فون پر آج انکی گفتگو کا موضوع
رمضان کی تیاری تھی میری قریبی عزیزہ ہیں بیمار بھی رہتی ہیں وہ فکرمند
تھیں کہ رمضان بس قریب ہی آگیا ہے اور رمضان کی تیاری نہیں کر پا رہی ہیں
بیرون ملک سے بیٹی آگئی ہے لھٰذا گھر کے معمولات خاصے ڈسٹرب ہیں اسکے بچوں
کے معمولات میں ۔۔۔۔۔۔!میں نے جاننا چاہا کہ ایسی کیا تیاری ہے جس کے لئے
وہ اتنی فکرمند ہیں تو وہ بولیں کہ رمضان سے پہلے کچن سیٹ ہو جاتا ہے تو
سہولت رہتی ہے چانکہ رمضان میں کھانا پکانا نسبتاً زیادہ ہو تا ہے --
افطار پارٹی پر بھی دوست احباب آتے ہیں لھٰذا کچھ نئی کراکری -پریزر کے لئے
نئے ڈونگے اور دستر خوان کی ڈشیں وغیرہ اچھی خاصی فکر کرنا ہوتی ہے رمضان
سے قبل-----اور ظاہر ہے یہ مردوں کی فکریں تو ہیں نہیں ---رمضان سر پر آگیا
اور اور تیاری کچھ نہیں بس روز سوچتی ہوں بازار نکل جاؤںمگر وقت ہی نہیں مل
پا رہا لگ رہا ہے اس بار بغیر تیاری ہی کے رمضان آجائے گا
"میں سوچنے لگی رمضآن کے استقبال کی فکر کتنی مبارک فکر ہے اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو شعبان میں جمع کر کےرمضان کی تیاری کی طرف
متوجہ کرتے تھے --لیکن مذکورہ فکر ہی کیا حقیقی فکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اور کیا
رمضان کی تیاری میںیہی ایک عنوان ہماری فکر اور پریشانی کا مرکز ہونا چاہئے
عام طور پر معا شرے میں استقبال رمضان کی تیاریوں میں گھروں کی اضافی جھاڑ
پونچھ اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے یہ اپنی جگہ کوئی معیوب
بات نہیں --لیکن ہماری فکر اور شعور کی یہ انتہا نہیں کہ بس گھر صاف ستھرا
ہو جائے
کچن کے اضافی برتن اور اضافی راشن آگیا تو بحیثیت خاتون خانہ میری ذمہ داری
پوری ہو گئی ----اس ساری صفائی اور تیاری میں اہم ترین بات یہ کہ روزے کا
مقصد بیان کیا گیا ہے " لعلکم تتقون" تاکہ تم تقوٰی حاصل کرو
کسی نے پوچھا اللہ کے نبی تقوٰی کا مقام کیا ہے ؟؟؟؟؟آپ نے دل کی طرف اشارہ
کر کے فرمایا " تقوٰی یہاں ہے " تقوٰی جس کا مقام دل ہے اس دل کی صفائی
مظلوب نہیں کیا رمضان سے قبل ۔۔۔۔۔؟ اس شیشہ دل میں بھی تو کتنا گردو غبار
آچکا ہے اپنے قریبی عزیزوں سے مراسم کتنی بار شکستہ ہوئے کتنی بار دل ان
رشتوں سے ٹوٹ ٹوٹ گیا ---- شیشہ کو صاف نہ کریں توکب اپنا عکس دیکھ سکتے
ہیں
اس دل پر کتنے جالے لگے ہیں بدگمانیوں کے، نفرتوں کے ،حسد کے اور بغض کے،
مانا کہ غلطیاں دوسروں کی بھی تھیں لیکن مجھے تو فکر بس اپنے دل کی مطلوب
ہے کہ اسکو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا کر لوں کہ رمضان میں تو اپنے رب کا
جلوہ دیکھ سکوں --اسکی معرفت سے فیضیاب ہو جاؤں---- بس معاف کر دیں سبکو کہ
میں شب قدر کی عظیم راتوں میں کیسے استغفار طلب کروں گی جب میں خود اسکے
بندوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں تو اسکے سامنے معافی کا دامن کیسے پھیلاؤں
گیاسلئے معاف کر دوں تاکہ مجھے بھی اس در سے معافی مل جائے ------!
