گل د ا کدو گل ' انڈ ر 21 ٹرافی اور ضم اضلاع کے کھیلوں کا کاغذی میلہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
'بھلے سے لوگوں کی زندگی برباد ہو ' ان معاملوں میں ہراسمنٹ کی وفاقی ادارے کو ہر ماہ کھیلوں کی وزارت کاپتہ لگانا چاہئیے کہ کن لوگو ں کو کہنے پر لوگوں کو نوکریوں کے نام پر بلایا جاتا ہے اور پھر ٹھیکیدار نما نام نہاد صحافی " خبریں دبا" لیتے ہیں کہ صاحب لوگ ناراض ہوتے ہیں.حالانکہ انہی لوگوں نے صاحب لوگوں کو کہا تھا کہ راقم منفی خبریں چلاتا ہے اور ہم "غل " کو گل بنانے میں ماہر ہیں ' اس لئے ہمیں سرٹیفائیڈ صحافی مانا جائے ' حالانکہ صحافی اور صفائی کرنے والے میں فرق ہوتا ہے. جو صاحب لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا.
|
|
گل دا کدو گل دے ' چی یو لرکوے لاندے بل دے... اس پشتو مثل کا مزہ پشتو بولنے اور سمجھنے والے لے سکتے ہیں معنی تو اس کے بہت وسیع ہیں لیکن لفظی ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ایک پھول کاٹ لیتے ہو تو دوسرا نکل آتا ہے.اس مثل کی تشریح کچھ یوں کی جاسکتی ہیں کہ پہلے ہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کا رونا روتے رہے کہ شائد کچھ بہتری آجائے اور کسی حد تک بہتری آبھی رہی ہیں لیکن یہ بہتری کچھ مخصوص لوگوں کیلئے ہے جن کے کار خاص ہر معاملے میں آگے ہیں . سمجھنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر کوئی کہے کہ کتا آپ کے کان کاٹ کر لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے بھاگنے کے بجائے پہلے کان دیکھنے چاہئیے کہ آیا واقعی کتا کاٹ کر لے گیا ہے یا پھر کان اپنی جگہ پر موجود ہے . سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی نئی انتظامیہ نے یہ حال شروع کیا ہے کہ صاحب لوگوں کے کانوں میں مخصوص لوگ پھس پھس کرکے کہہ دیتے ہیں کہ کتا کان لیکر چلا گیا ہے اور صاحب کتے کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں جبکہ مخصوص اپنے کاموں میں لگ کر اپنے کام نکال لیتے ہیں.
کام نکالنے پر یاد آیا کہ ایک زمانے میں قبائلی علاقہ جات ہوا کر تے تھے جہاں کی انتظامیہ کی شان ہی نرالی تھی ' یہ تو شکر ہے کہ ان علاقوں کو ضم کرلیا گیا اور صورتحال ایک طرح سے بہتر ہوگئی لیکن کھیلوں کے شعبے میں تقریبا وہی کام اب بھی جاری ہے.ضم اضلاع میں بڑے کھیلوں کے مقابلوں کا آغاز تو ہوگیا جس کا بڑے دنوں سے ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے گیمز کیلئے " ٹرافی صوبائی حکومت کے انڈر 21 " کھیلوں کی استعمال کی گئی . جسے پشاور سپورٹس کمپلیکس سے جمرود لے جا کر بڑے کروفر سے وفاقی وزیر کے سامنے رکھا گیا کہ یہ ان کھیلوں کیلئے ٹرافی ہے. حالانکہ یہ ٹرافی انڈر 21 کی ٹرافی تھی .اب اللہ جانے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ ضم اضلاع کے ان مقابلوں کیلئے ٹرافی کے نام پر کتناخرچہ نکال لے گی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن اتنی صفائی سے کام چلایا جارہا ہے کہ ایک صاحب سے جب راقم نے سوال کیا کہ یہ ٹرافی ادھر کیوں پڑی ہے توفرمایا گیا کہ اسے دیکھنا تھا کہ کہیں خراب تو نہیں کیونکہ انڈر 21 خواتین کے مقابلے آرہے ہیں . حالانکہ اسے پشاو ر سے جمرود "فوٹو سیشن"کیلئے لے جایا گیا تھا تاکہ ھینگ لکے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکا آئے.حالانکہ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا انڈر 21 کے مقابلوں کیلئے اتنی تھرڈ کلاس ٹرافی لے گئی کہ اس کے خراب ہونے کا خدشہ تھا ' لیکن راقم کو صورتحال کا پتہ تھا اس لئے تصویریں لیکر شیئر کردی تاکہ "وزیراعلی خیبر پختونخواہ"جو شفافیت کے بڑے دعوے کرتے ہیں انہیں اپنی وزارت کی کارکردگی کا پتہ تو چل جائے.
