یوں تو ایک ہی ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بھائیوں
کی صبح اور شامیں ایک ہی چھت کے نیچے گزرتی ہیں ، یوں بہن بھائیوں میں قدرت
کی طرف سے بے پناہ محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی محبت اکثر اوقات نوک جھوک اور
لڑائی جھگڑے میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اوپر
نیچے والے بھائیوں کی زندگی دوسروں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ یہاں میں یہ
بتاتا چلوں کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے والدین کو پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کی
نعمت سے نوازا تھا۔ بیٹی کا نام نصرت دلشاد تھا ، لیکن وہ ایک سال کی عمر
میں ہی انتقال کرگئی۔بھائیوں میں چونکہ میری پوزیشن منجھلی تھی۔ منجھلی
پوزیشن کا بچہ اکثر والدین کی وہ توجہ حاصل نہیں کرپاتا جو سب سے بڑے یا سب
سے چھوٹے کو حاصل ہوتی ہے‘ پھر بھی میرا والدین کے ساتھ ساتھ بالخصوص بڑے
بھائی رمضان سے محبت اور شفقت کا رشتہ ہمیشہ استوار رہا۔ جبکہ مجھ سے دونوں
چھوٹے بھائیوں( محمد اشرف لودھی اور محمد ارشد لودھی ) سے ملنے والی محبت
میں فراموش نہیں کر سکتا۔ مجھ سے ایک نمبر بڑا بھائی جس کانام محمد اکرم
خان لودھی ہے۔دوسرے بھائیوں کی نسبت ہمیشہ میرے زیادہ قریب رہا۔ جہاں مجھے
ان کی محبت بھی ملتی رہی، وہاں اس کی شرارتوں کا خمیازہ بھی مجھے بھگتنا
پڑتا۔ ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات میں بہت سے واقعات اب بھی میرے ذہن میں
محفوظ ہیں۔جن کا تذکرہ ان کو موت کے سترہ سال بعد کرنے لگا ہوں ۔اس طرح ان
سے وابستہ یادیں بھی تازہ ہوجائیں گی اور محبتوں کا خراج بھی مرحومین کو مل
جائے گا۔
................
میں جب گورنمنٹ پرائمری سکول واں رادھارام (حبیب آباد) میں کچی جماعت میں
داخل ہوا تو بڑا بھائی اکرم اسی سکول میں دوسری تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔
چونکہ ان کا رحجان پڑھائی کی بجائے شرارتوں اور سیر سپاٹے کی طرف زیادہ
تھا، اس لئے وہ سکول میں موجود ہونے کے باوجود پڑھائی کی طرف زیادہ توجہ
نہیں دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر ماسٹر صاحب سے پھینٹی کھا رہا ہوتا۔
حالانکہ میرا مزاج نہ صرف اس وقت ان سے یکسر مختلف تھا بلکہ اب بھی مختلف
ہے۔ سوچ کا یہی فرق زندگی کی آخری سانس تک ہمارے درمیان حائل رہا۔ چونکہ
ماں ہر صبح ملیشئے کے کپڑے پہنا کر ہم دونوں کو اکٹھے سکول بھجواتی تھی۔ اس
لئے بڑا ہونے کے ناطے مجھے اس کی ہر بات ماننی پڑتی۔ جس سکول میں ہم پڑھتے
تھے اس کے مغرب میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی ،جس میں نمازیوں کے وضو کرنے کے
لئے ایک کنواں بھی موجود تھا۔ یہ کنواں بظاہر توچھوٹا سا تھا لیکن سنا ہے
اس کی گہرائی ڈیڑھ سو فٹ تھی۔ فرصت کے لمحات میں ہم کبھی اس کے اندر جھانک
کر دیکھتے تو پانی ہمیں پندرہ بیس فٹ گہرائی پر دکھائی دیتا۔ اس کنویں سے
پانی نکالنے کے لئے ایک چرخی بھی نصب تھی جس کے ساتھ بندھی ہوئی لج ( رسہ
)کے ساتھ سیاہ رنگ کا ربڑ کا ایک بو کا بھی بندھا ہوا تھا۔ قریب ہی چھوٹی
سی ہودی بنی ہوئی تھی، جہاں ہر روز نماز کے وقت پانی کے چند بوکے نکال کر
ڈال لئے جاتے جووضو کے لئے کافی ہوتے۔اس کنویں کی دیوار کے اس پار کچی مٹی
کی دیوار کے اندر ایک وسیع عریض باغ بھی تھا جس میں شہتوت ، جامن، مالٹوں
اور آم کے درخت نمایاں دکھائی دیتے تھے۔اس باغ اور مسجد کے درمیان ایک کچی
پگڈنڈی تھی جو مغرب کی طرف بہنے والی بڑی نہر کی طرف جاتی تھی۔جبکہ اس
پگڈنڈی کے جنوب کے وسیع عریض علاقے میں دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے
تھے۔جہاں موسم کے اعتبار سے خربوزے، تربوز ، طراں ، ساگ، مونگرے وغیرہ
اگائے جاتے۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ سکول میں بنی ہوئی چھوٹی سی مسجد، ملحقہ
باغ اور کھیتوں کا میری زندگی پر گہرا اثر ہے۔ بھائی اکرم کو جہاں پڑھنے کا
شوق نہ ہونے کے برابر تھا وہاں اس کی ذہانت رنگ برنگی شرارتوں کی طرف ہی
ہمیشہ مائل رہتی۔ اس نے تیسری جماعت میں ہی ایک چھوٹے قد والا سفید رنگ کا
کتا کہیں سے حاصل کر لیا۔ پہلے پہل تو وہ کتا گھر سے باہر ان کے ساتھ چہل
قدمی کرتا رہتا ۔ جب اکرم گھر میں داخل ہوجاتا تو گھر کے سامنے پیپل کے
درخت کے ارد گرد بنی ہوئی گلاباسی اور جھاڑیوں میں چھپ کررات بسر کر لیتا۔
اگلی صبح جونہی بھائی اکرم اور میں سکول جانے کے لئے گھر سے نکلتے ، تو کتا
بھاگتا ہوا اس کے پاؤں سے لپٹ جاتا۔ بھائی اکرم مجھے وہیں چھوڑ کرکے پہلے
کتے کو پیار کرتا پھراس کے سر پر ہاتھ پھیرتا۔ ہم دونوں کتے اپنے ساتھ لے
کر سکول کی جانب روانہ ہوجاتے۔ کتے کے نازنخرے اٹھاتے ہوئے کئی مرتبہ بھائی
اکرم سکول سے لیٹ بھی ہوجاتا۔ سکول میں لیٹ پہنچنے پر بھائی اکرم کے ساتھ
ساتھ مجھے بھی ڈانٹ پڑتی۔ میرے استاد سے جب بھی میرے والد صاحب کی ملاقات
ہوتی تو وہ ان سے سکول میں میری تاخیر سے آمد کی شکایت کرتے۔ والد صاحب
میری والدہ سے اس بات کا تذکرہ کرتے تو والدہ بے ساختہ کہتیں کہ میں تو
دونوں بھائیوں کو مقررہ وقت سے کافی پہلے گھر سے تیار کرکے بھیج دیتی ہوں۔
ماں جب اس بات کا ذکر مجھ سے کرتیں تو میں صاف صاف بتا دیتا کہ بھائی اکرم
مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر دیر تک کتے سے کھیلتا رہتا ہے۔کبھی کوئی چیز
پھینک کر کتے کو اٹھا کر لانے کا حکم دیتا اور کبھی کسی جانور بالخصوص
’’سہے‘‘ کے شکار کی ذمہ داری کتے کو سونپ دیتا ہے۔ دراصل وہ اپنے کتے کو ہر
ہنر سکھانا چاہتا تھا۔ میری باتیں سن کر بھائی اکرم مجھے دور ہی سے قہرآلود
آنکھیں دکھاتا۔اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اگر ماں کو شکایت لگائی تو سکول تو
میرے ہی ساتھ جانے ہے نا۔ راستے میں پھینٹی بھی لگاؤں گا اور کتا بھی پیچھے
لگا دوں گا۔ اکرم کی قہرآلود آنکھوں کودیکھ کر میں خوف کے مارے میں خاموش
ہوجاتا جس پر ماں کی ڈانٹ الگ سننی پڑتی۔ بہرکیف جب ہم سکول پہنچ جاتے تو
بھائی اکرم سکول کی چھوٹی سی چار دیواری کے اندر ٹالی کے درخت کے نیچے ٹاٹ
پر بیٹھ کر دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھتے۔ ان کا کتا دیوار کے سائے میں اس وقت
تک بیٹھا رہتا جب تک ہم دونوں بھائیوں کوچھٹی نہ ہوجاتی۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب بھائی اکرم کا سکول سے جلدی بھاگنے کو جی
چاہتا تو وہ اکیلا بھاگنے کی بجائے اپنے ساتھ مجھے بھی لے جاتا تاکہ میں
والدین کو ان کی شکایت نہ لگا سکوں۔ اگر میں احتجاج کرتا تو وہ مجھے کھیتوں
کے درمیان میں بنی ہوئی کچی پگڈنڈی پر بٹھا کر مارتا۔تاکہ میرے رونے کا شور
بھی کوئی اور نہ سن سکے۔ چونکہ پچھلے زمانوں میں ان پگڈنڈیوں پر انسانوں کی
زیادہ چہل پہل نہ تھی ،اس لئے اکرم بڑا بھائی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا
رہا اور چھوٹا ہونے کی بناء پر میں ان سے ہمیشہ مار کھاتا رہا۔
ایک دن اسے ایک نئی شرارت سوجھی۔ وہ سکول سے چھٹی کے وقت اپنے کتے کو لے کر
سکول سے ملحقہ مسجد میں جا پہنچا۔ اپنے کتے کو کنویں کے ایک جانب کھڑا کرکے
خود دوسری طرف آگیااور اسے اپنی مخصوص آواز میں پکار کر بلانے لگا۔ دراصل
وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کتا اس کنویں کو باآسانی پھلانگ بھی سکتا ہے یا
نہیں۔ کتے نے جونہی بھائی اکرم کی مخصوص آواز سنی ۔اس نے کنویں کی چوڑائی
دیکھے بغیر چھلانگ لگا دی۔ کتا چونکہ جسامت میں زیادہ بڑا نہیں تھا، اس لئے
وہ دوسری طرف پہنچنے کی بجائے کنویں میں جا گرا ۔ جب کنویں کے گہرے پانی
میں کتے کوغوطے آنے لگے تو اس نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ سکول سے ابھی چھٹی
ہوئی تھی، اس لئے تمام بچے اس کنویں کے ارد گرد کھڑے ہوکر ڈوبتے ہوئے کتے