ایک فکر کی بات یہ ہے کہ جب عام دنوں میں ہم تین وقت دستر خوان پر بیٹھتے
ہیں اور رمضان میں صرف دو وقت تو پھر ہماری مصروفیات اور کچں کے اخراجات
اور لوازمات کی فہرست اتنی لمبی کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
رمضان میں بھوکا رکھنے کی پریکٹس کرانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم اس لذت دنیا
سے باہر نکلیں جس نے ہمیں مادہ پرست بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔!ہم جسمانی لذتوں کے
حصول میں ایسے منہمک ہوئے کہ روحانی تقاضوں کو بھول گئے اسلئے روزہ ہمیں دو
اہم ترین جسمانی تقاضوں یعنی نیند اور بھوک پر کاری ضرب لگانا سکھاتا ہے
لیکن بظاہر بھوکے رہ کر اگر سارا دن ہم افطار کے لوازمات اور اسکی تیاریوں
کی فکر ہی میں لگے رہتے ہیں اور سہ پہر سے ہی کچن کا رخ کرتے ہیں کہ بچوں
کی علیحدہ علیحدہ فرمائشیں پوری کرنا ہو تی ہیں تو پھر تو ہم نے روزے کے
اصل مقصد کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ----پھر نفس میں کہاں ضبط آیا ---پھر
جسمانی تقاضوں سے کہاں ناطہ کمزور ہوا
ہم تو رمضان میں اپنے نفس کی وہ وہ خواہشات پوری کرتے ہیں اسکے وہ وہ ناز
اٹھاتے ہیں جو عام دنوں میں نہیں تو پھر کہاں تزکیہ کا مقصد حاصل ہوا
؟؟؟؟؟؟؟؟
میری چھوٹی بہں کہنے لگی کہ وہ روزے کی حالت میں اور افطار سے گھنٹہ بھر
قبل کچن میں جاتی ہے اور افطار اور کھانے سب سے فارغ ہو کر پھر افطار کے
فوراً بعد تراویح کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے ----اور سب اھل خانہ مسجد
میں تراویح کے لئے جاتے ہیں ---وہ بولی ہمارے میڈیا نے ہمیں یہ باور کرانے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ رمضان لذت کام و دہن کا مہینہ ہے --طرح طرح کے
پکوان، خوش ذائقہ اور مہنگی ڈشیں ، کثرت سے تلی ہوئی چیزوں کی جو ترکیبیں
نشر کی جاتی ہیں حالانکہ رمضان میں ہمیں سادگی کو فروغ دینا چاہئے " وہ
بولی میں ایک دن ماسی کو ساتھ لگا کر مہینہ بھر کا لہسن ادرک اور سرخ پیاز
پیس کر فریز کر لیتی ہوں-- سبزیاں جو کاٹ کر فریز کی جا سکتی ہیں فریز کر
لیتی ہوں---اور دستر خوان پر صرف ایک کھانا ہوتا ہے اور فروٹ ----اور جس دن
افطاری بنانی ہوتی ہے اس دن کھانے کی چھٹی کیونکہ پیٹ تو ایک ہی ہے اسے
اتنا کیوں بھر لیا جائے کہ تراویح میں ڈکاریں اور نیند آتی رہے ----- گھر
میں سبکو ھدایت ہے کہ اپنی پلیٹ گلاس کپ اور چمچے خود دھو کر رکھیں -----
میں تو کوشش کرتی ہوں کہ ماسی سے بھی کم مشقت لوں کیونکہ رمضان میں ملازمین
سے کم مشقت لینے کا بھی بہت اجر ہے
حقیقت یہی ہے جو ہم نے اپنا لائف اسٹائل بنایا ہے اسکا تعلق ہمارے مائنڈ
سیت کے ساتھ ہے ---ہم جو ساچتے ہیں وہی کرتے ہیں ---میری ایک عزیزہ جن کے
کئی بچے ہیں بولیں "آدھا رمضان ترو عید کی تیاری میں اور بازاروں کی نذر ہو
جاتا ہے ----میں نے فیصلہ کیا کہ رمضان میں عید کاکوئی تذکرہ کوئی تیاری
نہیں کرنا کیونکہ عید تو انکی ہے جنہوں نے رمضان کا اور طاق راتوں کا پوروا
پورا حق ادا کیا ہو ----ورنہ تو پھر عید نہیں بلکہ وعید ہے ---اسلئے میرے
