عدالتِ عظمیٰ نے استاد کی لاج رکھ لی۔ طالب علم نے
عدالت کے حضور درخواست گزاری تھی کہ اُسے سکول والوں نے نکال دیا ہے،
دوبارہ داخلہ دیا جائے۔ وجہ سکول سے اخراج کی ’مِس کنڈکٹ‘ بتائی گئی تھی۔
عدالتِ عظمیٰ کے تین معزز ججوں پر مشتمل بینچ نے سماعت کی، جس کی سربراہی
خود چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے تھے۔ طالب علم کے وکیل کا موقف تھا کہ سکول
والے ہمیشہ کے لئے سکول سے کسی کو خارج نہیں کر سکتے۔ جسٹس قاضی امین نے
اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’․․ استاد بہترین جج ہوتے ہیں ․․ آپ لوگ بچوں کی
تربیت کریں نہ کہ اساتذہ کو جوابدہ ٹھہرائیں․․․ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری
کرنے میں ناکام ہو چکی ہے․․ اگر بچے کے حق میں فیصلہ ہوا تو سکول جاکر کہے
گا کہ سپریم کورٹ نے اسے ڈانٹنے سے منع کیا ہے۔ استاد بچے کو غلط کام سے
روکنے سے دشمن نہیں بن جاتا․․․‘‘۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’․․ تعلیم تو گھر
میں بھی حاصل ہو سکتی ہے، سکول ڈسپلن کی پاسداری کے لئے ہوتا ہے ․․ والدین
آن لائن تعلیم سے ناخوش تھے، بچے بگڑ رہے تھے۔ بچہ جب سکول جاتا ہے تو اسے
ضابطہ اخلاق کا علم ہوتا ہے ․․․ ہماری کلاس میں کسی نے ایسی حرکت کی ہوتی
تو اسے سزا ملتی تھی․․․‘‘۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’کلاس میں ملنے والی
سزا کی بدولت ہی ہم یہاں بیٹھے ہیں․․‘۔عدالت عظمیٰ نے طالب علم کے اُسی
سکول میں دوبارہ داخلے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالتِ عالیہ بھی اِس
درخواست کو مسترد کر چکی تھی۔
اپنے ہاں چند سالوں سے’’ مار نہیں پیار‘‘ کانعرہ نما حکم دیا گیا، پہلی
ترجیح کی حیثیت سے اس پر بھر پور عمل کیا گیا۔ حکومت نے تو عمل کروا لیا،
مگر اس آزادی کے اثراتِ بد پھیلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگی۔ بچے بے خوف
ہوتے گئے اور وقت آیا کہ بات بدتمیزی تک جا پہنچی۔ سکول میں چونکہ مختلف
مزاج کے بچے اکٹھے بیٹھتے ہیں، اس لئے استاد کو مسائل کا سامنا رہتا ہے،
اگر کلاس میں ڈسپلن ہوگا تو استاد بچوں کو تعلیم دے سکے گا، ہنگامہ آرائی ،
شرارت اور شور میں کوئی پڑھائے گا کیا اور کوئی پڑھے گا کیا؟ ایسے میں
تعلیم کا حرج ہی نہیں ہوتا، بات استاد کے احترام سے ہوتے ہوئی دوسرے طلبا
کی حق تلفی وغیرہ تک بڑھ جاتی ہے۔ ’’مار نہیں پیار‘‘ کے حکم کے تحت استاد
کو پابند کیاگیا کہ وہ بچے کو جسمانی سزا نہیں دے گا، جسم کے کسی حصے کو
تکلیف نہیں پہنچائے گا ،بچے کو گھور کر نہیں دیکھے گا، ذہنی طور پر پریشان
نہیں کرے گا، گویا کسی بھی صورت میں بچے کو کچھ بھی نہیں کہے گا۔ اس قانون
کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف بچے کی آزادی اور استاد پر پابندی کا قانون ہے، اس
میں جہاں استاد کو قانون کی خلاف ورزی پر جوابدہ قرار دیا گیا ہے، وہاں بچے
پر کسی قسم کا کوئی ضابطہ لاگو نہیں کیا گیا، یعنی استاد مکمل پابند ہے اور
