یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کا زوال فکری سطح پر
اسلامی طرز فکر چھوڑنے اور اسلامی احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں سستی
برتنے سے ہوا ہے۔مغرب جب مذہبی جہالت میں غرق تھا۔تب مسلمان علم و دانش کے
علمبر دار تھے۔مسلمان یورپ کو غفلت اور جہالت کی گہری نیند سے بیدار کرکے
خود خواب غفلت کا شکار ہوگئے۔ مسلمانوں کے اسلامی اذہان کو فرقہ پرستی،نسلی
عصبیت،عقل دشمنی پر مبنی مذہبی تحریکیں لے ڈوبیں۔قومیں جب عقل کی حریف
ہوجاتی ہیں تو زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔عقل کے حریفوں میں عدم برداشت کا
رجحان درآنا بھی ایک عام بات ہے۔اسی وجہ سے وطن عزیز آج بہت سے مسائل کے
بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔مگر ہم ہیں کہ اجتماعی طور پر سربراہ مملکت کو جملہ
تمام بیماریوں کی جڑ گردانتے ہوئے مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اپنی سابقہ
روش کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ہرقسم کی برائی پائی جاتی ہے
بہنوں بھائیوں کے حقوق ثواب سمجھ کر غصب کئییجاتیہیں رشوت کا چلن عام ہے
قتل و غارتگری،بردا فروشی،منشیات فروشی،ذخیرہ اندوزی،سود خوری،اوراپنے
مفادات کے لیے ہر جائز ناجائز کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرنا یہ تمام
چیزیں شامل ہیں جن سے ہمارا نظام انصاف بھی محفوظ نہیں رہا۔امیر امیر تر
جبکہ غریب غریب تر ہورہا ہے۔ بنیادی طور پر ان تمام کی وجہ قومی تربیت کا
سرے سے ہی نہ ہونا ہے اسی اثناء میں مختلف سیاسی،لسانی،قومی،عصبی،گروہ اپنے
مفادات کی تکمیل کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں نتیجتاً معاشرے میں عدم
استحکام پیدا ہورہا ہے جو کسی طور پر قومی یا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ان
تمام برائیوں کے ساتھ معاشرہ کیا۔کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ہمارے
والدین اولاد کی تربیت سے زیادہ انکی نشوونما انکی تعلیم،اخراجات پرتوجہ
دیتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ کے پاس ہمیں بنیادی تہذیب،اخلاق،معاشرتی
اقدار،سمجھانیاورسکھانے کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا کیونکہ انہیں کم وقت میں
زیادہ نصاب ہمارے نسل نو میں انڈیلنا ہوتا ہے۔تربیت کرنے کا کسی کے پاس وقت
اور سلیقہ نہیں ہے مگر تربیت پر انگلی اٹھانے کے لیے سب تیار ہوتے ہیں۔
ہمیں رشتے نبھانے نہیں سکھائے جاتے، لیکن رشتے ٹوٹ جانے پر ملامت ضرور کی
جاتی ہے۔ ہمیں اخلاق کا عملی مظاہرہ کرکے نہیں دکھایا جاتا، مگر بداخلاقی
کی نقل کرنے پر کوسا جاتا ہے۔معاشرتی اقدار حقوق العباد کیا ہیں کس طرح
دوسروں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے معاشرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور
کس طرح مفید شہری بننا ہے ہم نہیں جانتے۔
ہمیں بچپن میں خواب دیکھنے کی ترغیب نہیں دی جاتی ہے، زندگی گزارنے کامقصد
کیاہے؟نہیں سمجھایا جاتا۔ہمیں زندگی گزارنے کے سلیقے اور طریقے نہیں سکھائے
جاتے کیونکہ کوئی اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہی نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہ دوسرے
طبقے اور شعبے کی ذمہ داری لگتی ہے اس لیے کوئی بھی یہ بیڑا اٹھانے کو تیار
نہیں ہے۔ایک پرانی کہاوت ہے کہ50 سال کی تیاری کے لئے اسلحہ جمع کریں،100
سال کی تیاری کے لئے صنعت پر توجہ دیں اور ایک ہزار سال کی تیاری کے لئے
تعلیم پر محنت کریں۔ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اسی تربیت
پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہوتی ہے
اسی تربیت پر بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ لہٰذا ماں
کے روپ میں خاتون کے کندھوں پر بہت اہم ذمہ داری ہے۔اسکے بعد استاد کی زمہ
داری شروع ہوتی ہے آئندہ نسلوں کو سنوارنا ان کو ملک کی خدمت کے قابل اور
نظریاتی بناناانہی کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور
کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے اساتذہ کی کارگزاری
ہے۔استاد کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی
اخلاقی،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی
ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘
معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی تربیت گاہ قرار دینے کے
ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد
کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت
رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی
انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے
کے گُر سکھاتا ہیاور ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد
سے اب تک تعلیم وترتبیت کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔حکومت وقت کے
لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت کیلییخصوصی اقدامات کرے اور ساتھ ہی
اساتذہ کی تقرری کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ قابل ترین اشخاص
قوم کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیں۔نصاب تعلیم میں بہت سی خامیاں موجود
ہیں ہمارا سسٹم غلام پیدا کررہا ہے کہ جو خاموشی کے ساتھ صبح آکر میز پر
بیٹھیں اورشام کو چھٹی ہونے کے بعد چلے جائیں۔نہ وہ اپنے عقل و شعور کا
استعمال کریں اور نہ ہی وہ تخلیقی ذہن کے مالک ہوں۔طلبہ کے ذہن میں یہ بات
بٹھادی گئی ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے، اورکامیاب وہی ہے جو سرکاری
نوکر ہے۔ حتیٰ کہ MBA یعنی ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن بھی اسی مقصد سے کرتے
ہیں کہ نوکر بننا ہے۔بدقسمتی سے تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ 100 سال پرانا
ہی نصاب چل رہا ہے۔ہمارا نصاب تعلیم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا
ضروری ہے۔جس میں تاریخ اسلام، قومی ہیروز، جدید علوم، اسلامی نظریات، مشرقی
اور معاشرتی اقدار، تربیت شامل ہوں۔نصاب تعلیم مختصر اور جامع ہونا چاہیے
اذہان میں انڈیلنا مقصد نہیں بلکہ تربیت کرنا مقصود ہے۔ماہرین نفسیات کا
کہنا ہے، انسانی زندگی کے پہلے پندرہ سال انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اس میں اس کی شخصیت جیسی بنادی جاتی ہے، باقی عمر تقریباً وہی چلتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ قوم سازی میں نصاب کا بہت بڑا کردار ہے۔ان سارے حقائق کے بعد
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نصاب تعلیم کا مقصد نہ صرف بہترین اور اپ ٹو ڈیٹ
تعلیم دینا ہے بلکہ نئی نسل کو اخلاقی تربیت بھی دینی ہے تاکہ جہاں وہ ایک
قابل پروفیشنل بنیں وہیں اپنے تابناک ماضی سے روشناس ہوکر ایک بہترین انسان
بھی بنیں۔وہ صرف کاپی پیسٹ کی مشین نہ ہوں بلکہ یہ نصاب اِن کو سوچنے کے
نئے زاویے دے اور ان میں مطالعہ، تحقیق اور غور وفکر کی عادت بھی ڈالے
|