کو بے بسی کے عالم میں دیکھنے لگے۔ بچوں کا جم غفیر دیکھ کر بڑے لوگ بھی
وہاں پہنچ گئے۔ اسی اثناء میں بھائی اکرم اپنے لاڈلے کتے کو بچانے کے لئے
کنویں میں چھلانگ مارنے پر تیار ہوگیا۔ جب موقع پر موجود لوگوں نے ا نہیں
ایسا کرنے سے روکا تو انہوں نے لکڑی کی چرخی کو مضبوطی سے پکڑنے کا مجھے
حکم دیا اور خود رسے کے ذریعے کنویں میں اترنے لگا۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں
تھی کہ میں بوجھ برداشت کر سکتا۔ میری حالت زار کو دیکھتے ہوئے کچھ بڑے بھی
میری مدد کو آ پہنچے۔انہوں نے میرے ساتھ ہی چرخی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
جونہی بھائی اکرم پانی کے قریب پہنچا تو کتے نے چھلانگ لگا کر بھائی اکرم
کو پکڑ لیا۔ انہیں ایسے چمٹ گیا جیسے صدیوں کا بچھڑا ہو۔ اب کتے سمیت اکرم
کو کنویں سے باہر نکالنا بھی مشکل تھا۔ ہمیں ڈر تھا کہ بھائی اکرم اور کتے
کے وزن سے کہیں رسہ ہی نہ ٹوٹ جائے۔خدا خدا کرکے بھائی اکرم اوراس کا کتا
کنویں سے باہر نکلے، سردیوں کے موسم میں بھائی اکرم کے کپڑے بھیگ چکے تھے
جس سے وہ کانپ رہا تھا۔
اسی اثناء میں نمازیوں نے اکرم کو حکم دیا کہ تمہارے کتے کی وجہ سے اس
کنویں کا پانی پلید ہوگیا ہے۔ اس لئے کنویں کے پانی کو پاک کرنے کیلئے ڈیڑھ
’’سو بو کے‘‘ پانی کے نکالو۔ بوکا ربڑ کا بنا ہوا بالٹی نما ہوتا ہے‘ جس
میں لوگ کنویں سے پانی نکالنے کا کام لیتے تھے۔ اکرم نے جب لوگوں کا یہ حکم
سنا تو اس کو فرار کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا۔اس نے چند بو کے پانی نکال
کر مجھے حکم دیا کہ باقی بوکے میں نکالوں۔ وہ گھر سے گیلے کپڑے بدل کے واپس
آئیں گے۔ میں نے بھائی کی ہمدردی میں حامی تو بھری لیکن وہ مجھے پھنسا کر
واپس نہ آیا اور ڈیڑھ سو بوکے پانی کے مجھے ہی نکالنے پڑے۔ میری حالت کو
دیکھتے ہوئے چند نمازیوں نے بھی میرا ہاتھ تو بٹایا لیکن اتنی مشقت کے بعد
بخار سے میرا جسم ٹوٹنے لگااور بازو شل ہوگئے۔ تھکا ماندہ جب بستہ اٹھائے
گھر پہنچا تو بھائی اکرم آرام سے دھوپ میں چارپائی بچھا کر سو رہا تھا۔
میری اس وقت حیرت نہ رہی کہ جب ماں نے مجھے پوچھا کہ تمہیں ماسٹر نے اتنی
دیر تک کیوں روک لیا تھا۔ اب سمجھ آئی کہ بھائی اکرم سے جب ماں نے میرے
بارے میں پوچھا ہوگا تواس نے یہ نہیں بتایا کہ میں اسے کنویں پر ڈیڑھ سو
بوکے نکالنے پر پھنسا آیا ہوں۔بلکہ یہ کہہ دیا کہ مجھے ماسٹر نے روک لیا
ہے۔ چونکہ اس زمانے میں ماسٹر بھی سکول کے بچوں کو کھیتوں سے پھٹے لانے،
گھر میں پکانے کے لئے ساگ توڑنے یا کسی گھر سے لسی وغیرہ لانے کے لئے بھیج
دیا کرتے تھے۔ اس لئے ماں کو اکرم کی بات پر ذرا شک نہ ہوا۔ لیکن جب انہوں
نے میری حالت دیکھی تو ماں سخت پریشان ہوگئی۔ اس نے مجھے سچ سچ بتانے کا
حکم دیا۔چونکہ اکرم اس وقت دھوپ میں خواب خرگوش کے مزے لے رہاتھا اس لئے
میں نے سارا واقعہ ماں کو کہہ سنایا۔ ماں کو اکرم پر سخت غصہ آیا کہ یہ
کیسا بے رحم بھائی ہے کہ قصور اپنا اور پھنسا بھائی کو آیا ہے۔ ماں نے سوتے
ہوئے تو کچھ نہ کہا لیکن جیسے ہی وہ نیند سے بیدار ہوا اس کو جی بھر کے
پھینٹی لگائی۔اور والد کو بھی شکایت لگائی۔ جوں جوں اکرم کو مار مارتی وہ
ساتھ ساتھ مجھے بھی گھورتا جاتا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا کہ بچو
اکیلے ملو گے تو اتنی ہی پھینٹی تمہیں میں لگاؤں گا۔ میں نے خوف زدہ ہونے
کی بجائے ماں کو آنکھوں کے ذریعے ملنے والی دھمکی کے بارے میں بھی بتا دیا۔
ماں نے دوچار تھپڑے میرے حصے کے بھی اسے دھر دیئے۔ اب ماں کا ایک ہی مطالبہ
تھا کہ جس کتے کی وجہ سے تم نے ساری پریشانی پیدا کی ہے اس کو کہیں چھوڑ
آؤ۔ لیکن اکرم کتے کی جدائی برداشت نہیں کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی ضد تھی کہ
کتا اس کے ساتھ ہی رہے گا۔ بعض اوقات وہ کتے کو اپنے بستر میں بھی لٹا
لیتا۔ بہرکیف نافرمانی کی سزا ماں نے اکرم کو یہ دی کہ تمام رات کپڑوں کے
بغیر اسے کھلے صحن میں کھڑا کئے رکھا۔اگلی صبح ماں نے سمجھا کہ اکرم اپنی
ضد سے باز آچکاہوگا۔لیکن جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ
میں کتے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ میرا دوست ہے اور میں اسے دوست قرار
دیتا ہوں۔ چنانچہ بیٹے کی ضد کے سامنے ماں نے ہار مان لی۔ اور اسے کتے کو
ساتھ رکھنے کی باضابطہ اجازت مل گئی۔ اب کتا ہر لمحے اس کے ساتھ رہنے لگا۔
اس زمانے میں سوروں، کتوں اور دیگر خطرناک جانوروں سے بچانے کیلئے کسان
اپنے کھیتوں کے اردگرد زہر آلود کچلا ڈال دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اکرم کا
کتا زہر آلود کچلا کھا آیااور گرتا پڑتا گھر کی دہلیز پر پہنچتے ہی دم توڑ
گیا۔ اکرم کو اپنا لاڈلے کتے کے مرنے کا بے حد افسوس ہوا۔ اس نے ماں کے
اصرار کے باوجود کئی دن تک روٹی نہیں کھائی اور کتے کے سوگ میں بھوکا ہی
رہا۔ ماں نے اکرم کو پیار سے کہا ، بیٹا! جو بھی جاندار دنیا میں آیا ہے اس
نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ ہمارے باپ دادا بھی اس دنیا میں نہیں
رہے۔ جب اﷲ کا حکم آیا تو مرنے کے بعد مٹی میں دفن ہوگئے۔ یہ کتا مر چکا
ہے۔اب اس کی لاش کو رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس کو تم اتنا ہی پیار کرتے
ہو تو اس کو گڑھا کھود کر مٹی میں دفن کر آؤ۔ لیکن اکرم مرے ہوئے کتے کو
دفن کرنے کو ہرگز تیار نہ تھا۔ اس کا ایک ہی اصرار تھا کہ مرا ہوا کتا بھی
اس کی آنکھوں کے سامنے رہے گا۔اس نے کتے کی لاش کو گھر کے سامنے پیپل کے
درخت کے پیچھے بنی ہوئی جھاڑیوں میں رکھا ہوا تھا۔ماں نے جب اکرم کے جنون
کو دیکھا تو ابا جی سے بات کی۔ ابا جی نے ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ پیار سے
سمجھا یا تو اکرم کتے کی لاش کو پھینکنے پر رضا مند ہوگیا۔لیکن پھینکنے کے
باوجود وہ دن میں کئی بار اسے مردہ حالت میں دیکھنے جاتا رہا۔ سات آٹھ دن
کتے کو مرے ہوئے گزرے تھے کہ ایک صبح ہم سب ماں کے اردگرد بیٹھے گڑ کی کالی
چائے کے ساتھ کیک سمجھ کر رات کی باسی روٹیاں کھا رہے تھے کہ گھر سے باہر
کتا بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ جب ہم نے کتے کی آواز پر کان لگائے تو یہ
محسو س کرکے ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ آواز تو اکرم کے کتے جیسی
تھی۔ پھر سوچا کہ وہ تو مرگیا ہے اور مرنے والے بھی کبھی زندہ ہوا کرتے
ہیں۔ ابھی ہم سب یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اکرم ناشتہ ادھورا چھوڑ کر بھاگتا
ہوا گھر سے باہر نکلا۔ جونہی اس کی نظر اپنے کتے پر پڑی تو وہ خوشی سے اچھل
پڑا۔ اور اپنے کتے کو بے ساختہ گود میں اٹھا کر اسے چومتا ہوا گھر کے اندر
لے آیا۔ ماں سمیت ہم سب کتے کو زندہ سلامت دیکھ کر ششدر رہ گئے اور اپنی
اپنی ذات میں گم ہوکر سوچنے لگے کہ یہ کتا زندہ کیسے ہوگیا۔ بعد میں پتہ
چلا کہ جو کچلا کھا کر وہ کتا مرا تھا اس کچلے پر زہر کی آمیزش کی بجائے بے
ہوشی کی دوا لگی ہوئی تھی۔ لیکن اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد وہ کتا حقیقت میں
مرگیا۔اس کے بعد دوبارہ زندہ نہ ہوسکا۔ پسندیدہ کتا مرنے کے بعد بھی میرے
اس بھائی کو سکون میسر نہ آیا۔
اس نے مجھے ساتھ لے کر باغ میں جانا شروع کر دیا۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ
واں رادھا رام میں ریلوے اسٹیشن کے قریب دو باغ تھے۔ ایک سکول کے مغرب میں
جبکہ دوسرا اسٹیشن کے بالمقابل ریلوے پلیٹ فارم کے جنگلے کے ساتھ ہی
تھا۔مالٹوں کے درختوں سے بھرا ہوا یہ باغ ریلوے اسٹیشن اور شہر کے درمیان
واقعہ تھا۔ اس باغ کے ساتھ گندے پانی کاایک جوہڑ بھی تھا۔ جس میں کچھوے کے
ساتھ ساتھ کبھی کبھار مچھلیوں کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا تھا۔اکرم مجھے
