بقول امریکہ عالمی امن
کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے اور دہشت گرد کے معنی امریکہ مسلمان لیتا ہے اگر اس
کا بس چلتا تو آسمانی بجلی کی کڑک کو بھی مسلمانوں سے منسوب کر دیتا۔ جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بذات خود دنیا کی بد امنی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ 1980
کی دہائی میں دنیا کو کولڈوار کے عذاب میں مبتلاکیے رکھنے والا امریکہ اب ایک
اورسرد جنگ کا آغاز کرنے جا رہا ہے اور اب کے اُس نے اس کے لیے ایشیا کا انتخاب
کیا ہے۔ اس کو شش کا آغاز امریکی وزیر خارجہ ہیلری نے اپنے دورہ بھارت کے دوران
بھارت کو ایشیا کی قیادت سنھبالنے کی نصیحت اور پیشکش کرتے ہوئے کیا۔ ایسا کرتے
ہوئے یقینا امریکہ کے ذہن میں چین کو نیچا دکھانا تھا کیونکہ امریکہ اپنی گرتی
ہوئی اور چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کی حقیقت سے آگاہ بھی ہے اور خوفزدہ بھی ۔وہ
جانتا ہے کہ عالمی منڈی میں سو ئی سے لے کر الیکٹرانک اور اب توآلات حرب تک پر
چین چھاتا جا رہا ہے بلکہ چھا چکا ہے ۔ بھارت Incredible India کا پرُفریب نعرہ
لگانے کے باوجود ابھی اس کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچا تو پھر اُسکو چین کے
مقابلے پر لانے کی کوئی تُک نہیں ہے لیکن امریکہ کو صاف نظر آرہا ہے کہ چین
اسکے مقابلے پر ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور نہ صرف خطے بلکہ بین
الاقوامی سطح پر ایک اہم مقام حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ ساری دنیا پر راج کرنے کے
منصوبے میں نہ تو انسان کو اہمیت دے رہا ہے اور نہ انسانی اقدار کو ،اور یہی
وجہ ہے کہ وہ بھارت کو اپنا قدرتی اتحادی قرار دیتاہے اور وہ دونوں بڑی کامیابی
سے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ بھارت بھی علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے
ہر حربہ آزمارہاہے وہ افغانستان میں اپنی موجودگی میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے
اور اسی راستے وہ پاکستان میں اپنی دخل اندازی بڑھاتا جا رہا ہے ۔ بین الاقوامی
سطح پر یہ دہشت گرد ممالک ہی عالمی امن کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں یہی امریکہ
کبھی لیبیا میں حالات بگاڑتا ہے کبھی بحرین اور کبھی یمن میں ،دوسری طرف بھارت
،پاکستان اور چین کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر انکے خلاف جنگ آزماہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کا مسلسل ملوث ہونا کوئی ڈھکی چھپی
بات نہیں رہی ہے ۔ بلوچستان پاکستان کا معدنی خزانہ بھی ہے اور گوادر کی بہترین
بندرگاہ کی دولت سے بھی مالامال ہے یہاں چین نے جس طرح کئی منصوبوں میں پاکستان
کی مدد کی ہے وہ پاک چین دوستی کی عظیم مثال ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ صوبہ
بھارت اور امریکہ کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا ہو اہے۔
اب ان تمام حالات کو مد نظر رکھیں اور پھر امریکی خواہش کو کہ بھارت ایشیا کی
قیادت کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں بھارت اپنے ملک کے حالات بھلا کر
ایشیا میں جگہ جگہ موجود ہے افغانستان میں بھارتی کردار ایک انتہائی بے تکی بات
ہے لیکن وہ ایسا کر رہا ہے جبکہ خود وہ اپنے ملک میں علیحد گی کی درجن بھر
تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے۔ کشمیر میں وہ سات آٹھ لاکھ فوج کے ساتھ بر سر
پیکار ہے۔ مائو نواز نکسل باڑیوں سے بھی اُسے شدید مسائل در پیش ہیں نسلی
امتیاز کو اگر چہ بھارت کا برہمن تو مسئلہ نہیں سمجھتا لیکن دلت اور شودر بھی
انسان ہونے کے ناطے کبھی نہ کبھی تو آنکھ کھو لیں اور ہا تھ اٹھا ئیں گے ہی ۔
شدت پسندی کا اگر جائزہ لیا جائے تو بھارت میں یہ لوگ باقاعدہ سرگرم عمل ہیں
اور انہیں اگر چہ حکومتی آشیرباد حاصل ہے لیکن کئی مذاہب پر مشتمل معاشرہ ہونے
کی وجہ سے اسے عوامی مقبولیت کی سند کبھی بھی نہیں دی جا سکتی۔ بجرنگ دل، شیو
سینا، بی جے پی یا آرایس ایس ہندوئوں کے ایک طبقے میں تو قابل قبول ہو سکتے ہیں
لیکن بھارت کے کروڑوں مسلمان انکے نشانے پر رہتے ہیں عیسائیوں کے گرجے جلانے سے
یہ لوگ دلی راحت محسوس کرتے ہیں گوردوارے بھی انہیں گواراہ نہیں تو ظاہر ہے ان
مذاہب کے ماننے والے کروڑوں بھارتی کیسے انہیں قبول کر سکتے ہیں۔ بھارتی معیشت
کے گن گانے والے چھوٹے تو چھوٹے کولکتہ جیسے بڑے شہر میں بے گھر بلکہ بے سائباں
کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے بھارتیوں کی گنتی کر لیں تو اس عظیم الشان
معیشت کا راز کھل جائے گا ۔ شائد امریکہ فلموں میں نظر آنے والے بھارت کو
دیکھتا ہے اور اُسے قیادت کا اہل سمجھتا ہے اور ہاں ایسا سمجھ لینا کہ امریکہ
ایسا بھارت کی ہمدردی اور محبت میں کررہا ہے ایک اور حماقت ہے اُسے دراصل ایک
مہرہ چاہیے جسے وہ چین کے خلاف چل سکے اور ایٹمی پاکستان کے خلاف بھی
نبردآزمارکھ سکے یوں اس علاقے میں جنگ کی صورت حال پیدا کرکے یہاں کے عوام کو
بھوک اور ننگ کے خلاف لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف لڑاسکے اور یہاں کی غربت
میں اتنا اضافہ کرے کہ یہ خطہ ہمیشہ امریکہ کا محتاج رہے دوسری طرف چین کو بھی
مسائل میں الجھا کر اُسکی ترقی کی رفتار کو روک سکے اور اگر کھلی جنگ نہ بھی ہو
تو بھی نفرت کی دیواریں اتنی اونچی رہیں کہ جن کے سائے میں اسلحے کے ڈھیر ضرور
رکھے جاسکیں اور اسلحے کا سب سے بڑا تاجر امریکہ دنیا کو اسلحہ بیچ بیچ کر اپنے
عوام کی خوشحالی کا بندوبست کرتا رہے اور کبھی امن قائم کرنے کے بہانے ان ممالک
کو تباہ و برباد کرتا رہے۔
اس وقت ایشیا امریکہ کا ٹارگٹ ہے اور چین اور پاکستان تو اسکی ہٹ لسٹ پر سر
فہرست ہیں کیونکہ اسکے عزائم کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس لیے اب
امریکہ کے اس کھیل اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے نمٹنے کے لیے ایشائ کی دیگر
اقوام کو مل جل کر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی اور ان کے اتحاد کے لیے ہر ممکن
کوشش بھی کرنی ہوگی ۔پاکستان اور چین کو اپنے بلاک میں مزید ممالک شامل کرنے کی
تگ و دو بڑھانا ہوگی۔ حکومت پاکستان اور سیاستدانان پاکستان کو اس بات کا ادراک
کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے امریکی خواہشات کا نہیں کیونکہ
امریکہ اپنی خواہش کا اظہار کر چکا کہ وہ ایشیا کی قیادت بھارت کو دینا چاہتا
ہے ہمیں نہیں پھر ہم کیوں اسکے اتحادی بن کر خود کو جنگ میں جھونکیں ۔ کیا یہ
بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو امریکہ سے الگ
کرلیں نہ دوستی نہ دشمنی۔ |