|
|
سرخ گلاب، اُڑتا ہوا Cupid کا تیر، چاکلیٹ، ہاتھ میں دل
پکڑے چھوٹا سا ٹیڈی بیئر اور لال کپڑوں میں ملبوس نوجوان لڑکے لڑکیاں یہ سب
آپ کو پاکستان میں چودہ فروری کو عام ملے گا۔ محبت کے اظہار کا دن دنیا بھر
میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے( Day Valentine ) کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس
کو محبت کا عالمی تہوار کہا جاتا ہے۔ مغرب کا جوش وخروش تو شاید اب پھیکا
پڑ گیا ہے لیکن ہمارے یہاں نوجوان اس دن کو منانا اپنے اوپر فرض تصور کرنے
لگے ہیں۔ |
|
اس دن محبت سے سرشار خواتین وحضرات ”خصوصی ملاقات“ کے
لیے جاتے ہیں، جسے حرفِ عام میں (Dating)کہتے ہیں۔ |
|
عشق ومحبت کے نام پر شان دار محفلیں سجائی جاتی ہیں، جن
میں ”ہر طرح کے مشروبات“ کا استعمال اب ایک عام سی بات ہے۔ |
|
|
|
ویلنٹائن ڈے کیوں منایا جاتا ہے اور اس کے پیچھے کیا
محروکات ہیں؟ یہ دن منانے کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا یہ موضوع ایک الگ بحث
طلب مسئلہ ٹھہرا، میرا سوال تو یہ ہے کہ یہ دن ہمارے ملک میں کیوں اتنی
دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ چلیے بات محبت سے شروع کرتے ہیں۔ |
|
محبت قدرت کا دیا ہوا خوب صورت ترین جذبہ ہے، جو انسان
کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے اور روحانی سکون اور شادمانی عطا کرتا ہے۔ لیکن
ٹھہریے، یہاں بات محبت کی جارہی ہے، اس پاکیزہ جذبے کی جو بے باکی، اوچھے
پن، نفسانی خواہشات سے دامن بچاکر حیا، پاکیزگی اور ہماری سماجی اقدار کا
ہاتھ تھامے اپنا سفر طے کرتی ہے۔ یہ محبت دامن پر داغ نہیں لگنے دیتی، بلکہ
چراغ کی طرح دل میں روشن اور روح میں مہکتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس محبت کے
نام پر بنائے جانے والے ”ضرورت“ اور جبلت کے تحت بنائے جانے والے عارضی
تعلق جسموں اور لمس سے آگے نہیں بڑھ پاتے، یہ دامن پر دھبے لگاتے اور اندر
اندھیرے اور سیاہی بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ حقیقی اور پاکیزہ محبت کو چرچا اور
دکھاوا کی ضرورت ہوتی ہے نہ یہ کسی ایک دن کی محتاج ہے، یہ تو ہر لمحے کو
گل دستوں سے مہکائے رکھتی ہے۔ چناں چہ سچی محبت کرنے والوں کے لیے محبت کا
دن منانا بے معنی ہے۔ |
|
اب آئیے ایک اور پہلو کی طرف۔ ویلنٹائن ڈے ہمارے مردوں
کے تضادات کو بھی واضح کرتا ہے۔ اس دن کسی لڑکی کی طرف پھول بڑھاتا لڑکا،
کسی خاتون کی ہتھیلی پر چاکلیٹ کا پیکٹ رکھتا مرد یا کسی بی بی کو ملاقات
پر اکساتے صاحب کو اگر خبر ملے کہ ایسے ہی پھول اور چاکلیٹ ان کی بہن یا
بیٹی کے لیے آئے ہیں یا اس دن ان کے گھر کی عورت سج دھج کر کسی سے ملنے
جارہی ہے، تو ویلنٹائن ڈے ان کے لیے محبت کے دن کے بجائے یوم سیاہ بن جاتا
ہے۔ پھر محبت بے معنی ہوجاتی ہے اور بات عزت پر آجاتی ہے۔ |
|
|
|
تو صاحب! بات یہ ہوئی کہ اگر محبت پر یقین ہے تو اسے ایک
دن تک محدود نہ کریں اور محبت کو ایک جائز آفاقی جذبہ سمجھنا الگ بات ہے،
اگر محبت کی آڑ میں ہر حد پھلانگ جانا اپنا حق سمجھتے ہیں تو یہ حق اس عورت
ہی کا نہیں جو اس دن آپ سے کہیں ملنے آرہی ہے، اس عورت کا بھی ہے جو آپ کی
دہلیز پھلانگ کر ایسی ہی کسی ملاقات کے لیے نکلی ہے۔ یقیناً آپ ایسا نہیں
کرسکتے، یہی ہماری اقدار کا تقاضا بھی ہے، تو پھر مغرب سے آئے اس تہوار کو
منانے کی ضد چھوڑیے جو مغربی قدروں کے مطابق ہو تو ہو، ہماری تہذیب کے لیے
زہر قاتل ہے۔ |