’’فیضان کا کام بہت اچھا جارہا ہے‘‘۔
’’ماشااللہ۔ کیا کرتا ہے آج کل؟‘‘ میں نے اپنے قریبی دوست بھٹی سے رسمی طور
پر پوچھا۔
’’آن لائن ٹیوشن پڑھاتا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے حیرت سے بھٹی کی طرف دیکھا جو مجھے اپنے چھوٹے بھائی کے
بارے میں فخر سے بتا رہا تھا۔
میری حیرت اس لیے بھی تھی کہ فیضان جو میرا بھی دوست تھا، اس کی خود
گریجویشن میں سپلی تھی۔ اپنی حیرت دور کرنے کےلیے میں نے فیضان سے ایک
تفصیلی ملاقات کی تو جو تفصیلات سامنے آئیں وہ خوفناک تھیں۔ نہ صرف فیضان
بلکہ سیکڑوں طالب علم مختلف گروپس کے ذریعے اپنے وقتی فائدے کی خاطر اس کام
سے وابستہ ہوکر ڈگری کی کوالٹی پر سوالیہ نشان ثبت کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر
کیسے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
فیضان جو ظاہری طور پر ٹیوشن پڑھاتا تھا درحقیقت وہ جگاڑ کے ذریعے غیر ملکی
تعلیمی واٹس ایپ گروپس کا حصہ ہے۔ غیر ملکی طلبا کی اسائنمنٹس ڈالرز میں
پکڑتا ہے اور پاکستانی تعلیمی گروپس میں روپوں میں سیل کرتا ہے اور یوں اسے
ایک بڑی رقم کمیشن کے طور پر حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی طلبا کی
جگہ ان کے پاس ورڈز کے ذریعے امتحانات اور دیگر علمی سرگرمیاں بھی سرانجام
دیتا ہے۔ جو درحقیقت طالب علم کو خود کرنی ہوتی ہیں مگر نکمے، نکھٹو اور
امیر طالب علم آن لائن نظام تعلیم کی آڑ میں دوسروں کی خدمات حاصل کرلیتے
ہیں اور یوں وہ خود عیاشی کررہے ہوتے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ کے ایک مستند مفتی صاحب کے مطابق شرعی طور پر یہ کمائی حلال
نہیں ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کورونا کی وجہ سے آن لائن نظام تعلیم مجبوری بن چکا
ہے۔ کتابیں ای بکس، پروجیکٹ فائلیں گوگل کلاس روم، وائٹ بورڈ ٹیبلٹ اسکرین
اور کلاس روم کے روبرو تجربے نے آن لائن پلیٹ فارم کی جگہ پُر کرلی ہے۔ اس
نظام نے مشکل ترین وقت میں بھی طلبا کے تعلیمی کیریئر کو نقصان پہنچائے
بغیر تعلیم سفر ممکن بنایا ہے۔ یہ ایک طرح کا لچکدار نظام ہے۔ مثال کے طور
پر جو طالب علم دیر سے سمجھتے ہیں وہ اپنی رفتار سے بار بار ویڈیوز دیکھ کر
سیکھ سکتے ہیں۔ اچھی میموری رکھنے والے وقت بچاکر اسے دیگر مفید کاموں میں
استعمال کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ نظام کم خرچ اور وقت کی بچت کا ذریعہ
بھی ہے۔ مگر عصر حاضر کے نکمے اور کام چور طلبا اس نظام کی خامیوں کی بدولت
اس کا جو حشر کررہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے۔ مزید برآں یہ نظام تعلیم کم
ازکم پاکستان کی حد تک کارآمد نہیں ہے۔ کیونکہ:
پاکستان میں ہر ایک کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے، بالخصوص ہمارے دیہات
میں رہنے والے طلبا کےلیے انٹرنیٹ سے جڑے رہنا آسان نہیں ہے۔ ہمارے دیہاتوں
میں بجلی کی ہمہ وقت ترسیل ممکن نہیں رہتی۔ انٹرنیٹ یا تو دستیاب نہیں ہوتا
یا پھر اس قدر سست ہوتا ہے کہ موبائل کے سگنلز ہی بمشکل دستیاب ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی فراہمی کے تو کیا ہی کہنے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی تمام تر مہارتوں کے باوجود ابھی ہم
اس میدان میں دنیا سے پیچھے ہیں۔ تمام کورسز کی آن لائن عدم دستیابی بھی
ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ہمارا نظام تعلیم پہلے سے اس قدر بوسیدہ ہے کہ امتحانی پرچہ جات امتحان سے
قبل ہی سوشل میڈیا پر باآسانی دستیاب ہوتے ہیں مگر طلبا پھر بھی فیل ہوجاتے
ہیں۔ اور اب آن لائن نظام تعلیم کی بدولت طلبا اساتذہ کی پہنچ سے دور ہوکر
گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر نہیں حاصل کریں گے تو کیا کریں گے۔ اس نظام
تعلیم میں ہمارے طلبا ڈگری تو حاصل کررہے ہیں مگر تعلیم نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کی بقا کےلیے تعلیم سے وابستہ ماہرین
سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالیں تاکہ کورونا سے بچاؤ
بھی ممکن ہوجائے اور ہم آن لائن نظام تعلیم سے روایتی نظام تعلیم کی طرف
لوٹ جائیں۔ بصورت دیگر آن لائن نظام تعلیم ہمارے پہلے سے بوسیدہ تعلیمی
ڈھانچے کو برباد کردے گا۔
|