اپنے ساتھ لے کر کبھی سکول کے مغربی باغ میں جاگھستا۔ اور وہاں جا کر مجھے
کسی ایک درخت کے نیچے اس لئے کھڑا کر دیتا کہ میں مالی کا دھیان رکھوں۔ اگر
دور سے مالی آتا ہوا نظر آجائے تو اسے اشاروں کنایوں سے بتا دوں تاکہ اسے
بھاگنے میں آسانی رہے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں جس قدر مہارت سے وہ درختوں پر آناً
فانًا چڑھ جاتا۔ اسی قدر پھرتی سے نیچے بھی اتر آتا تھا۔اور جب بھی کبھی
مالی اس کے پیچھے بھاگتا تو اکرم اس کی دسترس سے بہت دور ہوتا۔جبکہ دوڑنے
کے معاملے میں، میں ہی کمزور تھا۔ باغ سے پھل توڑ کر جب اکرم بھاگتا تو
مالی کے ہتھے میں ہی چڑھتا۔ ادھیڑ عمر مالی مجھے دوچار تھپڑ مار کر یہ کہتا
ہوا چھوڑ دیتا کہ تمہارے باپ کو شکایت لگاؤں گا۔ چونکہ باپ سے بے پناہ محبت
کے ساتھ ساتھ میں ان سے ڈرتا بھی بہت تھا۔ اس لئے خوف زدہ ہو جاتا کہ وہ
واقعی میرے باپ کو شکایت نہ لگا دے۔ جب بھی اکرم مجھے زبردستی باغ میں لے
کر جاتا تو جامن ، سنگترے اور آم کھانے کے مزے وہ لوٹتا۔کبھی کبھار بچے
کھچے پھل مجھے بھی کھانے کو دے دیتا۔
اس زمانے میں گندم پیس کر آٹا بنانے والی ایک مشین بھی شہر میں لگ گئی، جس
کی وجہ سے ہاتھ والی چکی سے جان چھوٹ گئی۔ یہ چکی مین بازار کے آخری ویران
حصے میں نصب تھی۔اس چکی کے بڑے سے احاطے میں بیری کا ایک قدآور درخت بھی
تھا۔ جس پر موسم کی مناسبت سے بیر بھی لگتے۔ ہم بہانے سے آٹا پیسانے وہاں
جاتے۔ جہاں پہلے ہی لائن لگی ہوتی تھی۔ گندم کا تھیلا لائن میں رکھ کر میں
اور اکرم دونوں بیری کے پاس پہنچے جاتے۔ اکرم کا نشانہ بہت پرفیکٹ تھا۔ وہ
بیروں کا نشانہ لے کر پتھر مارتا اور میں تیزی سے بیر اٹھاتا رہتا۔ جب ہم
دونوں بھائیوں کی جیبیں بھر جاتیں تو بیری کی جان چھوٹتی۔ہمارے جیسے کچھ
اور لڑکے بھی یہ کام کرتے۔جس کی وجہ سے اکثر لڑائی بھی ہوجاتی۔ہم دعویٰ
کرتے کہ یہ بیر ہمارے پتھر سے گرے ہیں اور دوسرے لڑکے گرنے والے بیروں
پراپنا دعویٰ کرتے۔ چونکہ اکرم لڑائی میں پھرتیلا تھا اور اس کے پاس چاقو
بھی ہر وقت رہتا تھا۔ اس لئے اکثر لڑکے اس سے خوف زدہ بھی ہوجاتے تھے۔
واں رادھا رام میں ہی میرے دو بھائی اشرف اور ارشد پیدا ہوئے۔ جن کا پہلے
بھی ذکر آچکا ہے۔ماں جب گھر میں کام کرنے لگتی تو وہ چھوٹے بھائی اشرف کو
اکرم کے سپرد کر کے حکم دیتی کہ جاؤ اسے باہر کھلاؤ۔ ماں کے سامنے اکرم،
اشرف کو چومتا چاٹتا گود میں اٹھا کر مجھے اپنے ساتھ لے کر ریلوے اسٹیشن کے
مسافر خانے میں پہنچ جاتا۔ وہاں اشرف کی نگہداشت کی ذمہ داری مجھے سونپ کر
خود وہاں موجود لڑکوں کے ساتھ بانٹے اور اخروٹ کھیلنے لگتا۔ چونکہ اکرم کا
نشانہ دوسرے لڑکوں سے زیادہ پختہ تھا اس لئے وہ ان سے بانٹے اور اخروٹ
باآسانی جیت جاتا۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والے شرف دین کا بیٹا حسینی بھی
اکثر ہمارے ہی ساتھ ہوتا۔بچپن میں اشرف بہت صبر مند بچہ تھا۔ اسے لکڑی کے
پھٹے پر بٹھا کر میں بھی اکرم کی نشانہ بازی کا بغور جائزہ لیتا۔ لیکن جب
بھی میں نے چوری چھپے بانٹے یا اخروٹ کھیلنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ ہار ہی میرا
مقدر بنتی کیونکہ کبھی میرا نشانہ ٹھکانے پر نہ لگتا۔چنانچہ اکرم اپنی
مہارت سے جیت کر جو اخروٹ اور بانٹے ٹین کے ایک ڈبے میں جمع کرتا۔ میں
مسلسل ہار کر اس بھرے ہوئے ڈبے کو خالی کر دیتا۔ اکرم کو جب پتہ چلتا کہ
میں کسی لڑکے سے بانٹے ہارا ہوں تو وہ فوراً وہاں پہنچا کر خود اس کے ساتھ
کھیلنا شروع کر دیتا۔ وہ دائیں ہاتھ کی سب سے بڑی انگلی سے ایسا نشانہ
مارتا کہ زمین پر بکھرے ہوئے سب بانٹے اسی کے ہوجاتے۔ اشرف کو جہاں بٹھا ؤ
سکون سے بیٹھ جاتا۔لیکن اس کے برعکس میرا سب سے چھوٹا بھائی ارشد تھا۔اس کو
جیسے ہی ماں گود سے اتارتی وہ بھیڑ کے لیلے کی طرح بھاں بھاں کرکے رونے
لگتا۔ جب ماں اسے اکرم کو پکڑاتی تو اکرم حسب معمول اسے بہلانے اور چپ
کروانے کی ذمہ داری مجھے سونپ کر خود کسی نہ کسی کھیل میں مگن ہوجاتا۔ارشد
کو سنبھالنا بظاہر میرے بس سے باہر تھا۔کیونکہ وہ روتا روتا سانس روک لیتا
تھا۔ اس کی یہ کیفیت مجھ سمیت ماں کے لئے بھی پریشان کن تھی۔ دراصل جب
1962ء میں وہ پیدا ہوا تو ماں ابھی چھلے میں ہی تھی کہ کسی بدبخت عورت نے
اس پر جادو کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچپن کے ابتدائی سالوں میں
بہت بیمار رہا۔ واں رادھا رام ریلوے اسٹیشن سے ساہیوال کی جانب دو کلومیٹر
کے فاصلے پر دو جوڑیاں نہریں بہتی تھیں۔ ان نہروں کے دوسرے کنارے پر ایک
گاؤں بھی تھا جس میں اس زمانے میں بڑا نامی گرامی پیر رہتا تھا۔ اس پیر سے
کئی مرتبہ دم بھی کروانے کے لیے میں ہی ماں کے ساتھ جاتا۔ جس سے وقتی افاقہ
ہو جاتا‘ لیکن گھر آتے ہی پھر اس پر پہلی والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اسی
حوالے سے سال میں ایک مرتبہ ان جوڑیوں نہروں پر میلہ بھی لگتا تھا۔ نہروں
کے دونوں کناروں پر گرماگرم جلیببیوں اور کتلموں کی دکانیں سجی ہوتی۔ اس کے
ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں اور کھلونوں سے آراستہ دکانیں بھی سجتیں۔ بچوں کے
لئے جھولے لگتے۔ اس موقع پر کشتیوں کے مقابلے بھی ہوتے۔ کبڈی کے نامور
کھلاڑی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کے لئے یہی
تفریح کے مواقع تھے۔ ہر گھر میں موجود جنتریوں میں دیکھ کر ایسے میلوں اور
عرسوں کا بڑی شدت سے انتظار کیاجاتا بلکہ توفیق ہوتی تو رنگ برنگے خوبصورت
کپڑے بھی ان مواقعوں پر پہننے کے لئے سلوائے جاتے۔ جب جیب میں تانگوں کا
کرایہ میسر ہوتا تو تانگوں پر۔وگرنہ لائنوں کے ساتھ ساتھ پیدل ہی چلتے ہوئے
نہروں تک پہنچ جاتے۔ یہاں میلہ چونکہ گرمیوں کے موسم میں لگتا تھا اس لئے
حسب توفیق نہرمیں کچھے پہن کر نہا بھی لیتے نہانے کا کام تو اکرم ہی کرتا
لیکن میں اپنے دونوں پاؤں نہر کے ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر بیٹھا جاتا اور اس
سے لطف اندوز رہتا حالانکہ ان نہروں میں پانی تو زیادہ گہرا نہیں تھا پھر
بھی نہ جانے کیوں بہتے پانی سے مجھے خوف آتا تھا۔
اسی دوران ایک مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں ہمیں لے کر اپنے میکے اور
ہمارے ننیال عارف والا گئیں۔میکے پہنچنے پر ماں کا ایسا زبردست استقبال
ہوتا کہ فخر سے ہمارا سر تن جاتا اور ماں سے وابستگی پر ہمیں فخر ہونے
لگتا۔کیونکہ نانا نانی سمیت دونوں ماموں اور خلائیں بھی میری ماں سے بہت
پیار کرتی تھیں۔ ماں کو درمیان بٹھا کر باتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا کہ
تمام رات آنکھوں میں ہی گزر جاتی۔ ایک دن ماں نے حسب معمول بھائی اکرم کو
اشرف کو باہر جا کر بہلانے کا حکم دیا۔ اکرم نے ماں کے حکم پر مجھے اور
اشرف کوساتھ لیا اور غریب محلے کے مشرق میں چھپڑ (جوہڑ) کے کنارے جا
پہنچا۔وہاں برساتی پانی کے جوہڑ میں موٹی موٹی لکڑیاں تیر رہی تھیں۔ شاید
ایسا فرنیچر بنانے والے لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں چیرنے اور فرنیچر
بنانے میں آسانی رہے۔ چندایک لڑکے بھی جوہڑ کے پانی میں تیرنے والی لکڑیوں
کے اوپر بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔انہیں دیکھ کر اکرم سے بھی رہا نہ
گیا۔اس نے مجھے حکم دیا کہ ننھے اشرف کو جوہڑ کے کنارے پر بٹھا کر میں بھی
پانی میں اتر کر لکڑی کو دھکا لگاؤں جس پر اکرم سواری کے انداز بیٹھا تھا۔
پانی میں چونکہ لکڑی کا وزن بہت کم محسوس ہوتا ہے اس لئے میں لطف اندوزہونے
کے انداز میں اس لکڑی کو دھکیلنے لگا جوہڑ کے ساکت پانی میں جب کئی لڑکے
اوچھل کود کرنے لگے تو اس میں لہریں پیدا ہونے لگیں۔ ان میں سے ایک لہر اس
کنارے کی طرف بھی جا نکلی جہاں ننھا اشرف بیٹھا تھا۔ جونہی پانی کی لہر