طالب علم مکمل آزاد۔ یہ انوکھا دستور صرف تعلیمی اداروں میں ہی جاری کیا
گیا، جہاں نئی نسل کی آبیاری اور تیاری کی جانی ہوتی ہے۔
’’مار نہیں پیار‘‘ کا پیار بھرا نعرہ دینے والوں نے یہ اپنے حق میں یہ
فلسفہ اور دلیل پیش کی ہے، کہ بچے کو مارنے سے ، اس پر سختی کرنے سے، اس کو
ڈانٹنے سے، کسی بھی قسم کی سزا دینے سے اس کی ذہنی صلاحیتیں دَب جاتی
ہیں،سلب ہو جاتی ہیں بلکہ تلف ہو جاتی ہیں، اس کا کچا ذہن پھلنے پھولنے سے
محروم رہ جاتا ہے۔ الٹا اس کے ذہن میں انتقام اور نفرت جیسے جذبات پرورش
پانے لگتے ہیں، ایسے بچے بڑے ہو کر معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔ یہ قانون
نہ جانے کن لوگوں نے بنایا ہے، یا نئے زمانے کے ضابطے بدل گئے ہیں، کہ اس
وقت پاکستان بھر میں جتنے لوگ چند برس قبل تک ریٹائر ہوئے ہیں، یا اگلے چند
برس میں ریٹائر ہوں گے، ان میں سے ایک بڑی اکثریت نے ٹاٹ سکولوں میں تعلیم
حاصل کی ہے، کیونکہ وقت کم ہی سکول ایسے ہوں گے جہاں ٹاٹ کی بجائے فرنیچر
تھا۔ ہاں البتہ اپنے ہاں نہایت ہی اقلیت نام نہاد اشرافیہ تب بڑے نجی
سکولوں میں پڑھے اور اِس وقت حکومتی عہدوں پر قابض ہیں، جبکہ سرکاری
ملازمتوں میں اُنہی لوگوں کی اکثریت ہے جنہوں نے ’’مار نہیں پیار‘‘ کے دلکش
نعرے سے قبل تعلیم حاصل کی اور اُس ماحول سے پوری طرح ’’مستفید‘‘ ہوئے، سزا
کے جس قدر تقاضے تھے ، وہ بھی سب نباہے گئے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چند وفاقی وزراء کو بہتر
کارکردگی پر تعریفی اسناد سے نوازا، اُن کی اس تقسیم پر کون سا وزیر خوش ہے
اور کون ناراض یا پریشان، یہ الگ کہانی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے قوم کو
بتایا کہ ترقی اور بہتری کے لئے ’’جزا اور سزا‘‘ کی اہمیت سے انکار نہیں
کیا جاسکتا۔ یہ تو اُن لوگوں کی بات ہے جو مختلف پارٹیوں کے گھاٹ سے پانی
پی چکے ہیں، وسیع تجربہ رکھتے ہیں، منجھے ہوئے لوگ ہیں۔ کچے ذہن اور نوآموز
بچوں کو بھی غلط اور درست سمجھانے کے لئے کسی جزا اور سزا کی ضرورت کیوں
نہیں؟ سزا میں تخفیف اور اعتدال ہونا تو بہت ضروری ہے، بچوں کو بے دردی سے
ظالمانہ پٹائی سے گریز ضروری ہے، مگر کسی بھی صورت میں صرف بچوں کو سزا سے
استثنا حاصل ہونا اور استاد کو ہر صورت میں سزا ملنا کہاں کا انصاف ہے؟ ایک
استاد بچے کو کھڑا کر کے ڈانٹ دے تو اُس کی شامت آجائے، معطلی، طلبی، بے
عزتی، سزا اور بھی نہ جانے کیا کچھ۔اور بچہ استاد کے احترام کو پاؤں کی
ٹھوکر پر رکھے اور سرِ عام استاد کی توہین کرے تو اُسے کسی رکاوٹ کا سامنا
نہ کرنا پڑے !! اس آزادی کے بُرے اثرات آگے آنے والے چند سالوں میں ایک
عذاب کی صورت قوم پر نازل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اساتذہ
کے سینے پر مونگ دلنے والوں کا راستہ بند کرکے ایک قابلِ تحسین فیصلہ صادر
کیا ہے۔ شکریہ عدالتِ عظمیٰ! مبارک باد محنتی اور قابلِ احترام اساتذہ!
|