پی ایس ایل کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
.نوجوان لڑکوں کے اتنڑ اور ڈانس نے سب کے دل تو موہ لئے لیکن نوجوان لڑکیوں کی ڈانس نے بیشتر لوگوں کو حیران و پریشان کردیا کیونکہ بارہ سے چودہ سال کی لڑکیوں کے بچیوں سے کلچرل کے نام پر ڈانس کروانا بیشتر شرکاءکو برالگ رہا تھا.اگر بڑی عمر کے بچیوں کے بجائے یہ کم عمر بچیوں سے ڈانس کروایا جاتا تو شائد بہتر بھی ہوتا لیکن..
|
|
|
پشاور کے سپورٹس کمپلیکس میں ریجنل سپورٹس آفس کے تعاو ن سے پی ایس ایل، پشاور سکریبل لیگ کے مقابلوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں مختلف سرکاری سکولوں کے بچوںسمیت پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کو لایا گیا تھا .افتتاحی تقریب کیلئے وقت صبح نو بجے دیا گیا تھا مگردس بجے تک مختلف سکولوں کے بچے تقریب میں شرکت کیلئے پہنچتے رہے. سرکاری سکولوں کے بچے پیدل مارچ کرتے ہوئے جبکہ پرائیویٹ سکولوں کے بچوں و بچیاں اپنے ٹرانسپورٹ میں پہنچے. جہاں پر خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا صبح نو بجے شروع ہونیوالی تقریب گیارہ بجے ڈپٹی کمشنر کی آمد پر شروع ہوئی جس کی وجہ سے دس بجے سے گیارہ بجے تک سکولوں کے بچے کھڑے کھڑے ہو کر تھک گئے تھے اورایک گھنٹے انتظار کے بعد پی ایس ایل ، پشاور سکریبل لیگ کی افتتاحی تقریب کاباقاعدہ آغاز ہوا.
خوبصورت کپڑوں میں ملبوس بیشتر بچوں نے پہلی مرتبہ پشاور سپورٹس کمپلیکس کی بڑی اور کھلی جگہ کو دیکھا تھا اسی وجہ سے بیشتر بچے بھاگ دوڑ میں مصروف عمل رہے.ڈپٹی کمشنر کی آمد کے موقع پر بچیوں کا ڈانس بھی رکھا گیا تھاجس سے یہ تقریب سپورٹس سے زیادہ کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی تقریب لگ رہی تھی.ڈپٹی کمشنر پشاور خالد محمود نے آمد کے چند لمحے بعد بتایا کہ انہیں ضروری میٹنگ کیلئے جانا ہے اس لئے پروگرام آرگنائزر نے تقریب کے مختلف حصے کو مکمل طور نظر انداز کیا .نوجوان لڑکوں کے اتنڑ اور ڈانس نے سب کے دل تو موہ لئے لیکن نوجوان لڑکیوں کی ڈانس نے بیشتر لوگوں کو حیران و پریشان کردیا کیونکہ بارہ سے چودہ سال کی لڑکیوں کے بچیوں سے کلچرل کے نام پر ڈانس کروانا بیشتر شرکاءکو برالگ رہا تھا.اگر بڑی عمر کے بچیوں کے بجائے یہ کم عمر بچیوں سے ڈانس کروایا جاتا تو شائد بہتر بھی ہوتا لیکن..
اس تقریب کا آغازقرآن پاک کی تلاوت سے کیا جانا تھا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ آرگنائزر نے قرآن پاک کی تلاوت کیلئے کسی کو پہلے سے تیار نہیں کیا تھا تین سے چار منٹ سوچنے کے بعد قرعہ فال طہماس خان فٹ بال سٹیڈیم کے مسجد کے پیش امام کے بیٹے کا نکلا جنہوں نے سٹیج پر آکر قرآن پاک کی تلاوت کی.آرگنائزر کے مطابق کم و بیش دو ہزار کے قریب بچے اس تقریب میں شامل تھے جن میں کسی بھی سکول کے بچے کو قرآن پاک کی تلاوت کیلئے پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا.کیونکہ آرگنائرر نے پہلے سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا .تقریب کے چار کمپیئر نے سب کو پریشان کر دیا تھا ایک خاتون اور تین مردوں کی کمپیئرنگ نے عجیب سا سماءباندھا تھا ، تقریب کے دوران ایک کمپیئر ڈپٹی کمشنر خالد محمود کو طارق محمود بولتے رہے ، جبکہ بلوچستان کے روایتی رقص کوکشمیر کے رقص سے منسوب کرتے ہوئے لائیو کہہ دیا کہ یہ ڈانس کشمیر کا ہورہا ہے حالانکہ صوبوں کے آخر میں بلوچستان کا ڈانس تھا .اسی طرح سٹیج پر کراچی کے مہمانوں کے سامنے بھی کمپیئر مائیک ایک دوسرے سے لیکر بولنے کی کوشش کرتے رہے .
