ارشادِ ربانی ہے:’’ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بے شک ہر
مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ قرآن حکیم غالباً یہی ایک ایسا مقام ہے جہاں
دومتصل آیات کے اندر الفاظ کو من و عن دوہرایا گیا ہے۔ عام طور اس کی وجہ
تاکید بتائی جاتی ہے ۔مولانا امین احسن اصلا حی کے نزدیک اس کامقصود دنیا
میں مشکل اور آسانی کا لازم و ملزوم ہونا ہے۔ دنیا میں مرحلہ وار یہ سلسلہ
یکے بعد دیگرے جاری و ساری رہتا ہے۔ زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہےاور ہر
مسافر کو نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد ہی منزل مقصود پر پہنچتا ہےاس لیے
انسان کو چاہیے کہ ان کو عبور کرنے کا حوصلہ قائم رکھے ۔ اس آزمائش
وامتحان کے بغیر کھوٹے اور کھرے میں حجت قائم کردینے والا وہ امتیاز نہیں
ہو سکتا۔اس کی حکمت منافق اور مخلص، راست باز اور ریاکار میں امتیاز کرنا
ہے تاکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا یا سزا پائے، کسی کو یہ شکایت نہ
رہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔
مشیت الٰہی کے تحت افراد اورا قوام کو متضاد حالات سے دوچار ہوتے رہنا پڑتا
ہے ۔اہل ایمان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھاکہ نبی ٔ برحقﷺ کی قیادت میں
ان کا قافلہ عمرہ کی ادائیگی کے بغیر لوٹ آئے گا۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفارِ
مکہ نے اپنی شرائط منوانے کے لیے بڑی رعونت کا مظاہرہ کیا اورانہیں کامیابی
بھی ملی ۔ اس وقت یہ تصور محال تھا کہ تین سال میں حالات اتنے بدل جائیں گے
کہ اسے توڑنے غلطی کرنےکے بعد اس کے انجام سے گھبرا کر سردارانِ قریش نادم
و پشیمان ہوں گے اورمعاہدے کی تجدید کے لیے اپنے سردار ابوسفیان کو مدینہ
منورہ روانہ کریں گے ۔یہ صورتحال اور بھی سنگین تھی کیونکہ جب مسلمان لوٹے
تھے تو اگلے سال کا اقرار نامہ ان کے پاس تھا ۔ یعنی مسلمانوں کی واپسی
عارضی تھی جبکہ ابوسفیان کوہمیشہ کے لیے بے نیل و مرام مدینہ طیبہ سے خالی
ہاتھ لوٹنا پڑااور بہت جلد فتح مکہ نے انسا نی تاریخ کا دھارا بدل دیا ۔
رب کائنات کے نزدیک ایسی ناقابلِ یقین تبدیلیوں کا برپا ہوجانا بس ایک کن
کا محتاج ہے کہ حکم ہوا اور ہوگیا۔ انسانی تاریخ کی زنبیل اس کی مثالوں سے
بھری پڑی ہے ۔ موجودہ حالات میں بھی اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ اترپردیش
کے پچھلے انتخاب میں کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ بی جے پی کو ایسی زبردست
کامیابی ملے گی ۔ پولنگ کے بعد جو ایکزٹ پول جاری ہوئے تھے ان میں سے کسی
نے 250 سیٹیوں کی پیشنگوئی بھی نہیں کی تھی لیکن بی جے پی کو 323نشستیں
حاصل ہوگئیں۔ اس کے بعد کون سوچ سکتا تھا کہ پانچ سالوں تک من مانی کرنے کے
بعد اس کے امیدواروں کو عوام دوڑا دوڑا کر بھگائیں گے۔ کھدیڑنے کے یہ
مناظرصرف ایک پارٹی کے ساتھ کئی مقامات پررونماہو رہے ہیں حالانکہ سرکار
ڈبل انجن ہے۔ دونوں انجن کی زبردست ٹھاٹ باٹ ہے لیکن ایک سے دھواں اوردوسرے
سے سیٹی کےسوا کچھ نہیں نکلتا ۔ پہیہ جہاں رکا ہے وہیں تھما ہوا ہے۔ اس
مشکل کے بعد حاصل ہونے والی یہ آسانی عارضی ہےیعنی دس مارچ کو ختم ہوجائے
گی یا اسے دوام حاصل ہوگا اس کا علم صرف رب کائنات کو ہے۔
گردشِ لیل و نہار میں تبدیلی کی اس آفاقی حقیقت سے نا واقف یا منکر لوگوں
کی کیفیت قرآن حکیم میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ :’’ اگر کبھی ہم انسان کو
اپنی رحمت سے نوازنے کےبعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا
ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے‘‘۔ گزشتہ انتخاب کے بعد مسلمانوں کی یہی حالت
تھی لیکن بعید نہیں کہ مستقبل قریب کی کامیابی کے بعد ان کایہ رویہ ہو: ’’
اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو
کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّرپار ہو گئے، پھر وہ پھُولا نہیں سماتا اور
اکڑنے لگتا ہے‘‘۔ مقصد زندگی سے ناواقفیت یا مشیت الٰہی کا عدم اعتراف
انسانوں کو افراط و تفریط میں مبتلا کردیتا ہے۔ وہ صبرو شکر کامظاہرہ کرنے
کے بجائے اکڑ فوں دکھاتا ہے یا حزن و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہر کسی کا یہی
رویہ نہیں ہوتا، ارشادِ قرآنی ہے کہ :’’ صبر کرنے والے اور نیکوکارلوگ اس
عیب سے پاک ہیں ‘‘۔ یعنی صبر و استقامت کے ساتھ حق پر ڈٹ کر اپنا فرض منصبی
ادا کرنے والےاہل ایمان ہی راہِ راست پر گامزن ہوتے ہیں۔ رب کائنات کی جانب
سے ان کےحق میں یہ بشارت ہے کہ :’’ اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور
بڑا اجر بھی‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا مستحق بنائے۔
|