ہر سال 14 فروری کو دنیا کے مختلف حصّوں بالخصوص مغربی
ممالک میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو بے حیائی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع
پر ناجائز طریقے سے محبت کرنے والوں کے درمیان نہ صرف مٹھائیوں، پھولوں،
کارڈز اور ہر طرح کے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ کارڈز بھیجنے کے حوالے سے
ایک تحقیق کے مطابق عیسائیوں کا تہوار کرسمس کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہوتا
ہے۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ’’سینٹ ویلنٹائن ‘‘نے روزہ رکھا تھا اور
لوگوں نے اسے’’ محبت کا دیوتا‘‘ مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ
عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی
دیوی) سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک مشہور واقعہ یہ ے کہ تیسری صدی عیسوی میں ایک
’’ویلنٹائن‘‘ نام کا پادری راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ چونکہ
عیسائیت میں راہبہ سے نکاح ممنوع تھا اسلئے ایک دن پادری نے اپنی معشوقہ کو
بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ 14 فروری کو اگر کوئی راہبہ سے جسمانی
تعلق کرلے تو وہ گناہ میں شامل نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اسکی بات پر یقین کرلیا
اور دونوں اس دن وہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے
پر انکا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے، یعنی ان دونوں کو قتل کردیا
گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد چند لوگوں نے انہیں ’’محبت کا شہید ‘‘جان کر عقیدت
کا اظہار کیا اور انکی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔تاریخ یہ بھی بتاتی
ہے کہ ہروم کے جیل خانہ میں ایک ایسے شخص کو مقید کردیا گیا جو راتوں کو
لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتا تھا۔ اس قیدی کا نام
پادری’’ سینٹ ویلنٹائن‘‘ تھا، جس کے نام سے اس تہوار کو منسوب کرکے شہرت دی
گئی۔جس جیل میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا تھا اس جیل کی جیلر کی بیٹی
روزانہ اپنے والد کو کھانا دینے جیل آیا کرتی تھی، پادری نے کسی طریقے سے
اس لڑکی کو اپنی طرف مائل کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے جیل سے رہائی نصیب
ہوئی۔اس کے بعد اس نے کچھ عرصہ ناجائز طریقے سے اسی داروغہ کی بیٹی کے ساتھ
گزارا اور ایک دن اسے چھوڑ کر ایسے غائب ہوا کچھ سراغ نہ ملا!۔اس طرح کی
مختلف داستانیں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ’’
ویلنٹائن ڈے‘‘ کی بنیاد ہی کلی طور پر فحاشی، عریانی، بے حیائی اور
بدتہذیبی پر مبنی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے،اس کا
مقصد صرف اور صرف مرد و عورت کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ
روی کو محبت کا لبادہ پہنا کر ناجائز تعلقات قائم کروانا ہے۔یہ اسلامی
معاشرہ و تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کی عالم کفر کی نہ صرف سازش ہے بلکہ
اولین ہدف ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام پر منایا جانے
والا بے حیائی کے اس عالمی دن میں اب مسلمان بھی شریک ہورہے ہیں اور بے
حیا، بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکا ڈالنے والے عیسائی پادری
کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں
اخلاقیات کا وجود ختم ہوتا نظر آرہا ہے، خاندانی نظام تباہ و بربا ہورہا
ہے، مقدس رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، عصمت و عفت اور پاکدامنی اور
شرم و حیا اپنی آخری سانس لینے پر مجبور ہے۔ اسلام تو ’’حیا ‘‘کی تعلیم
دیتا ہے اور اسکی پاسداری کی خوب ترغیب دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا شعبہ
قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ ’’حیا ایمان کا ایک اہم جز
ہے!‘‘ (صحیح البخاری ،163)۔اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ ’’بے شک ہر
دین کی کوئی خاص خصلت (فطرت، مزاج یا پہچان) ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص
خصلت حیا ہے!‘‘ (ابن ماجہ، 4181)۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر نے اسلام کی
پہچان’’ حیا‘‘ پر حملہ کرکے اپنی دشمنی کا آغاز کیا۔ قرآن مجید میں اﷲ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے
حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا و ا?خرت میں دردناک عذاب ہے!‘‘ (سورۃ النور:
19)دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جس نے انسان کو زندگی کے ہر
گوشے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ
اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی وہیں سیاست، معاشرت،
معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطاء
کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کرنیں مکہ و مدینہ سے نکل کر پوری دنیا میں
پہنچ چکی ہیں۔ اور دن بدن بلاد کفار میں بسنے والے لوگ دائرہ اسلام میں
داخل ہورہے ہیں۔ آج مغرب میں اسلام سب سے مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا
مذہب بن چکا ہے۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔اسلام کی
بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر مغرب نہ صرف پریشانی میں مبتلا ہے بلکہ اسلامی
تعلیمات اور تہذیب پر منصوبوں کے تحت حملے کیے جارہا ہے اور ان مذموم مقاصد
کو سر انجام دینے کیلئے باقاعدہ مختلف ادارے دن رات سرگرم ہیں۔ مغرب کے
مشترکہ اہداف میں اولین ہدف مسلم معاشرے میں بے حیائی، بے شرمی، جنسی بے
راہ روی اور شہوت رانی کا فروغ دینا ہے۔ اسی کے پیش نظر مغربی تہذیب نے
معاشرے میں مختلف بے ہودہ رسوم و رواج، بدکاری و بے حیائی کو جنم دیا ہے۔
انہیں میں سے ایک 14 فروری کو’’ یوم محبت‘‘ کے نام سے منایا جانے والا’’
ویلنٹائن ڈے‘‘ ہے۔ جس کی بنیاد بے حیائی، بے شرمی، بدکاری اور زنا پر ہے۔
افسوس کہ آج مسلمان بھی مغرب کی اس سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔اسلام دین فطرت
ہے اور محبت فطرت کا تقاضا ہے، اسلام نے محبت کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسکے
کچھ حدود و قیود مقرر فرمائی تاکہ مسلمان محبت اﷲ اور اسکے رسول ؐاور انکے
ارشادات کے مطابق جائز طریقے سے کرے۔لیکن ویلنٹائن ڈے کے دن ایک لڑکا ایک
لڑکی سے ناجائز طریقہ سے اظہار محبت کرتا ہے۔ آج اس رسمِ بد نے ایک طوفانِ
بے حیائی برپا کردیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو
پامال کردیا ہے۔ معاشرہ کو پورا گندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور
جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔آج مسلمان مغرب
کی اس سازش میں اس طرح پھنستا چلا جارہا ہے وہ اپنی شناخت اور پہچان ہی
بھلا بیٹھا ہے۔نبی کریم نے جو معاشرے قائم فرمایا اسکی بنیاد’’ حیا ‘‘پر
رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اسکے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس
دین کی پہچان اور بنیادی ہی حیا ہو اس میں بے حیائی کی کہاں گنجائش ہوسکتی
ہے؟جو شریعت عورتوں کو پردہ میں رکھنے کا حکم دیتی ہو وہ کیوں کر ویلنٹائن
ڈے منانے کی اجازت دے گی؟اور یہ بات واضح ہے کہ’’ ویلنٹائن ڈے منانے کی
اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔‘‘ آج ضرورت ہے کہ ہم سب ملکر عہد کریں کہ دین
اسلام کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی فکر
کریں گے ۔
|