برصغیر پاک وہند میں صرف پانچ سال حکومت کرنے والے
بادشاہ کے دور میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنکی ثمرات آج تک موجود ہیں آپ
یوں کہ لیجئے کہ اس بادشاہ کا پانچ سالہ مختصر سا دورِ حکومت ایک پلڑے میں
جبکہ پوری مغلیہ سلطنت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو بھی اس کا پلڑا بھاری
ہو گا مغلیہ سلطنت کے بادشاہ انتہائی کوشش کے بعد بھی اسکی برابری نہ کر
سکے اس بادشاہ کا نام شیر شاہ سوری تھا کہتے ہیں کہ ایک دفعہ شیر شاہ سوری
کا بیٹا عادل شاہ ہاتھی پر سوار آگرہ کی گلیوں میں گھوم رہا تھا اس نے
دیکھا کہ ایک حسین و جمیل دوشیزہ اپنے غسل خانے میں نہا رہی ہے شہزادے نے
ہاتھی وہاں ہی روک لیا اور ایک اوباش کی طرح پان کا بیڑہ اُٹھا کر اسکے جسم
پر مارا وہ مہاجن کی بیوی اور ایک حیا دار عورت تھی اس قدر بے عزتی برداشت
نہ کر سکی اور خود کشی کی طرف راغب ہوئی لیکن اسکے شوہر نے اسے روک لیا اور
وعدہ کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو کر شہزادے کی بے باکی کا سارا
واقعہ سنایا یہ سنتے ہی شیر شاہ سوری سخت غضبناک ہوا اور حکم جاری کیا کہ
مہاجن اسی طرح ہاتھی پر سوارہو کر عادل شاہ کے گھر جائے اور اسکی بیوی یعنی
بادشاہ کی بہو کو برہنہ کر کے پیش کیا جائے اور مہاجن اسی طرح پان کا بیڑہ
پھینکے یہ حکم سن کر دربار کانپ گیا امراء و اراکین دربار نے شہزادے کی
ناموس کی خاطر التجاء کی جبکہ یہ معاملہ بادشاہ کے اپنے گھر کا تھا لیکن
شیر شاہ کا حکم اٹل تھا جب مہاجن نے عدل و انصاف کا یہ فیصلہ سنا تو شیرشاہ
سے درخواست کی کہ وہ اپنا دعوہٰ واپس لیتا ہے اب ہم ترازوکے دوسرے پلڑے میں
اپنے معاشرے کو رکھتے ہیں کہ اکیسوی صدی میں انصاف کا حصول کس قدر مشکل ہے
نہ جانے کتنے ہی لوگ جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں صرف اس لیے کاٹ رہیں
ہیں کہ انکے پاس حصول انصاف کے لیے پیسے نہیں ہزاروں مقدمات زیر التوا پڑے
ہیں جبکہ نسلیں انصاف کے حصول کے لیے ختم ہو جاتی ہیں اُم رباب اور نایاب
سکندر اُرمانی جیسی کتنی ہی قوم کی بیٹیاں انصاف لے لیے دربدر پھر رہی ہیں
مگر حالات اپکے سامنے ہیں آپ میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ انصاف
کا نہ ملنا ظلم و زیادتی اور بربریت کو فروغ دیتا ہے جس قدر انصاف ناپید
ہوگا اس قدر ظلم عام ہو گا انصاف کے حصول کے لیے پہلا گھر تھانہ ہے اور
وہاں سے ہی ظلم کی ابتدا ہوتی ہے محکمہ پولیس اور حکومت پنجاب کے بہت سے
اقدام کے باوجود ابھی تک تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو سکا اور ابھی مستقبل
قریب میں اسکے کوئی اثار بھی نظر نہیں آرہے حکومت کو اس پہلو پر خصوصی توجہ
دینا ہوگی کہ وہ تھانہ کلچر کو تبدیل کرے تھانے میں آنے والے لوگوں کو یہ
احساس ہو کہ انکو یہاں سے انصاف ملے گا ہمارے ایک دوست کے مطابق ہمارے
معاشرے میں اﷲ کے بعد انسان کی عزت پولیس کے ہاتھ میں ہوتی ہے آپ کُلی طور
پر دیکھیں تو ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے محسوس ہوتا کہ ہم
انسانوں کی بستی میں نہیں بلکہ کسی جنگل میں رہتے ہیں جہاں جسکی لاٹھی اسکی
بھینس والا قانون لاگو ہے تاریخ کے یہ سبق صرف ہماری کتابوں کی زینت ہی
رہیں گے یا سکے روشن پہلو کو معاشرے کا حصہ بھی بنانا ہو گا کیا حکمران
کبھی لمبے اقتدار کے حصول کے علاوہ شیر شاہ جیسے نایاب پانچ سال حکومت کر
پائیں گے
|