فنکار کبھی مرتے نہیں

 کچھ لوگ خوشبو کی طرح ہوتے ہیں،وہ رہیں یا نہ رہیں ، ان کا کردار ہمیشہ مہکتا رہتا ہے ، ان کی خوشبو باقی رہتی ہے ،ان کا چراغ روشن رہتا ہے ،ان کی یا ددلوں میں زندہ رہتی ہے اور جو دلوں میں رہتے ہیں وہ اگر دنیا میں نہ بھی رہیں تب بھی وہ دلوں میں ہی رہتے ہیں کیونکہ وہ دلوں کے مالک مکان بن جاتے ہیں ،پیسے اور دولت سے بنے ہوئے مکان اور دل میں بنے ہوئے مکان میں بڑا فرق ہوتا ہے کیونکہ پیسے اور دولت سے بنے ہوئے مکان بیچے اور خریدے جا سکتے ہیں مگر دل میں بنایا ہوا گھر دولت کے ترازو پر نہیں تولا جا سکتا ۔ شاعر،ادیب ، ہنر مند،گلوکار اور فنکار اپنی زندگی میں لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں اور رہتی دنیا تک کسی نہ کسی حوالہ سے ان کے کرادر کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے ۔

خیبر پختونخوا وطنِ عزیز کا بڑا مردم خیز صوبہ ہے ،یہاں ایسے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فن اور کردار سے بے شمار لوگوں کو متائثر کیا اور عام آدمی کے دل میں اپنی یادیں چھوڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے مگر کچھ ایسے بھی ہیں ،جو زندہ ہیں اور وہ گزرے ہوئے فنکاروں کی یاد میں شاندار اورباوقار پروگرام منعقد کر کے لوگوں کے دلوں میں ان کے کردار کی جوت جگاتے ہیں ۔ ان میں ایک معتبر نام معروف کمپئیئر اور بے لاگ تبصرہ نگار ’’ جمشید علی خان ‘‘ ہیں جو ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مقبول پروگرام دی لیجنڈ اف خیبر پختونخواThe Legends of KP) ( جمشید علی خان کے ساتھ ‘‘ پیش کرتے ہیں ۔ یہ پروگرام کئی لحاظ سے قابل ِتعریف اور خراجِ تحسین کا مستحق ہے ۔ کیونکہ اس میں وہ نہ صرف یہ کہ فنونِ لطیفہ اور شو بز سے تعلق رکھنے والے ،ابدی نیند سوئے ہوئے گزرے لوگوں کے فن پر بات کرتے ہیں بلکہ موجودہ نئے فنکاروں کے حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں گویا ان کا یہ ٹی وی شو نئے فنکاروں کے لئے ایک ایک اکیڈمی کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ۔

گزشتہ روز انہوں نے پاکستانی فلم ایکٹر، سنگر، اور ڈائرکٹر محمد سعید خان عرف رنگیلا ، صفیہ رانی ‘ خان روشن خان اور پشتو کے ناقابلِ فراموش سنگر کشور سلطان کے بارے میں ریڈیو پاکستان پشاور کے ہال میں ایک پروگرام منعقد کیا ، اس سے قبل وہ خیبر پختونخوا کے متعدد فنکاروں کے بارے میں پروگرام منعقد کر چکے ہیں ۔ ان پروگراموں میں نہ صرف یہ کہ گزرے ہوئے فنکاروں کے فن کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے بلکہ سامعین کو ان سے متعلق بعض ایسے گوشوں کو بھی سامنے لیا جاتا ہے ۔جس کے متعلق عام طور پر کسی کو علم نہیں ہوتا ۔ مثلا مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ معروف کامیڈین ’’رنگیلا ‘‘ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ’کرک ‘ میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے سب سے پہلے پشاور میں رنگساز کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اور بعد ازاں لاہور کوچ کر گئے تھے ۔ اسی طرح دیگر فنکاروں کے بارے میں بھی سامعین کے سامنے ان کے بعض خفیہ گوشے سامعین و ناظرین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔ دراصل یہ لجنڈز وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے غم بھلا کر دوسروں میں خوشیاں بکیھرتے ہیں ۔فلم ہو، ٹی وی شو ہو ،کامیڈی پروگرام ہو یا اپنی آواز کا ترنم ہو ، کسی نہ کسی صورت میں اپنے سامعین و ناظرین کو خوشگوار لمحات مہیا کرتے ہیں ۔ان کی بے مثال مہارت،فنی کمال اور ہنر مندی مستقبل کے فنکاروں کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایسے بے مثال لوگوں کو یاد کرنا یقینا ایک احسن قدم ہے مگر میری رائے ہے کہ وہ لیجنڈز، وہ ہنر مند و فنکار جو زندہ ہیں ،متحرک ہیں ، ان کے بارے میں بھی ان کیحوصلہ افزائی کے لئے ان کے زندگی میں اس طرح کے پروگرامز پیش کئے جائیں جس طرح ’’ جمشید علی خان ‘‘ ٹی وی کے پروگرام ’’ دی لیجنڈ ‘‘ میں پیش کرتے ہیں ۔ اگر چہ فنکار کبھی مرتے نہیں مگر ان کی زندگی میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا عوام اور حکومت دونوں کا فرض بنتا ہے ۔ امیدِ واثق ہے کہ حکومت ادیبوں، شعراء اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے سٹیج شو منعقد کرنے اور مالی معاونت فراہم کرنے کے لئے آگے بڑھنے میں ٹال مٹول کرنے کی بجائے عملی قدم اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی اور خوشیاں بانٹنے والوں میں خوشیاں تقسیم کرنے کے لئے بِلا ترّدد قدم اٹھا لیا جائے گا ۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284860 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More