اے چاند یہاں نہ نکلا کر

جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان کے اٹھائیسویں 28th) (چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا ہے۔پاکستان کے پہلے جج جناب جسٹس سر میاں عبدالرشید تھے۔دوسرے جناب جسٹس منیر تھے جنہوں نے نظریہ ضرورت کا ایسا ڈول ڈالا کہ آج بھی قوم ان کے اس فیصلے کو بھگت رہی ہے۔ لیکن جسٹس منیر کو شاید کبھی احساس بھی نہ ہوا ہو، شاید اتنے بڑے لوگوں کے احساسات تھوڑے مختلف ہوتے ہیں۔اس کے بعد بہت سے چیف جسٹس آئے مگر، چوتھے چیف جسٹس جناب کارنیلیس جو عیسائی تھے اور اکیسیسویں چیف جسٹس جناٍب رانا بھگوان داس جو ہندو تھے ،کے جیسی نیک نامی کسی مسلمان چیف جسٹس کے حصے میں نہیں آئی۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی جج کے اچھے یا اچھے نہ ہونے کے بارے فیصلہ وقت کرتا ہے اور وہ وقت ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد آتا ہے۔ ہمارے بڑی تعداد میں رعونت کے مارے ججوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ معاشرے میں صرف جج ہی نہیں بہت سے دوسرے لوگ بھی قابل عزت ہوتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے میں ان کی نیک نامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہوتی لیکن عدالت میں زیادہ تر ججوں کا رویہ ہر بندے کی تضحیک کرنے جیسا ہوتا ہے ، ایک سابق چیف جسٹس نے ایک نہیں کئی نامور لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو کسی نے بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا۔ یہ میرے خیال میں ایک طرح کی توہین عدالت ہی ہے۔ میں توہین عدالت اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ جج جو اپنا رویہ اپنے عہدے کے شایان شان نہیں رکھ سکتا وہ خود توہین عدالت کا مرتکب ہوتا ہے۔جج اگر صحیح اور دیانتدار فیصلے کریں تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد معاشرے میں پوری شان سے سر اٹھا کر چل سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوے فیصد جج ریٹائرمنٹ کے بعد گردن جھکائے اور سر چھپائے پھرتے ہیں۔ اپنے مخصوص حلقوں کے سوا عام لوگوں کا سامنا کرنا ان کے لئے دشوار ہوتا ہے۔کچھ دبی دبی کہانیاں جو ان کی سروس کے دوران لوگ سناتے ڈرتے ہیں، نہ صرف منظر عام پر آتی ہیں بلکہ بہت سے نئے کچھ صحیح اور کچھ غلط قصوں کو ان سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔بہر حال نئے چیف جسٹس حلف لے چکے اور ان کا کہنا ہے کہ ججوں پر نہیں ان کے فیصلوں پر اعتراض کیا جائے۔ کہتے ہیں جج اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں۔ ان کے فیصلے ان کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی فیصلے پر تبصرہ کریں اور فیصلہ کرنے والے جج کی ذات کو اس تنقید سے محفوظ رکھیں۔لیکن ان کے حکم کے مطابق میں کسی جج کی بات نہیں کروں گا البتہ ایک تازہ فیصلے کے بارے ضرور کچھ کہوں گا۔