اشرف کے نیچے تک پہنچی تو چکنی مٹی کی وجہ سے اشرف پسل کر جوہڑ کے پانی میں
ڈوبنے لگا۔ ہم دونوں بھائی جوہڑ کے پانی سے ایسے انجوائے کر رہے تھے کہ
ہمیں اشرف کے ڈوبنے کی خبر ہی نہ ہوئی۔ جب دوسرے لڑکوں نے بچاؤ بچاؤ کا شور
مچایا تو ہمارے کانوں تک یہ آواز پہنچی۔جب ہم دونوں کو یہ خبر ہوئی کہ پانی
میں ڈوبنے والا بچہ ہمارا ہی بھائی ہے تو بے ساختہ اس طرف بھاگے۔ اور اشرف
کو اس وقت پانی سے نکالا جب وہ ڈوبنے کے بالکل قریب تھا۔ کنارے پر لٹا کر
اس کے پیٹ سے پانی نکالا اور اس کے حواس بحال کئے۔ اشرف اس صورت حال سے
اتنا گھبرایا کہ روتا ہی جا رہا تھا۔ اکرم نے فیصلہ کیا کہ جتنی جلدی ممکن
ہو اشرف کو ماں کے پاس لے جانا چاہیے۔ گھر کی طرف روانہ ہونے سے قبل اس نے
مجھے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ماں کو یہ نہیں بتانا کہ اشرف جوہڑ میں
ڈوب چلا تھا بلکہ اس کی بجائے یہ کہنا کہ ہم اسے لے کر ہینڈ پمپ کے نیچے
نہلا رہے تھے مسلسل پانی گرنے سے اس کا سانس رک گیا تھا۔ میں نے اکرم سے
ڈرتے ہوئے حامی تو بھرلی لیکن جب گھر پہنچا تو ماں نے اشرف کی حالت دیکھتے
ہوئے پہلے اکرم سے اس کی وجہ پوچھی پھر مجھ سے۔ اکرم تو جھوٹ بولنے لگا۔
لیکن مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے ماں کو سارا واقعہ سنا دیا،جس پر اکرم کی
خوب ٹھکائی ہوئی۔ جب اکرم کی ٹھکائی ہو رہی تھی اس وقت میں اپنا چہرہ دوسری
طرف کرکے بیٹھ گیا تاکہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے دھمکا نہ سکے۔ بعد
میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میرے ننھیال کو اس واقعے سے اس لئے بھی تشویش
تھی کہ خدانخواستہ اشرف کو کچھ ہوجاتا تو ساری عمر کے لئے ان پر یہ الزام
لگ جاتا کہ ان کی غفلت کی وجہ سے بچے کو یہ حادثہ پیش آیا۔
اسی دوران ایک دن میرے نانا اپنی زمین کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ان کی
باتیں سن کر میرے دل میں زمینوں پر جانے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے نہایت ادب
سے نانا سے گزارش کی کہ میں بھی زمینوں پر جانا چاہتا ہوں۔ نانا تو میری
بات سن کر خاموش ہوگیا لیکن جب نانی نے اصرار بھرے لہجے میں کہا کہ بچہ اگر
ضد کر رہا ہے تو کل تم اسے زمینوں پر لے جانا۔ اس کے جانے سے تمہارا کونسا
نقصان ہو جائے گا۔ اگلی صبح نانا مجھے اپنے ہمراہ لے کر پیدل ہی زمینوں کی
طرف چل پڑا۔ نانا کی زمین عارف والا سے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔
جہاں پہنچنے کے لئے ٹانگے سمیت کوئی ٹرانسپورٹ میسر نہ تھی۔ اس لئے کھیتوں
کے درمیان بنی ہوئی کچی پگڈنڈیوں پر ہی پیدل چل کے جانا پڑتا تھا۔ پہلے پہل
تو بہت لطف آ رہا تھا۔کیونکہ لہلہاتے کھیتوں کے درمیان سے ہم گزر رہے
تھے۔جو چلنے والی ہوا کے ساتھ ساتھ مستی سے جھوم رہے تھے۔ لیکن کچھ ہی دیر
بعد تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا۔ نانا چونکہ نانی کی نسبت بہت سخت دل تھا۔اس
لئے وہ رُکے بغیر مسلسل چلا ہی جا رہا تھا۔ اپنی زمینوں پر جونہی ہم پہنچے
تو مجھے دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہاں پر گنے کی رو کو بڑے سے کڑایے میں
پکا کر پستے بادام ڈال کر گڑ بنایا جا رہا تھا۔ چونکہ یہ گنے ہمارے ہی کھیت
کے تھے اس لئے کاری گر نے ہمیں تھوڑا سا گڑ کھانے کو دیا۔ جو بہت مزے دار
تھا۔ کچھ دیر نانا اور میں قریب ہی درخت کے نیچے بیٹھ گئے پھر نانا نے گڑ
بنانے والے کو حکم دیا کہ وہ مٹی کے ایک گھڑے میں رو ڈال دے ۔ رو کا ایک
بھرا ہوا گلاس اسی لمحے مجھے بھی پینے کے لئے دے دیا گیا، جو بہت لذیذ تھا۔
چونکہ دوپہر کا وقت ہوچکاتھا اور گرمی بھی زوروں پر تھی اس لئے ٹالی کے
درخت کے نیچے ٹھنڈی ٹھار ہوا ایئرکنڈیشنڈ سے کم نہیں تھی۔ تھکاوٹ کی وجہ سے
جی چاہ رہا تھا کہ ٹالی کے درخت کے نیچے ننگی اور کچی زمین پر کچھ سستا
لوں۔ لیکن نانا کچھ دیر یہاں ٹھہرنے کے بعد گھر واپس آنے کا ارادہ رکھتا
تھا۔ میرے نانا کے سر پر سفید رنگ کی پرانی سی پگڑی بندھی تھی۔آنکھوں پر
موٹے موٹے شیشوں والی پرانی سی عینک لگی ہوئی تھی۔ جبکہ ہاتھ میں ہاکی نما
ایک لاٹھی تھی۔ نانا جب ناہموار پگڈنڈی پر چلتے تو یہ لاٹھی انہیں سہارا
فراہم کرتی۔ نانا کے پاؤں میں پرانا کھسہ پہنا ہوا تھا ، جس کی نوک پر گرد
کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی تھی جسے دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا
تھا کہ یہ کھسہ کچے پکے راستوں پر کتنی مسافت طے کر چکا ہوگا۔ بہرکیف
ناناکے حکم پر مجھے نہ چاہنے کے باوجود ساتھ واپس چلنا پڑا۔ تھکاوٹ تو پہلے
ہی بہت ہوچکی تھی۔اس پر نانا نے ظلم یہ کیا کہ ’’رو‘‘ کا بھرا ہوا گھڑا
اٹھا کر میرے سر پر رکھ دیا۔اور کہا بیٹا اس رو سے تمہارے لئے کھیر پکائیں
گے۔ کھیر کا پکنا تو میرے لئے خوشی کا باعث تھا۔لیکن گھڑے کا بوجھ اٹھا کر
کچی اور ناہموار پگڈنڈیوں پر چلنا میرے لئے محال دکھائی دے رہا تھا۔ نانا
چونکہ نانی کی نسبت زیادہ سخت دل واقع ہواتھا اس لئے اس سے رحم کی اپیل
کرنا بھی اس کی لاٹھیاں کھانے کے مترادف تھا۔ کچھ دور تک تو وہ مجھ سے آگے
آگے چلتا رہا پھر یہ محسوس کرکے مجھے آگے کرکے خود پیچھے چلنے لگا کہ میں
کہیں روکا گھڑا اپنی لاپرواہی کی وجہ سے گرا ہی نہ دوں۔ دو تین فرلانگ تو
میں چلتا رہا۔لیکن جوں جوں وقت گزر رہا تھا ، آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے
تارے منڈلانے لگے۔ اس لمحے مجھے ماں اور نانی بہت یاد آئی۔ دل تو چاہ رہا
تھا کہ اتنی بلند آواز میں ان کو پکاروں کہ وہ آواز سن کر میری مدد کوپہنچ
جائیں فلموں میں تو ایسا ہو جاتا ہے‘ لیکن حقیقت میں میری آواز ان تک پہنچ
نہیں سکتی تھی۔ زمین سے گھر تک کا فاصلہ صدیوں پر محیط دکھائی دینے لگا۔
گھڑے کے وزن سے گردن ڈگمگانے لگی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کچھ
ہی فاصلے پر نانا ہاتھ میں لاٹھی پکڑ کر خوف کی علامت بن کے پیچھے آرہا
تھا۔ میں نے سوچا کہ میں تو زمین دیکھنے آیا تھا یہاں آ کر مصیبت میں پھنس
گیا۔ کاش میں زمین دیکھنے کی آرزو ہی نہ کرتا۔لیکن اب پچھتائے کیا ہو جب
چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ نانا بڑی سخت طبیعت کے مالک
ہیں۔اگر میں نے کوئی نافرمانی کی تو یہاں بچانے کے لئے نانی بھی نہیں آئے
گی۔ ہر طرف سے راستہ بند دیکھ کر میں نے ’’رو‘‘ کا بھرا ہوا گھڑا زمین پر
دے مارا اور خود دوڑ لگا دی۔ نانامیرے پیچھے بھاگتا ہوا اور گالیاں دینے
لگا نانا چونکہ عمر کے اس حصے میں تھا کہ پگڈنڈیوں پر زیادہ تیز دوڑنا ان
کے بس میں نہیں تھا۔ اس لئے وہ کوشش کے باوجود مجھے نہ پکڑ سکا اور میں
چھلانگیں مارتا ہوا ان سے کہیں پہلے گھر آپہنچا گھر میں آتے ہی ماں کی آغوش
میں پناہ لینے کی بجائے نانی کی بکل میں چھپ گیا۔ نانی میری اضطرابی کیفیت
کو دیکھ کر بدحواسی کے عالم میں وجہ پوچھنے لگی۔ میں نے بتا دیا کہ نانا نے
میرے سر پر ’’رو‘‘ کا بھرا ہوا گھڑا رکھ دیا تھا، جسے اٹھا کر گھر لانے سے
میں قاصر تھا اس لئے میں وہ گھڑا کھیتوں میں پھینک کر آگیا ہوں۔ اور التجا
بھرے لہجے میں نانی سے کہا کہ نانا بہت غصے میں ہیں‘ تم مجھے نانا سے بچا
لینا۔ نانی پہلے تو خاموش ہوگئی پھر اس نے کہا کہ پریشان نہ ہو۔ نانا تمہیں
کچھ نہیں کہے گا۔ اس وقت مجھے اپنی نانی دنیا کی سپرطاقت دکھائی دے رہی
تھی۔ ویسے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ جوانی میں عورت مرد سے ڈرتی ہے اور
بڑھاپے میں مرد عورت سے ڈرتا ہے۔ کچھ یہی مثال میرے نانا نانی پر صادق آتی
تھی اسی اثنا میں ہانپتا کانپتا گرمی کی شدت کا مارا ہوا نانا گھر میں داخل
ہوا۔اس کی زبان سے کلاشنکوف کی طرح گالیاں نکل رہی تھیں۔ وہ ایک منٹ میں
پندرہ بیس گالیاں مجھے دے رہے تھے اور اپنی لاٹھی کو ہاتھ میں اٹھا کر گھر