سٹیج پر تقریب میں ڈپٹی کمشنرپشاور خالد محمود نے بہترین انداز میں خطاب کیا انہوں نے بچوں کی پرفارمنس کو بہترین قرار دیا اور کہہ دیا کہ ان بچوں کو مواقع دینے کی ضرورت ہے کمی ہے تو ہم میں ہے انہوں نے آرگنائزر کو پروگرام کے تمام بچوں کے پروگرام کروانے کی ہدایت بھی کردی.اس موقع پر کراچی سے آنیوالے مہمانوں کو پختونخواہ کی روایتی پگڑی بھی پہنائی گئی جسے مہمانوںنے خوش دلی سے قبول کیاتاہم جواب میں انہوں نے سندھ کی مشہور اجرک پشاور کے مہمانوں کو پہنائی .تحائف کے بعد پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر پشاور خالد محمود نے سرکاری سکولوں کی انتظامیہ و پرنسپل خواتین کو تاج پہنائے.شائد بچوں کو اتنی زیادہ تعداد میں لانے پر انتظامیہ نے سکول کی پرنسپل اور دیگر افسران کو خوش کرنا تھا اسی وجہ سے انہیں تاج پہنائے گئے حالانکہ ان سے زیادہ خوبصورت پرفارمنس ویلکم کہنے والی کم عمر بچیوں کی پارٹی کی تھی جنہیں اگر تاج پہنائے جاتے تو ان کم عمر بچیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی لیکن .. آرگنائز ر بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں..
پشاور سپورٹس کمپلیکس میں ہونیوالی اس تقریب کے میزبانی کے فرائض ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے تھے تاہم سٹیج پر انہیں اور ان کے دیگرساتھی کی کمپیئرنگ نے انہیں بہت زیادہ اہم چیزوں سے لاپرواہ کیاتھا کیونکہ اتنی بڑی تعدا د میں آنیوالے طلبا ﺅ طالبات کیلئے پینے کا پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور معصوم بچے اور بچیاں پینے کی پانی اور واش روم کی تلاش میں خوار ہوتی دکھائی دئیے ایک گھنٹے سے زائد وقت ٹارٹن ٹریک پر کھڑے ہونے اور مہمان خصوصی کے انتظار نے بچوں اور بچیوں کو پہلے سے ہی تھکا دیا تھا ڈپٹی کمشنر نے آمد کے فورا بعد سکریبل بورڈ کیساتھ بیٹھ کر ایک لفظ لکھ دیا تھا جس پر پروگرام کے آرگنائزر نے سب کو تالیاں بجانے کی ہدایت کی اور کہا کہ تالیاں بجائیں " ڈپٹی کمشنر صاحب نے لفظ لکھ دیا ہے" . تقریب میں شامل پرائیویٹ سکولوں کے بچے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاءتو لائے تھے جس کے ریپر اور شاپرز گراﺅنڈ میں پڑے رہے جنہیں بعد میں پشاور سپورٹس کمپلیکس کی صفائی پر مامور اہلکار نے صاف کروایا تاہم سرکاری سکولوں کے معصوم بچوں کو ان کے اساتذہ نے " من جیلے" دیکر جان چھڑائی اور بعد میں ڈانس کرنے کی ہدایت کردی جو ان غریب بچوں نے من جیلے ، جنہیں ایلیٹ کلاس ڈونٹ کہتا ہے کھانے کے بعد خوب اچھی طرح سے ڈانس کرکے تقریب میں شامل لوگوں کے دل موہ لئے..
پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کھیلوں کے نام پر ہونیوالے اس تقریب کیلئے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی جانب سے سکریبل ایسوسی ایشن کو دس ہزار روپے دینے کا اعلان ہوا تھا تاہم دس ہزار روپے میں آرگنائزر نے بہترین پروگرام آرگنائز کیا جس پر ڈی ایس او پشاور سمیت سکریبل ایسوسی ایشن بھی اتنے بڑے پروگرام کو آرگنائز کرنے پر مبارکباد کی حقدار ہے اور شیلڈز سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے تمام اہلکاروں کا حق تھا تاہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک مخصوص اہلکار کو شیلڈز دیکر دیگر ملازمین کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مستقبل میں اپنی پرفارمنس کیساتھ تعلقات بھی بہتر کریں.کم و بیش ڈھائی گھنٹے رہنے والے اس تقریب کے اختتام تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ پروگرام کھیلوں کا تھا یا کلچر تھا ، کیونکہ کلچرل پرفارمنس تو زیادہ ہوئی البتہ سرکاری سکولوں کے بچوں نے پہلی مرتبہ اتنے بڑے گراﺅنڈ کو دیکھا تھااسی وجہ سے انہوں نے چھلانگیں اور ریس لگا کر اپنی دل کی بھڑاس نکال دی جس پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ بھی داد کی حقدار ہیں کیونکہ کھیلوں کی نرسری سطح پر فروغ بھی انہی کا کام ہے..
|