گھر کے تمام افراد کے عید کے کپڑے شعبان کے آخر میں استری کر کے ھینگ کر
دیتی ہوں کہ اس طرف سے کوئی فکر نہ رہے ---- باقی میچنگ وغیرہ بچیوں کی
شعبان میں ہی مکمل کرا لیتی ہوں کہ رمضان کے با نرکت دن اور طاق راتوں میں
ان دنیاوی فکروں سے تو ذہن ذہن یکسو ہو جائےکہ ہمارے روزو شب ہماری فکری
صلاحیتوں اور ہماری منصوبہ بندی کے گرد ہی گھومتے ہیں ---ناقص منصوبہ بندی
یا منصوبہ بندی کا فقدان ہماری زندگی کے معیار کو خاصہ ڈسٹرب کرنے کا باعث
بن سکتا ہے
ہمیں اس بات کا پورا شعور ہونا چاہئے کہ رمضان کے دن اور رات کا ایک ایک
لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی ہم اسکا نعم البدل حاصل
نہیں کر سکتے -----ہم میں سے ہر ایک اس پر قادر ہے کہ رمضان کے آغاز میں ہی
ایک فہرست بنالیں کہ کون سے کام انتہائی اہم ہیں جو دوراں رمضان انجام دینا
ہیں جان رکھئے کہ دنیا میں کامیابی انکو ملتی ہے جنکے پاس اپنی تر جیحات کا
درست تعیں موجود ہوتا ہے ----
جہاں ہم سحر و افطار میں بچوں کی غذا کی ضروریات کے لئے حساس ہو جاتے ہیں
وہیں رمضان کو اپنے بچوں کی تربیت کا مہینہ بنائیں --انکے سامنے ایک مسلمان
روزہ دار ماں کا آئیڈیل نمونہ پیش کریں --جو کسی کی غیبت نہیں کرتی ---جو
کسی سے چلا کر بات نہیں کرتی----گھر کی ماسیوں پر غصہ نہیں کرتی
ٹی وی کے سامنے وقت ضائع نہیں کرتی بچوں پر عام دنوں سے زیادہ شفقت اور
مہربانی کرتی ہے ----ہمارا رویہ ہی بچوں کو رمضان کی عظمت کا احساس دلائے
گا اور وہ خود بھی بچنے کی کوشش کریں گے" لغویات" سے اور روزہ درحقیقت ہمیں
"بچانے " کی پریکٹس کا ہی ذریعہ ہے --کیونکہ تقوٰی کے معنی بچنے کے ہیں
-----افطار سے قبل دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے جسوقت عاپ طور پر
خاتون خانہ کچن سے گرم پکوڑے و سموسہ دسترخوان پر بھیجنے میں مصروف ہوتی ہے
اور گھر میں چیخ و پکار کہ شربت بھی ابھی نہیں بنا اور فروٹ چاٹ بھی ابھی
مکس نہیں ہوئی ---دستر خوان پر پلیٹس اور گلاس بھی کم ہیں وغیرہ ---ہونا یہ
چاہئے کہ افطار سے کم از کم 15 منٹ قبل تیاری مکمل کر کے آپ دستر خوان پر
موجود ہوں حدیث کی کوئی کتاب ،قرآن کا کچھ حصہ اسوقت پڑھا جا سکتا ہے
----دعاؤں کی بہترین کتابیں موجود ہیں اجتماعی دعا کی جا سکتی ہے --کیونکہ
وہ بہت انمول وقت ہوتا ہے جب سب اہل خانہ اکٹھے ہوتے ہیں اسوقت کو ایک مان
سمجھداری سے تذکیر اور تربیت کے لئے بھی استعمال کر سکتی ہے ----افطار کا
وقت قبولیت دعا کا اہم ترین وقت ہوتا ہے اسکو اسی لئے استعمال ہونا چاہئے
---
رمضان میں نیکیوں کا سالانہ میلہ لگتا ہے جو آپ کے لئے سالانہ امتحان کا
درجہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ امتحان میں کامیابی صرف خواہشوں سے نہیں بلکہ
امتحان کی بروقت اور بہترین تیاری سے مل سکتی ہے ---وہ تیاری جو میرے اور
آپ کے بس میں ہے ------تو اٹھئے اور نیکیوں کے اس موسم بہار کے لئے اپنی
اور اپنے اہل خانہ کے لئے تیاری کیجئے کہ اللہ نے آپکو ایک بار پھر یہ
سعادت عطا فرمائی ہے کہ نیکیوں کا موسم بہار آپ کے دروازے پر دستک دینے کو
ہے - |