میں مجھے تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ ماں یہ کیفیت دیکھ کر پریشان تو ہوئی لیکن
اپنے باپ کے سامنے ان کی بھی کچھ نہ چلتی تھی۔ جب نانا کو پتہ چلا کہ میں
موقع کی مناسبت سے نانی کی آغوش میں پرانے سے سفید ململ کے دوپٹے میں چھپا
ہوا ہوں تو نانا نے مارنے کے لیے ادھر کا رُخ کیا۔ ابھی نانا کچھ ہی فاصلے
پر تھے کہ نانی شیرنی کی طرح دھاڑی اور بلند آواز میں کہنے لگی۔خبردار اگر
تم نے اسلم کو کچھ کہا۔ وہ تمہیں اتنی دور سے ملنے آتے ہیں اور تم ان پر
لاٹھی چلانے لگتے ہو۔ ’’رو‘‘ کا بھرا ہوا گھڑا ٹوٹ گیا ہے تو پھر کیا ہوا۔
وہ گھڑا اس بچے کے سر پر رکھنے کی بجائے تمہیں خود اٹھانا چاہیے تھا۔ جونہی
نانی کے بدلے ہوئے تیور نانا نے دیکھے تو ان کا غصہ ہرن ہوگیا اور وہ منہ
میں بڑبڑاتے ہوئے دور تخت پوش پر جا بیٹھے۔ جو ان کے کمرے کے باہر کھڑکی کے
قریب پڑا تھا۔ میں نے نانا کی پوزیشن جاننے کے لئے کی بُکل سے جھانکا تو
نانا مجھے دھندلے دھندلے سے دور بیٹھے بڑبڑاتے نظر آئے۔ میں نے عافیت اسی
میں سمجھی کہ ابھی ان کے سامنے نہ ہی آیاجائے اور شدت سے ماموں ہدایت کا
انتظار کرنے لگا۔ جومیری دوسری پناہ گاہ تھی۔ اسی اثناء میں ڈاک تقسیم کر
کے ماموں ہدایت محکمہ ڈاک کی خاکی وردی پہنے ہاتھ میں سائیکل پکڑے گھر میں
داخل ہوئے۔ ان کی آمد سے گھر کی پراسرار خاموشی ٹوٹی اور نانی ان سے باتیں
کرنے لگی۔ مامی گلزار اور مامی ثریا کو ماموں ہدایت کے لئے دوپہر کا کھانا
لگانے کے لئے کہا گیا۔ تھکا ماندہ نانا تخت پوش سے اٹھ کر کمرے میں بچھی
ہوئی چار پائی پر لیٹ گیا۔ نانا کے اٹھتے ہی میں بھی نانی کی آغوش سے باہر
نکلا اور اپنی ماں کے پاس جا بیٹھا۔
میرے دونوں ماموں مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے بھی وہ بے
حد پیارے لگتے تھے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر کے لئے ماموں اس
چار پائی پر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ جس چار پائی کے تکیے کے نیچے دونیاں
چونیاں بڑی تعداد میں پڑی ہوتی تھیں بلکہ بہت سے لوگوں کے منی آرڈر کے پیسے
بھی اسی تکیے کے نیچے کئی کئی دن پڑے رہتے۔دھوپ ڈھلتے ہی ماموں نے مجھے
اپنے ساتھ بازار چلنے کوکہا۔چونکہ عارف والا میں ٹرنکاں والا بازار اور پھل
منڈی دیکھنے کا مجھے بہت شوق تھا۔ اس لئے میں خوشی خوشی دھلے ہوئے کپڑے پہن
کر ماموں کے ساتھ ہو لیا۔ ماموں کے پاس اس وقت ایک پرانی سی سائیکل ہوا
کرتی تھی۔ بازار جانے کے لئے ماموں نے وہی پرانی سی سائیکل نکالی مجھے
سائیکل کے آگے ڈنڈے پر کپڑا باندھ کے بٹھایا اور پیڈل گھماتے ہوئے ہم دونوں
بازار میں جا بجا سجی ہوئی دکانوں کو دیکھتے گزر رہے تھے۔ یہاں یہ بتاتا
چلوں کہ پرانے زمانے میں قصباتی شہروں اور دیہی علاقوں میں ڈاکیے کی بہت
عزت ہوا کرتی تھی۔بلکہ بہت سی جگہوں پر خط لکھنے اور پڑھنے کا کام ڈاکیے ہی
کیا کرتے تھے۔لوگ اس لئے بھی ڈاکیے سے بگاڑتے نہیں تھے کہ کہیں ان کے خط
اور منی آرڈر ہی غائب نہ ہوجائیں۔ مجھے بھی اپنے ماموں کی ہر دلعزیزی پر
بڑا فخر تھا۔ ماموں ہدایت جہاں جہاں سے گزرتے لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں
سلام کرتے۔ میں سائیکل پر آگے بیٹھا یہی محسوس کرتا کہ اتنے سارے لوگ مجھے
ہی سلام کر رہے ہیں۔ جونہی سبزی اور پھل منڈی آئی، ماموں سائیکل سے نیچے
اتر کر پیدل چلنے لگے اور جا بجا سجی ہوئی پھل کی ریڑھیوں سے اٹھا کر کبھی
مالٹا کھانے کو مجھے پکڑا دیتے اور کبھی سیب دے دیتے۔ دونوں ہاتھوں میں پھل
پکڑے ہوئے جب لوگ دیکھتے تو پوچھتے کہ خاں صاحب یہ بچہ کون ہے۔ ماموں فخر
سے کہتے یہ میری بہن کا بیٹاہے۔ وہ لوگ میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے
کر پہلے چومتے پھر کہتے بڑا پیارا بچہ ہے۔ پھل منڈی کی سیر کے بعد ہم
ٹرنکوں والے بازار کی طرف چل پڑے۔ راستے میں جوتوں کی ایک دوکان نظر آئی۔
دوکاندار ماموں سے کوئی بات کرنے لگا۔ شیشے کے شوروم میں سجے ہوئے جوتے
دیکھ کر میں دل ہی دل میں حسرت بھرے لہجے میں سوچنے لگا کہ کیا اتنے پیارے
جوتے میں بھی کبھی پہن سکوں گا۔ چونکہ ہمارا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے
تھا اس لئے سال میں ایک مرتبہ ہی پہننے کو جوتی ملتی اور وہ بھی قینچی چپل
ہی ہوتی۔ بوٹ اگر مل بھی جاتے تو ماں اسے اس لئے پہننے نہ دیتی کہ عید کے
عید ہی پہننا۔
بوٹوں کی دوکان والے نے میرے بارے میں پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے تو ماموں نے
بتایا کہ میری بہن کا بیٹاہے۔ اس نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے
کہا، یہ بوٹ اس بچے کو پورے آ جائیں گے یہ لے لو۔ ماموں نے پہلے تو انکار
کیا پھر مجھے لے کر دوکان میں چلے گئے۔ یہاں مجھے ایک کریم کلر کے بوٹ اچھے
لگے۔حسن اتفاق وہ میرے پاؤں میں پورے بھی آگئے۔ڈبے میں بند کرکے ہم وہ بوٹ
لے کر گھر واپس آگئے۔ شہر کی مزید سیر کسی اور دن کیلئے موخر کر دی۔
جب میری ماں کو خبر ہوئی کہ بھائی نے ان کے لخت جگر کو نئے بوٹ لے کر دیئے
ہیں تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے تشکرانہ نظروں سے ماموں کودیکھا۔میں ان
بوٹوں کو فوری طور پر پہن لینا چاہتا تھا،کیونکہ ان بوٹوں کی شکل اور رنگت
میری آنکھوں کی پتلیوں میں سما چکی تھی ہر وقت میرا دھیان انہی کی طرف تھا۔
میں نے جب ان بوٹوں کو پہننے کی خواہش ظاہر کی تو ماموں نے کہا کہ کل صبح
تم میرے ساتھ چلنا تب یہ بوٹ پہن لینا۔ گھر میں یہ بوٹ پہننے سے خراب
ہوجائیں گے۔ اب مجھے شدت سے اگلی صبح کا انتظار تھا۔پہلے شام ہوگی پھر رات
ہوگی، تب کہیں جا کر اگلی صبح کا سورج طلوع ہوگا۔ اتنا انتظار مجھ پر محال
ہوا جا رہا تھا۔ شام کے کھانے کے بعد میں مامی ثریا کے ساتھ جلدی جلدی اس
لئے سوگیا کہ جلدی صبح ہو جائے لیکن جب بھی آنکھ کھلے تو اردگرد پھیلا ہوا
اندھیرا ہی مجھے نظرآئے۔ایک دو مرتبہ تو میں آنکھیں کھول کرخود ہی صبح‘
انتظارمیں سوگیا۔ لیکن دو تین مرتبہ دوبارہ سونے کے بعد جب میں پھر اٹھا تو
میں مامی کو نیند سے بیدار کر دیا۔ اس نے آنکھوں کوہاتھوں سے ملتے ہوئے
پوچھا ، کیا بات ہے۔ میں نے انتہائی التجا بھرے لہجے میں کہا، مامی صبح کب
ہوگی۔ مامی نے کہا، ابھی کچھ وقت باقی ہے،چپ کرکے سو جاؤ۔ مجھے نیند کہاں آ
رہی تھی۔ میں اس انتظارمیں تھا کہ جیسے ہی صبح ہو فوراً نئے بوٹ پہن کر باؤ
بن جاؤں اور گھر کا ہر فرد مجھے حسرت بھری نظر سے دیکھے۔بہرکیف صبح کا سورج
طلوع ہوا تو گھر کے سبھی افراد باری باری بیدار لگے۔ اس صبح میں سب سے پہلے
بیدار ہوا۔ حسب معمول چائے اور پراٹھوں سے ناشتہ کر کے اس انتظار میں بیٹھ
گیا کہ کب ماموں مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتے ہیں۔ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ
کہیں ماموں مجھے ساتھ لے جانا بھول ہی نہ جائیں۔ اور نئے بوٹ پہننے کی حسرت
دل میں ہی رہ جائے۔اس لئے میں وہاں بیٹھ گیا جہاں سے ماموں کو ڈاکیے کی
خاکی وردی پہن کر گھر سے باہر نکلنا تھا۔ جونہی ماموں تیار ہوکر باہرنکلے
تو مجھے تیار دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے مجھے سائیکل پر اگلی جانب
بیٹھا لیا۔ ہم دونوں پہلے ڈاکخانے پہنچے۔ وہاں سے ماموں کو بیس پچیس خط اور
منی آرڈر تقسیم کرنے کے لئے ملے۔ ان میں سے زیادہ تر خطوط قرب و جوار کے
دیہاتوں میں رہنے والوں کے تھے۔ چونکہ گرمیوں کے موسم میں دیہاتوں کو جانے
والے کچے پکے راستوں کا سفر زیادہ خوشگوار نہیں تھا لیکن میرے لئے یہ سفر
کسی مہم سے کم نہیں تھا۔ ان دیکھے راستوں پر نئے بوٹ پہن کر جا رہا تھا۔
چونکہ بچپن ہی سے دیہاتوں کا رہن سہن اور وہاں کی معاشرتی زندگی مجھے بے حد
پسند تھی اس لئے دیہی زندگی کے مزید نظارے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ پھر
