہؓ بن زید کے مطابق) صحابہ ؓ کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اگر قحط
رفع نہ ہوا تو حضرت عمر ؓ مسلمانوں کے غم میں جان دے دیں گے۔ قحط کے دور
کرنے کی دوسری تدابیر بھی اختیار کی جارہی تھیں، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے کے
بعد قحط رفع ہوگیا۔
ریاست مدینہ کے اس سخت آزمائشی دور سے سبق ملتا ہے کہ صرف باتوں سے کچھ
نہیں ہوتا،جب تک پہلے خود اور اپنے گھرانے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے اُس
وقت تک کسی بھی کڑے امتحان اور بحران سے نہیں نکلا جاسکتا۔ اب اپنی اپنی
جماعتوں کے لیڈروں کے قول و فعل کا موازنہ کرلیجئے کہ کیا ’عوام کے غم میں
دبلے ہونے والوں‘کی بھی وہی حالت ہے جو قوم کی ؟۔ ان کے رہن سہن اور تعیشات
حیات اورمراعات یافتہ طبقے کا غریب اور متوسط طبقے سے موازنہ فرمالیجئے تو
تلخ حقیقت کو سمجھنے میں قطعاََ دقت نہ ہوگی کہ دنیا کی تاریخ اس پر شاہد
ہے کہ بعض افراد نے اپنے مخصوص جذبات و مفادات کے لئے کس طرح قوم کی قوم کو
تباہ و برباد کیا۔ بعینہ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے، بد قسمتی سے
ارباب حل و عقد میں صلاحیتوں کی پہلے ہی کمی تھی، اس پر ان لوگوں نے ملک
میں اس قدر ہڑبونگ مچا رکھی کہ کئی موقعوں پر ارباب ِ نظم و نسق بوکھلا
گئے، در دیدہ دہن کا طوفان اٹھاتے وقت لمحہ بھر مہلت نہیں رکھتے، بد گوئی
اور عدم برداشت کے ماحول میں جب ایک ایسا ملک جس میں آبادی کا بیشتر حصہ
جذباتی ہو اور وہ بلخصوص مذہب کے نام پر بلا سوچے سمجھے سب کچھ کردینے پر
آمادہ ہوجاتا ہو، اس صورت حال میں لوگوں کے جذبات کا استحصال والے عناصر
بڑی آسانی سے تخریب پیدا کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر آپ ٹھنڈے دل سے غورکریں گے تو یہ حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی کہ
ان بے چارگیوں میں سے بیشتر ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں، ہم نے اس وقت تک
کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا، جس سے پورے ملک کے سامنے ایک مشترکہ نصب العین
آجائے، اس کے برعکس ہم نے ہر ممکن طریقے سے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں،
سب سے پہلی تفریق بنگالی اور غیر بنگالی کی گئی، یہ ایسی گہری تفریق تھی کہ
ہم اس مسئلہ کا حل آل پاکستان کی سطح پر کر ہی نہیں سکے۔ پھر ملک میں
سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ وغیرہ کی تفریقات ایسی بنی کہ ہم اس حصہ ملک
میں ایک وحدت بھی قائم نہیں کرپا رہے۔ پھر صوبوں کی سیاسی و مذہبی جماعتوں
میں کس قدر حساس تفریقات ہیں، اس سے نیچے اتریئے تو میونسپل کمیٹیوں اور
لوکل بورڈوں میں چوہدری، خوانین، ملکوں، سرداروں، صنعت کاروں اورجاگیر
داروں کی تفریقات کے علاوہ مہاجروں اور غیر مہاجروں کی تفریقات بھی شامل
ہوچکی ہیں۔ معاشی تفریقات اور مذہبی تفریقات ان سے الگ ہیں، سوچئے کہ جو
ملک اپنے اندر اس طرح سے بٹ رہا ہو، اس میں طاقت کہاں سے پیدا ہوسکتی اور
خوش حالی کیسے آسکتی ہے۔ لسانیت کے پُر تشدد دور کے نئے آغاز کے لئے جس طرح
باطنی خصائص کھل کر ایک بار پھر سامنے آرہے ہیں، اس پر ملت کو بلا امتیاز
رنگ و نسل غور کرنا ہوگا کہ فسطائیت کا یہ کھیل دوبارہ رچانے کے لئے مذموم
مقاصد کیا اور کیوں ہیں؟۔
بعض حساس طبائع نے اس عالمگیر خرابی کا علاج افراد کی تبدیلی سمجھا، اس میں
کوئی شبہ نہیں کہ افراد کی تبدیلیاں تھوڑی بہت اصلاح کا موجب ہوجاتی ہیں
لیکن جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، ان کا علاج افراد کی تبدیلیوں سے ممکن
نہیں، ان کا علاج پورے کے پورے نظام کی تبدیلی ہی ہوسکتا ہے، ایک ایسا نظام
جس میں سرمایہ داری، زمین داری، کارخانہ داری غرض یہ کہ ہر قسم کی انفرادی
مفاد پرستیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہو۔ ایک ایسا نظام جس میں صوبائی عصبیت،
نسلی، مذہبی، فرقہ پرستی اور طبقاتی تفریقات مٹ جاتی ہوں، ریاست مدینہ کی
طرح فلاحی مملکت کا تصور اور مثال ہمارے سامنے موجود ہے لیکن کیا ہم وہی
کچھ کررہے ہیں جو ریاست مدینہ والوں ؓ نے کیا تھا۔ تو اس کا واضح جواب نہیں
ملے گا۔پہلے ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔ جب تک تفریقات
کا خاتمہ نہیں کرتے، مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا۔ مثالی معاشرہ بنانے کے لئے
تبدیلی نیچے کے بجائے اوپر سے لانا ناگزیر ہے۔
|