~شنیدہے ایک عرب بدو کسی شہری بابو کا مہمان ہوا۔ میزبان
نے ایک بڑی مرغی ذبح کی مصالے لگاکرتندورمیں چرغہ بنالیا۔ جب دسترخوان
بچھایا گیا تو سب کھانے کے دسترخوان پر آموجود ہوئے۔ میزبان کے گھر میں کل
چھ (6) افراد موجود تھے؛ دو میاں بیوی، دو ان کے بیٹے اور دو بیٹیاں۔
میزبان نے دل ہی دل میں بدو کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا
میزبان: آپ ہمارے مہمان ہیں اس لئے کھانا آپ تقسیم کریں۔
بدونے مسکراکرکہا: مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو
کوئی بات نہیں لائیے! میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں۔
اب بدو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی، اس کا سر کاٹا اور میزبان کی
طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’آپ گھر کے سربراہ ہیں لہذا مرغی کا سر، ایک سربراہ
کو ہی زیب دیتا ہے‘‘۔ اس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا ’’یہ گھر
کی بیگم کے لئے ہے‘‘۔ پھر مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا ’’بیٹے اپنے باپ
کے بازو ہوتے ہیں اس لئے بازو بیٹوں کے لئے حاضرہیں‘‘۔ بدو نے بیٹیوں کی
طرف دیکھا اور کہا ’’بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں اور
سارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر مرغی کے دونوں
پاؤں کاٹے اورمیزبان کی بیٹیوں کو دے دئیے۔ پھر مسکراکر کہنے لگا ’’جو باقی
بچ گیا ہے وہ مہمان کے لئے ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ مزے سے کھانے لگااورمیزبان اس
کا منہ دیکھتے رہ گئے یہ صورت ِ حال دیکھ کر میزبان کا شرمندگی سے برا حال
ہوگیا۔ اگلے میزبان نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرو کل کی
طرح مزیدار تندوری چرغہ بناؤ کل ذرا مزانہیں آیا ہم نے کھانابنی تھوڑا
کھایا تھا آج سب مزے سے کھائیں گے ۔میزبان کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور جب
دسترخوان لگا تو اس پر پانچ بھنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں۔ میزبان نے سوچا
کہ دیکھتے ہیں کہ آج یہ بدوپانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا؟
میزبان نے مسکراکرکہا جناب: ان مرغیوں کو سب افراد میں برابر تقسیم کردو۔
پیٹوبدو نے بھنی ہوئی مرغیاں دیکھیں تو اس کی رال پٹکنے لگی اس نے بڑی محبت
سے پوچھا میں تقسیم: جفت کروں یاپھر طاق؟
میزبان : طاق انداز میں تقسیم کرو۔
بدو نے میزبان کی بات سن کر سرہلایا، تھال سے ایک مرغی اٹھائی، میاں بیوی
کے سامنے رکھی اور بولا ’’آپ اور آپ کی بیوی دو اور ایک یہ مرغی، کل ملا کے
تین۔ پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا‘‘ آپ کے دونوں بیٹے اور ایک مرغی، کل
ملا کے یہ بھی تین ’’۔ اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا‘‘ آپ کی دو
بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ کل ملا کریہ بھی تین ہوگئے ’’۔ اب تھال میں دو
مرغیاں باقی تھیں۔ اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا‘‘ یہ دو
مرغیاں اور ایک میں ؛ یہ بھی تین ہو گئے ’’۔ میزبان بدو کی یہ تقسیم دیکھ
کر ہکابکا رہ گیاآج پھر بدونے مزے لے لے کرکھانا کھایا اور اﷲ کا
شکراداکیا۔ اس نے اگلے دن پھر پانچ مرغیاں روسٹ کیں۔ جب سب لوگ دسترخوان پر
بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدو کے سامنے رکھیں۔
میزبان: آج بھی تقسیم تم ہی کرو گے لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے۔
بدو نے بڑی سنجیدگی سے کہا : لگتا ہے کہ تم لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض
ہو۔
میزبان نے مروتاً مسکراتے ہوئے کہا نہیں نہیں: ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ
تقسیم شروع کریں۔
بدو نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی۔ اس میں ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا
’’ماں، اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ یہ ہوئے کل ملا کر چار‘‘۔ یہ کہہ کر
پہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی۔ اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے
کہا ’’آپ، آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی؛ یہ بھی کل ملا کر چار ہوئے‘‘۔ پھر
تھال میں موجود باقی تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا ’’میں اور یہ
تین مرغیاں ؛ یہ بھی کل ملا کر ہوگئے چار‘‘۔ اس کے بعد مسکرایا، یہ تقسیم
دیکھ کر میزبان نے انپا سر پیٹ لیاچالاک مہمان بے بسی کی تصویر بنے اپنے
میزبانوں کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا ’’یا اﷲ!
تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تونے مجھے تقسیم کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا
ہے اور مزے مزے سے بھنی ہوئی مرغیاں کھانے لگ گیا۔پاکستان کی
بیوروکریسی،اشرافیہ اور سیاستدان ملکی وسائل کی تقسیم اسی اندازسے کرنے کے
عادی ہیں اور عام آدمی میزبان کی طرح بے بسی کی تصویربنے ایک دوسرے کی طرف
دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
|