میرے ماموں سرکاری ملازم تھے اس لئے ان کی گاؤں میں خاصی آؤ بھگت بھی ضروری
تھی۔
ماموں ڈاک کا تھیلا سائیکل کے ہینڈل سے لٹکائے سر پر خاکی پگڑی باندھ کر
مجھ سمیت گاؤں کے لئے روانہ ہوگئے۔ شہر کا سفر تو بہت جلدی گزر گیا۔لیکن جب
ہم گاؤں کی طرف جانے کے لئے کچے راستے پر اترے تو سائیکل کا کوئی پرزہ ایسا
نہ تھا جس سے آواز نہ نکلتی ہو۔ چوں چوں کرتی ہوئی سائیکل کو ماموں اچھل
کود کرتے ہوئے بڑی دلیری سے چلا رہے تھے۔ اس لمحے اپنے ساتھ میرا وزن بھی
انہیں اٹھانا پڑ رہا تھا۔ ابھی زیادہ سفر نہ گزرا تھا کہ اونچی نیچی
ناہموار کچے راستے پر سائیکل چلنے سے میرا جسم درد کرنے لگا۔ گاؤں ابھی
خاصا دور دکھائی دے رہا تھا۔ میں آج بھی اپنے فیصلے پر پچھتا رہا تھا۔ کہ
ماموں کے ساتھ سفر کے شوق نے مروا دیا۔ میں تو بوٹ پہن کر لوگوں کو دکھانے
کے لئے نکلا تھا۔ یہاں بوٹ تو بھول گئے اور اپنی جان کی پڑ گئی۔ جب میرے
پاؤں بالکل سن ہوگئے تو میں نے ماموں کو دردمندانہ لہجے میں مدد کیلئے
پکارا۔ انہوں نے کہا، اب کیا ہے۔ میں نے کہا ماموں میرے پاؤں سن ہوگئے ہیں(
ان میں دوڑنے والا خون منجمد ہو چکا ہے) ماموں نے سائیکل کھڑی کر کے مجھے
اترنے کے لئے کہا، جونہی میں نے زمین پر قدم رکھا۔مجھے محسوس ہی نہ ہوا کہ
میرے پاؤں زمین پر لگے بھی ہیں یا نہیں۔ میں اپنے وزن پر کھڑا ہوتے ہی گر
گیا۔ اور کریم کلر کے خوبصورت جوتے مٹی کی دھول میں لت پت ہوگئے ۔ میرے لیے
یہ صدمہ بہت گہرا تھا۔ میں فوری طور پر گھر واپس آنا چاہتا تھا۔لیکن ماموں
کااصرار تھا کہ گاؤں میں ڈاک تقسیم کرکے واپس چلتے ہیں۔ میرے سوئے ہوئے
پاؤں کوٹھیک کرنے کے لیے ماموں نے مجھے کچھ دور پیدل چلنے کو کہا۔ میں پاؤں
اٹھا اٹھا کر ایسے چل رہا تھا جیسے پہلے کبھی چلا نہیں تھا اور میرے پاؤں
تھپ تھپ کرکے مٹی کی دھول میں پڑ رہے تھے۔ یہیں پر چلتا دیکھ کر ماموں نے
میرا نام تھپ تھپ ڈال دیا۔ جب میرے پاؤں ٹھیک ہوگئے تو ماموں ایک مرتبہ پھر
مجھے لے کر گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاؤں میں ہم جس جس گھر گئے ، گاؤں کی
دیہاتی عورتوں اور مردوں نے ہمارا بڑا پرتپاک استقبال کیا۔ ہر دیہاتی
سرکاری ملازم کی حیثیت سے ماموں کو سلیوٹ مارنے کے انداز میں سلام کرتا اور
عورتیں ڈھیروں دعائیں دیتیں۔ ماموں جس کو بھی خط دیتا وہ ماموں کوہی کھول
کر پڑھنے کے لئے کہہ دیتا۔ان خطوں میں پوسٹ کارڈ بھی تھے جن پر لکھی ہوئی
عبارت ہر کوئی پڑھ سکتا تھا۔ بہرکیف دوپہر کا وقت ہمیں گاؤں میں ہوگیا۔
وہاں ہی ایک گھر سے لسی کے ساتھ ساگ اور مکئی کی روٹیاں رنگین چنگیر میں
رکھ کر ہمارے سامنے آگئیں۔چھپڑ کے کنارے ایک بڑے سے پیپل کے درخت کے نیچے
چار پائی پر بیٹھ کر ہم دونوں ماموں بھانجے نے دوپہر کا کھانا تناول کیا جس
کی لذت آج بھی میرے لاشعور میں محفوظ ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ماموں نے اپنے
سر پر خاکی کپڑا رکھا اور ایک بار پھر ہم محو سفر ہوگئے۔اس مرتبہ ماموں نے
زیادہ تیز سائیکل چلائی جس کی وجہ سے ہم گھر تو پہلے کی نسبت جلدی پہنچ
گئے۔لیکن جب گھر کے دروازے پر ماموں نے مجھے اترنے کے لئے کہا تو میرے پاؤں
میں سے ایک بوٹ غائب تھا۔ چونکہ میری دونوں ٹانگوں اور پاؤں کا خون رک گیا
تھا اور ٹانگیں سن ہوگئی تھیں اس لئے یہ پتہ نہ چل سکا کہ میرا ہر دلعزیز
بوٹ کہاں گر گیا ہے۔ بوٹ گرنے کا مجھے بہت صدمہ ہوا۔ اس صدمے کی وجہ سے میں
زارو قطار رونے لگا۔ نانی سمیت ننھیال کا ہر فرد مجھے دلاسہ دے رہا تھا۔
مجھے ایک بار پھر نئے بوٹ لے کر دینے کے وعدے ہو رہے تھے لیکن میرے خوابوں
میں تو وہی کریم کلر بوٹوں کا جوڑا سمایا ہوا تھا۔اس کے کھو جانے سے ایسا
لگ رہا تھا کہ جیسے زندگی کی سب سے قیمتیں چیز کھو گئی ہے۔ مجھے روتا دیکھ
کر دوسرے ماموں کا دل پسیج گیا۔انہوں نے فوراً مجھے اپنے ساتھ لیااور بازار
روانہ ہوگئے۔ بوٹ تو مجھے خرید کر لے دیئے لیکن جو خوبصورتی اور رعنائی
پہلے والے بوٹوں میں مجھے نظر آتی تھی وہ ان بوٹوں میں نہیں تھی۔ چونکہ
ماموں ہدایت کو میری وجہ سے میری نانی سے ڈانٹ پڑ چکی تھی اس لئے کچھ دنوں
کے لئے سب مجھ سے دور دور رہنے لگے۔ میں جس کے قریب بھی جاتا وہ مجھے یہی
کہتا کہ تم نانی کے بہت لاڈلے ہو اگر تم رو پڑے تو نانی سے انہیں ڈانٹ پڑ
سکتی ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب ماموں ہدایت سے نانی سخت ناراض تھی‘ اس ناراضگی
کی وجہ سے نانی نے اپنے گھر کے درمیان میں پختہ اینٹوں کی دیوار بنوا دی۔
تاکہ ان کو ماموں کی شکل بھی نظر نہ آئے۔ اس دیوار کو گرانے کی ہر ممکن
کوشش کی گئی‘ لیکن نانی کو کون راضی کر سکتا تھا۔ چنانچہ جب میں ماں کے
ہمراہ عارف والا گیا تو مجھے یہ دیوار اچھی نہ لگی‘ بلکہ اسے دیکھ کر بہت
دکھ ہوا۔ میں نے ماموں سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ تمہاری
نانی کی بنوائی ہوئی دیوار کو کوئی نہیں گر سکتا۔ مجھے چونکہ نانی کی محبت
پر ناز تھا‘ اس لیے میں نے نانی کی رضامندی حاصل کیے بغیر دیوار گرانے کا
وعدہ کر لیا اور اس وقت کا انتظار کرنے لگا‘ جب نانی کا موڈ اچھا ہو اور اس
کی محبت عروج پر ہو۔ اگلے دن یہ لمحہ آہی گیا‘ جب نانی نے میرا سر اپنی گود
میں رکھ کر اس سے چٹکیاں بھر بھر کے کچھ نکالنے لگی اور ساتھ ساتھ باتیں
بھی کرنے لگی میں نے موقع غنیمت جان کر نانی کو مخاطب کر کے کہا نانی یہ
دیوار مجھے اچھی نہیں لگی سارے کہتے ہیں کہ اسے تم نے بنوایا ہے‘ جبکہ میں
کہتا ہوں کہ میری نانی یہ دیوار نہیں بنوا سکتی۔ کچھ دیر تو نانی خاموش رہی
پھر بولی تمہارا ماموں مجھے بہت تنگ کرتا ہے‘ یہ دیوار اس کے شر سے بچنے کے
لیے بنوائی تھی‘ اگر تمہیں اچھی نہیں لگی تو اسے گرا دو‘ میں نے ہتھوڑا
پکڑا اور دیوار کو پاش پاش کر کے گھر کو پھر ایک کر دیا۔ میرے اس کارنامے
کی جب خاندان کے دوسرے افراد کو خبر ہوئی تو سب حیران رہ گئے کہ اسلم نے
ناممکن کام کر دکھایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنی نانی کے پیار پر بڑا
ناز تھا۔
اسی طرح ایک دن نانا نے مجھے چارپائی کی داؤن کسنے کا حکم دیا۔ میں جونہی
چارپائی کے نزدیک اسے کسنے کے لیے گیا تو نانا قریب ہی لاٹھی لے کر بیٹھ
گئے‘ تاکہ میری حرکات و سکنات پر نظر رکھ سکیں۔ جس گھر کے صحن میں یہ
چارپائی کَس رہا تھا‘ وہ چھوٹے ماموں طفیل کا گھر تھا۔ جو نانی کے گھر سے
کچھ فاصلے پر تھا۔ اس لمحے گھر میں ماموں طفیل بھی موجود نہ تھے‘ جو مجھے
اس مصیبت سے نجات دلا دیتے۔ بہرکیف میں جب داؤن کَسنے سے پہلے اس کے آخری
سرے پر لگی ہوئی گرہ کھولنے لگا تو ہر حربہ آزمانے کے باوجود وہ نہ کھلی۔
چونکہ میں نے کسنے کا کام گرہ کھلنے کے بعد شروع کرنا تھا‘ اس لیے میں کبھی
گرہ کھولنے کی ناکام کوشش کرنے لگتا تو کبھی نظر میں اٹھا کر قریب ہی بیٹھے
نانے کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگتا۔ اس کے باوجود کہ نانا کو پتہ لگ
چکا تھا کہ یہ داؤن نہ تو اس سے کھلے گی اور نہ ہی گرہ اس سے کھلنے والی
ہے۔ پھر بھی نانا کے دل میں میرے بارے میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ
موٹے موٹے شیشوں والی عینک سے مسلسل مجھے گھورے جا رہے تھے کہ جونہی میں
انکار کروں وہ لاٹھی سے میری دھلائی شروع کر دیں۔ یہاں میری مدد کو نہ تو
نانی موجود تھی اور نہ ہی کوئی ماموں۔ مامی ثریا موجود تھی‘ لیکن وہ نانا
پر زیادہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہ تھی‘ چنانچہ نصف گھنٹے سے زیادہ
وقت میں ادھر اُدھر دیکھنے اور گرہ کھولنے پر گزار دیا‘ لیکن کب تک میں اس
طرح چارپائی پر جھکا رہتا اب نہ تو میں نانا سے یہ التجا کر سکتا تھا کہ
مجھ سے گرہ نہیں کھل رہی‘ کیونکہ وہ تو پہلے ہی بہانے کی تلاش میں تھے۔ ان