میں ہمیشہ سے یہ بات کہتا ہوں کہ ہمارا نظام انصاف خالصتاً طبقاتی ہے۔ اس ملک کے جو مقدس لوگ ہیں ، عدالتیں ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور میرے جیسے عام لوگ جو فقط اس ملک میں کیڑے مکوڑوں کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں سمجھے جاتے ، جو اچھا وکیل بھی نہیں کر سکتے ، ان کی کوئی جج سنتا بھی نہیں جب کہ مقدس لوگ اپنی مرضی کے وکیل اور منشا کے فیصلے کروانے میں ہمیشہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہیں۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔حال ہی میں ہونے والے سپریم کورٹ کے قاضی فائز عیسیٰ کے بارے فیصلے نے میری اس بات کی کھل کر تائید کی ہے۔جناب جسٹس فائز عیسیٰ کے کیس میں 100 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں ججوں نے قران پاک کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ اﷲکے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی پس و پیش نہیں کر سکتے۔ایک جج بھی دیگر افراد اور سرکاری عہدیداروں کی طرح اپنی غلطی اور کوتاہی کے لئے قابل احتساب ہوتا ہے۔کسی جج کا اپنے خلاف آنے والی شکایت کے مواد پر سپریم جوڈیشنل میں وضاحت دینا لازمی ہے۔کیونکہ ایک جج اور عدلیہ کی ساکھ بچانے کے لئے یہ نہایت اہم ہے۔اختلافی نوٹ میں یہ کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق نہ ہونے کی دلیل میں کوئی وزن نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو تجارت اور کاروباری معاملات میں ملوث ہونے پر انکوائری کے بعد مستفیٰ ہونا پڑا۔

اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کے مطابق ایک غیر مطمن صورت حال پیدا ہو گئی ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ عدالت نے انصاف کی فراہمی کے عمل کے دوران اپنے ایک شخص کے لئے مختلف معیار اپنایا ہے۔ایک جج انصاف کی فراہمی کی بنا پر معاشرے میں بلند ترین مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے طبقہ اشرافیہ کا حصہ ہوتا ہے۔اس کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران سچائی کا سامنے نہ آنا اﷲکے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔اﷲنے تو معاشرے میں امتیازی سلوک سے منع کر رکھا ہے۔مگر یہ سب کچھ اختلافی نوٹ میں ہے۔ وہ جنہوں نے فیصلہ دیا ،یقیناً انہوں نے بھی اپنے انصاف کے حق میں بہت کچھ کہا ہو گا۔ انہوں نے اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے اپنی ہر چیز داؤپر لگائی ہو گی۔یہ ہمارے نظام انصاف ہی کا خاصہ ہے کہ ہمارے پاس ہر صحیح اور غلط کام کی دلیل ہوتی ہے اور ہمارے جج اﷲکو بھول کے اپنی مرضی کی دلیل قبول کر لیتے ہیں۔ اس قدر مقدس لوگوں کو پوچھنا بھی تو جہنم قبول کرنے کے مترادف ہے۔اس ملک میں آپ اﷲسے گلہ تو کر سکتے ہیں ججوں کے بارے میں کچھ کہتے ڈرتے ہیں کہ توہین عدالت کا قانون ہی انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے رکھا ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ اس ملک میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو فقط اﷲ سے ڈرتے اور کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔

اس فیصلے سے پہلے دنیا کے 139 ممالک میں ہماری عدلیہ 130 نمبر پر تھی ۔ امید ہے اس فیصلے کے بعد رپورٹ دینے والے پاکستان کا درجہ بڑھا کر اسے 139 پر براجمان کر دیں گے۔لیکن ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ ہم نے پہلے کچھ شرم محسوس کی تھی اور نہ 139 نمبر پر جانے کے بعد محسوس کریں گے۔میں قانون کا تو طالب علم نہیں مگر کسی بھی معاشرے میں جو بہترین اخلاقی قدریں ہوتی ہیں میں ان پر ایمان رکھتا ہوں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی جج پر اس قدر سنگین الزمات ہوں تو اخلاقی طور پر وہ خود مستفیٰ ہو جاتا ہے یا کم از کم رخصت پر چلا جاتا ہے کہ انکوائری کے دوران اثر انداز ہونے کے الزام سے بھی بچے اور اگر الزام ثابت نہ ہوں تو اس کی باعزت واپسی ممکن ہو۔ وہاں کی سول سوسائٹی بھی ایسے حالات پیدا کرتی ہے کہ جج پوری طرح جوابدہ ہو ۔ مگر ہمارے ہاں ہر چیز خاموش ہے۔ حبیب جالب نے بہت سچ کہا ہے،
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442512 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More