کو نانی کے ہاتھوں میری وجہ سے ہونے والی بے عزتی بھی یاد تھی۔ اس لیے آج
وہ اپنا اگلا پچھلا حساب کتاب چکانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اسی اثنا میں
دروازے پر دستک ہوئی مامی نے دروازہ کھولا تو ماموں طفیل گھر میں داخل ہوئے
انہوں نے مجھے چارپائی پر جھکے دیکھ کر پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ میں
نے فوراً جواب دیا نانا نے چارپائی کسنے کا حکم دیا ہے‘ لیکن مجھ سے تو گرہ
بھی نہیں کھل رہی۔ اس پر ماموں نے نانا کو مخاطب کر کے کہا ابا جی آپ بچوں
کو تو چھوڑ دیا کریں‘ وہ لاہور سے چارپائیاں کسنے کے لیے تو نہیں آتے۔ وہ
تو بڑے چاؤ سے ہمیں ملنے آتے ہیں اور آپ ان کو ایسے کاموں میں پھنسا دیتے
ہیں‘ جو ان سے ہو نہیں سکتے۔ اس کے ساتھ ہی ماموں نے مجھے اشارہ کیا کہ جاؤ
جا کر کھیلو۔ چارپائی کوئی اور کس لے گا۔ سچ تو یہ ہے‘ ماموں اس دن میرے
لیے رحمت کا فرشتہ بن کے آئے‘ اگر وہ کچھ دیر اور نہ آتے تو نانا میری
ٹھکائی کا مکمل انتظار کر چکے تھے۔ صرف نانا کے اٹھنے اور لاٹھی چلانے کی
دیر باقی رہ گئی تھی۔ یہاں سے نکل کے میں ایک بار پھر نانی کے پاس پہنچ گیا
اور نانا کی شکایت لگائی۔ میری بات پر نانی بھی نانا پر خفا ہوئی اور مجھے
تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آنے دو اپنے نانا کو میں اسے بتاؤں گی‘ بچوں سے
چارپائی کیسے کسواتے ہیں۔ نانا چونکہ سبزی منڈی میں منشی گیری کے فرائض سے
بھی فارغ ہو چکے تھے‘ اب ان کا کام صرف بازار سے سبزی لانا اور زمین کی
دیکھ بھال رہ گیا تھا۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رعب کم سے کم
ہو چکا تھا۔ پھر نانی نے نانا سے میرے بارے میں باز پرس کی تو نانا اپنے
منہ پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہنے لگے‘ بچو کبھی اکیلا تو ملو پھر تمہیں پوچھوں
گا کہ تم میری شکایت کیسے لگاتے ہو۔
برسر موقع اسی طرح کا ایک اور واقعہ میں یہاں درج کرنا چاہتا ہوں‘ جو میری
زندگی کا اہم واقعہ قرار پاتا ہے‘ چونکہ میرے ماموں عارف والا‘ بورے والا‘
وھاڑی کے بڑے بڑے کارخانوں میں مینجر کی حیثیت سے کام کرتے تھے‘ حالانکہ ان
کی تعلیم بمشکل پرائمری ہوگی‘ لیکن وہ منٹوں میں لاکھوں کا حساب کتاب کر
لیتے تھے‘ ان کی اسی خوبی کی بدولت کاٹن ملوں میں وہ کلیدی عہدوں پر فائز
تھے۔ کاشتکاروں سے روئی خریدنا اور کاٹن ملوں میں روئی صاف کر کے ان کی
گانٹھیں تیار کروا کر فروخت کرنا‘ ان کے فرائض میں شامل تھا۔ مالک کے بعد
وہی سیاہ سفید کے مالک تھے۔ اس لیے درجنوں لوگ ان کے ماتحت کام کرتے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب میں نے میٹرک کر لیا تھا اور والدین کے حکم کے
مطابق ملازمت کی تلاش میں تھا‘ لیکن کہیں ملازمت نہ مل رہی تھی۔ اسی دوران
میں ماں کے ساتھ عارف والا گیا۔ وہاں ماں نے ماموں طفیل سے میری ملازمت کی
بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ جہاں میں درجنوں لوگ دوسرے ملازم رکھتا ہوں‘
کیا اپنے بھانجے کو ملازم نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے مجھے ملازمت پر رکھنے کی
فوراً حامی بھر لی۔ چنانچہ حسب پروگرام مجھے اب ماں کے ساتھ واپس لاہور آنے
کی بجائے ماموں طفیل کے ساتھ وھاڑی جانا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ماں لاہور
جانے والی گاڑی پر جب سوار ہو گئی تو مجھے عارف والا میں ہی رکنے کے لیے
کہہ دیا گیا۔ پہلے تو میں اس فیصلے پر یہ سوچ کر خاموش رہا۔ اس طرح اپنے
پیارے اور آئیڈیل ماموں کے نزدیک رہنے کا موقعہ ملے گا۔ جس کی راہ میں
زندگی بھر دیکھا کرتا تھا‘ لیکن جب میں نے سوچا کہ قریب رہ کر والہانہ محبت
میں شدید کمی بھی ہو سکتی ہے‘ کیونکہ وہ برسرضرورت ڈانٹ بھی سکتے ہیں‘ یہ
تصور ہی مجھے پریشان کرنے کے لیے کافی تھا‘ میں نے گاڑی چلنے سے پہلے ہی
نانی کے گھر سے دوڑ لگا دی اور اس وقت سانس لیا‘ جب میں ماں کے پاس گاڑی
میں پہنچ گیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر میں ماموں طفیل کے پاس کسی کاٹن مل
میں ملازم ہوتا تو کیا جو مقام اﷲ تعالیٰ نے مجھے اب دیا ہے‘ وہ مل سکتا
تھا‘ ہرگز نہیں۔
ننھیال سے واپسی کے بعد ہم ایک بار پھر واں رادھا رام آگئے۔ کئی لوگ اکرم
اور مجھے اکٹھے دیکھ کر ہمیں لڑانے کی کوشش کرتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک
ریلوے پھاٹک والا جو صبح دوپہرشام روٹی کے ساتھ سالن کی بجائے صرف شکر ہی
کھاتا تھا۔ وہ اکثر ایک آنے کا لالچ دے کر کہتا کہ یہ آنہ تب تمہارا ہوگا
جب تم اکرم کو نیچے گرا لوگے۔ چونکہ طاقت کے اعتبار سے میں اکرم سے زیادہ
تھا اس لیے میں اکرم کو پکڑتا اور نیچے زمین پر گرا کر اوپر بیٹھ جاتا۔
نیچے لیٹا ہوا اکرم غصے سے جب مجھے دبکا مارتا تو میں خوف کے مارے نیچے اتر
جاتا۔ مجھے علم تھا کہ اکرم غصے کا بہت تیز ہے اس کے ہاتھ میں جو بھی چیز
آتی ہے وہ اپنے مدمقابل کو دے مارتا ہے۔ پھر اس کی جیب میں ہر وقت چاقو بھی
رہتا تھا۔ اسی چاقو کی وجہ سے اس نے کئی مرتبہ ماں سے مار بھی کھائی تھی۔
لیکن چاقو جیب میں رکھنے سے وہ باز نہیں آیا۔ واں رادھا رام کی ہی بات ہے
کہ شام کو ماں ہم دونوں بھائیوں کو جنگلی جھاڑیاں کاٹنے کے لئے بھیج دیتیں
۔ ان جھاڑیوں کو جلا کر شام کی روٹی پکتی تھی۔ اکرم مجھے کلہاڑی دے کر خود
نواب بن کر دور بیٹھ جاتا۔ جب میں کافی جھاڑیاں کاٹ لیتا تو ان کو رسی سے
باندھ کر گھر لانے کی ذمہ داری بھی میری ہی ہوتی۔لیکن جونہی گھر نزدیک
آجاتا تو اکرم اس رسی کا سرا پکڑ لیتا جس کے ساتھ جھاڑیاں بھی بندھی ہوتیں۔
وہ اس لئے ایسا کرتا تھا کہ ماں کو دکھا سکے کہ یہ سارا کام اس نے کیا ہے۔
اسلم تو کچھ کرتا ہی نہیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اکرم دوھیال کا بہت لاڈلا
تھا، سب سے بڑا بھائی رمضان ننھیال کا لاڈلا تھا۔ یہ دونوں اپنی ابتدائی
زندگی کے بیشتر سال ننھیال اور ددھیال میں گزار چکے تھے۔ ننھیال اور ددھیال
سے پیار تو مجھے بھی تھا لیکن ماں باپ سے جدائی کا میں تصور بھی نہیں
کرسکتا تھا اس لئے جب بھی کہیں جاتا ، ماں باپ کے ساتھ ہی جاتا بلکہ باپ کے
ساتھ رات کو سونے کی عادت نے تو مجھے بہت مشکل میں ڈال رکھا تھا‘ کیونکہ ان
کے بغیر مجھے نیند ہی نہیں آتی تھی۔
پھر جب والدین واں رادھا رام سے لاہور کینٹ منتقل ہوگئے تو یہاں بھی میری
اور اکرم کی جوڑی طاقت کے اعتبار سے خاصی مشہور تھی جو بھی لڑکا ہمیں تنگ
کرتا یا ہمیں ناگوار گزرتا میں اسے اپنے مضبوط بازؤں سے جکڑ لیتا۔ اکرم
اپنی کمر سے بندھا ہوا ہنٹر کھول کے اس کی پٹائی شروع کر دیتا۔ اس انداز سے
ہم نے لاہور کینٹ ریلوے کوارٹروں میں ہر اس لڑکے کو مارا جو ہمارے عزائم کے
راستے میں دیوار بنا۔
لاہورکینٹ آ کر بھی اکرم کا سکول سے بھاگنے کا روٹین نہ بدلا۔ وہ صبح گھر
سے مجھے اپنے ساتھ لے کر گلبرگ ہائی سکول کے لئے نکلتااور جب اس کا دل
پڑھائی سے اکتا جاتا وہ مجھے بھی سکول سے بھگا کر ریلوے لائنوں کے قریب
بٹھا کر خود کٹی ہوئی پتنگوں کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا۔ اس کا میرے لئے یہ
حکم تھا کہ جب تک وہ اپنے مشن سے واپس نہ آ جائے اس وقت تک میں وہیں بیٹھا
رہوں جہاں وہ مجھے بٹھا کر گیا تھا۔ پھر جب میں نے ہوش سنبھالی تو اس کے
احکامات ماننے سے انکار شروع کر دیا اور کلاس میں میری حاضری سو فیصد
ہوگئی۔لیکن اکرم کے طور طریقے نہ بدلے۔ آمدنی بڑھانے کے لئے جب ماں نے
کوئلوں کی کیری میں گوبر ڈال کر گولے بنانا شروع کئے تو ہم دونوں کی ڈیوٹی
گوبر اور کیری لانے کی لگی۔ علی الصبح جب لوگ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے
ہوتے اور نماز فجر کی اذانیں ابھی شروع نہ ہوتیں تو ماں ہم دونوں بھائیوں
کو بیدار کر دیتی تاکہ کسی اور سے پہلے ہم گوبر اور کیری لے آئیں۔ چونکہ ان
دنوں زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا انحصار بیل گاڑیوں پر تھا اس لئے ریلوے یارڈ
میں جا بجا بیل بندھے ہوتے۔ اس زمانے میں رحمت ڈوگر، سراج ڈوگر اور شہباز
ڈوگر کا پورے علاقے میں بڑا رعب و دبدہ تھا۔ ان کی طاقت اور اثر رسوخ کے
سامنے شور ہ کوٹھی، گاندھی پارک‘ گنگا آئس فیکٹری اور آبادی قربان لائن کا
کوئی شخص بول نہیں سکتا تھا۔ رحمت ڈوگر کا ہوٹل اس جگہ موجود تھا جہاں آج
کل شیرپاؤ پل ہے۔ سراج ڈوگر نے اپنے اثر رسوخ سے کچی آبادی قربان لائن آباد
کروائی۔ ریلوے پولیس جب کسی غریب کا گھروندا گرانے کے لئے آتی تو سراج ڈوگر
کانام سن کر بغیر کوئی کاروائی کئے واپس چلی جاتی۔
بہرکیف اکرم کیری لینے اور میں بیلوں کا گوبر لینے کے لئے شورہ کوٹھی میں
ڈوگروں کے ڈیرے پر اس وقت پہنچ جاتا جب ان بیلوں کے رکھوالے بھی گہری نیند
سو رہے ہوتے۔ اور بیلوں کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیاں رات کے پرسکون ماحول
میں ایسے بجتی‘ جیسے ریگستان میں اونٹوں کا کوئی قافلہ سفر کر رہا ہو اور
ان کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیاں رات کے سکوت کو تار تار کر رہی ہوں۔ جب میں
بیلوں کے نیچے سے گوبر اٹھانے لگتا تو مجھے یہ بھی ڈر ہوتا کہ کہیں بیلوں
کا رکھوالا بیدار ہی نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو وہ یقینا مجھے ڈانٹتا
اور نیند خراب کرنے کے جرم میں دوچار تھپڑ بھی رسید کر سکتا تھا۔ بہرکیف
خطرات سے کھیلتے ہوئے میں ہر صبح گوبر اور اکرم یارڈ سے کیری اٹھا کر
لاتا۔ماں دن کے فارغ اوقات میں کیری اور گوبرملا کر گولے بناتی جو بمشکل
تین چاردنوں میں سوکھتے۔ اور جلانے کی پوزیشن میں ہوتے۔ چونکہ ہم قربان اور
ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر گولے بارہ آنے فی ٹین فروخت کرتے تھے۔ اس لئے اگر
گولوں کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا تو ماں اکرم کو مزید گوبر لانے کا حکم
دیتی۔ کبھی کبھار تو اکرم سیدن شاہ کالونی میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ
ڈھلوان پر تھاپی ہوئی تازہ تھاپیاں اٹھا کر لے آتا کبھی کبھار وہ سائیکل پر
گوبر کی تلاش میں ایوب سٹیڈیم کی طرف نکل جاتا۔ایک مرتبہ اکرم اور مینا
دونوں ایک ہی سائیکل پر گوبر لینے کے لئے ایوب سٹیڈیم کی طرف گئے۔ جب گوبر
کا ٹین بھر کے واپس آ رہے تھے تو سائیکل پنکچر ہوگئی۔ دونوں کے پاس چار آنے
نہیں تھے۔ جس سے پنکجر لگوایا جا سکے چنانچہ ہمت کر کے دونوں نے باری باری
وہاں سے گزرنے والوں سے پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ ان کی حالت زار کو دیکھ
کر کسی کوبھی رحم نہ آیا۔ چنانچہ دونوں کو گوبر بھرے ٹین کے ساتھ پیدل سفر
کرکے ہی گھر واپس آنا پڑا۔
پھر میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اکرم سکول سے مستقل ہی فارغ ہوگیا۔ اور
پڑھائی سے عدم دلچسپی کی بناء پر ٹیلی فون انڈسٹری میں تمام عمر بطور ہیلپر
کام کرتا ہوا جبراً ریٹائرڈ ہوگیا۔اکرم کے ظلم و زیادتیوں کا جتنی تفصیل سے
ذکر کیا گیا ہے اس دوران ایک ایسا واقعہ بھی رونما ہوا جس نے میری نفرتوں
کو محبت میں یکسر بدل کے رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بجے کے قریب ایک
اجنبی شخص اکرم کے گھر کا پتہ پوچھتا ہوا ہمارے گھر تک آپہنچا۔ ابا جی جب
اجنبی شخص سے ملنے کے لئے گھرسے نکلے تو اس نے نہایت افسوس یہ المناک خبر
سنائی کہ اکرم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ شدید چوٹوں کی وجہ سے اکرم موقع پر ہی
فوت ہوگیا ہے۔ یہ غم ناک خبر سنتے ہی نہ صرف ابا جی پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا
بلکہ ماں سمیت ہم سب زار و قطار رونے لگے۔ اپنے بچپن کے ساتھی بھائی کی
جدائی کا صدمہ میرے بس سے باہر لگ رہاتھا۔ جی کررہا تھا کہ میں خود کو بھی
ختم کرلوں کیونکہ بھائی کی ناگہانی موت کی خبرنے مجھے تنکوں کی طرح بکھیر
کے رکھ دیاتھا۔ اسی اثناء میں نماز ظہر کی اذانوں کی صدا فضا میں بلند ہوئی
چونکہ میں بچپن سے ہی نماز پابندی سے پڑھتا تھا اس لئے اس سانحے کے باوجود
بھی میرے قدم مسجد کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ آنسو میری آنکھوں سے مسلسل بہہ
رہے تھے۔ روتے ہوئے میں نے وضو کیا پھر چار رکعت سنت ادا کیں۔ جماعت کے
ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے بھی میری ہچکیوں کی آواز دوسرے نمازی بخوبی سن رہے
تھے۔ اور دل میں یہ احساس ابھر رہا تھا کہ کاش یہ منحوس خبر غلط ہو اور
میرا بھائی ہنستا مسکراتا گھر واپس آجائے۔میں نے دوران نماز ہی پروردگار سے
اس اچھی خبر کے عوض شکرانے کے دو نفل پڑھنے کا وعدہ کر لیا تھا۔ نماز ظہر
کی مکمل ادائیگی کے بعد میں روتا ہوا گھر واپس آ رہا تھا تو میرے سامنے
میرا بھائی اکرم زندہ سلامت ہنستا مسکراتا کھڑا تھا جسے دیکھ کر میرے جسم
میں جان آئی۔ یہ سب کچھ میرے لئے معجزے سے کم نہیں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا
کہ ایکسیڈنٹ میں موت کسی اور اکرم کی ہوئی تھی لیکن اجنبی شخص غلطی سے
ہمارے گھر اطلاع دے گیا۔ بے شک بھائی میرے سامنے زندہ سلامت تھا لیکن اس کی
جدائی کے احساس نے مجھے بدحال اور بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ ذہنوں سے محو ہوگیا۔ پھر اکرم کی شادی
1968ء میں ہوگئی۔اکرم نے اپنی منفی سوچ کی وجہ سے ایک بار پھر مجھ سمیت
والدین کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ پھر ایک رات وہ پیشاب کرنے کے لئے ننگے
جسم چار پائی سے اٹھا تو قریب ہی ایک پیڈسٹل فین گرمیوں کے موسم میں چل رہا
تھا۔ بدقسمتی سے وہ پنکھا شارٹ مارتا تھا۔ جونہی اکرم اس پنکھے کے قریب سے
ننگے جسم گزرا پنکھے نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ غنودگی کی وجہ سے اکرم اس
شارٹ سے اپنی جان نہ چھڑا سکا اور اس کی زبان سے یہی فقرہ نکل سکا،
’’بچاؤ‘‘ قریب ہی ان کی بیوی بھابی روقیہ سوئی ہوئی تھی۔ شوہر کی پکار پر
ان کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے جب اپنے شوہرکو بجلی کے کرنٹ سے تڑپتا ہوا
دیکھا تو بے ساختہ وہ بھی ان کی طرف بھاگی۔ جونہی اکرم کو انہوں نے بچانے
کے چھوا کرنٹ ان کے جسم میں بھی آگیا۔ نتیجتاً وہ بھی کرنٹ کا شکار ہوگئیں۔
خوش قسمتی سے تڑپتے ہوئے ان کا ایک پاؤں لکڑی کی چار پائی سے لگ گیا جس کی
وجہ سے ان دونوں کی جان پنکھے سے چھوٹ گئی۔ اگلی صبح جب یہ خبر ہم سب تک
پہنچی تواکرم کا رویہ دوسروں کے ساتھ قابل ذکر حد تک ہمدردانہ ہو چکا تھا
وہ موت کو اتنا قریب دیکھ کر ہر کسی کو ہنس ہنس کے مل رہا تھا بلکہ اگر یہ
کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ جتنی نفرت والدین سمیت ہم سب سے کرتا تھا اس
رات کے بعداس کا رویہ یکسر تبدیل ہوگیا ۔اس کا محبت بھرا رویہ صرف چند دن
ہی جاری رہ سکا۔ اس کے بعد وہ پھر پہلی والی ڈگر پر آگیا۔
منفی ذہن اور سوچ کا مالک یہ میرا بھائی میری ماں کی کوکھ سے پیدا تو ضرور
ہوا ہے لیکن اس سے مجھے کبھی کوئی فیض حاصل نہیں ہوا بلکہ زندگی کی ہر سطح
پر اس نے نہ صرف مجھے بلکہ میرے بیوی بچوں کو بھی نقصان ہی پہنچانے کی حتی
المقدور کوشش کی ہے۔ میں جس ماں کا دل سے احترام کرتا ہوں اوراپنی تمام تر
توانائیاں اس کی خوشی کے لئے صرف کرنے کا عزم رکھتا ہوں میرا یہ بھائی اپنے
رویے سے ہمیشہ اس ماں کو اذیت پہنچاتا ہے بلکہ اس کے شر سے چھوٹے بھائی بھی
محفوظ نہیں ۔ میرا تو ایمان ہے کہ انسان اگر دوسروں کے لئے اچھی سوچ رکھے
تو اس سے اﷲ بھی خوش ہوتاہے بلکہ دوسروں کے دلوں میں احترام کا جذبہ پیدا
ہوتا ہے۔
(افسوس کہ اب میرا بھائی اکرم اپنے خالق کے پاس چلا گیا ہے ۔ لیکن ان کے
ساتھ بیتے ہوئے لمحات یادگار بن کے اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ )
|