کارکردگی تو گذشتہ روز سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں خواتین کے ہراسمنٹ سے متعلق آگاہی کے ایک سیشن میں بھی دکھائی دی لیکن اس کا اثر پڑنے والا بھی نہیں کیونکہ پشاور سپورٹس کمپلیکس اور پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کے دونوں سنٹرز میں صرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھیلنے والی کھلاڑیوں کو بلایا گیا تھا حالانکہ وفاقی ادارے کو وفاق کے زیر انتظام ادارے کے اہلکاروں کو بھی بلانا چاہئیے تھا ساتھ میں بننے والی کمیٹی میں باہر کے غیر جانبدار لوگوں کو شامل کرنا چاہئیے ,کیونکہ ہراسمنٹ کے حوالے سے کام کیسے ہوگا جب ایک ادارے کے لوگ ہراسمنٹ کمیٹی میں شامل ہونگے تو وہ کب چاہیں گے کہ ان کی بات باہر نکل جائے ' حالانکہ ہراسمنٹ سے آگے کی باتیں بہت ساری اس ڈیپارٹمنٹ میں آئی ہیں جس میں ضم اضلاع کے ایک بڑے صاحب بھی ملوث رہے جنہوں نے پی ایس بی کی ہاسٹل کو استعمال کرنا چاہا جہاں پر ضم اضلاع کے کھیلوں کا سامان پڑ تھا اور غلط استعمال کی اطلاع پر دونوں اداروں نے واقعہ کو دبا کر آنکھیں بند کرلی.حالانکہ اب بھی اس کے گواہ موجود ہیں لیکن واقعہ کو چھپا لیا گیا تاکہ " سارے فرشتے"بن کر رہیں 'بھلے سے لوگوں کی زندگی برباد ہو ' ان معاملوں میں ہراسمنٹ کی وفاقی ادارے کو ہر ماہ کھیلوں کی وزارت کاپتہ لگانا چاہئیے کہ کن لوگو ں کو کہنے پر لوگوں کو نوکریوں کے نام پر بلایا جاتا ہے اور پھر ٹھیکیدار نما نام نہاد صحافی " خبریں دبا" لیتے ہیں کہ صاحب لوگ ناراض ہوتے ہیں.حالانکہ انہی لوگوں نے صاحب لوگوں کو کہا تھا کہ راقم منفی خبریں چلاتا ہے اور ہم "غل " کو گل بنانے میں ماہر ہیں ' اس لئے ہمیں سرٹیفائیڈ صحافی مانا جائے ' حالانکہ صحافی اور صفائی کرنے والے میں فرق ہوتا ہے. جو صاحب لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا.
صاحب لوگوں نے ضم اضلاع کے نام پر کھیلوں کا میلہ تو سجا لیا لیکن یہ اتنے سجے سجائے میلہ کی افتتاحی تقریب خیبر میں رکھی گئی باقی تمام کھیل پشاور میں ہونگے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھیلوں کے ان مقابلوں کا مقصد ضم اضلاع کے نوجوانوں کو مواقع دینا اور انہیں مثبت سرگرمیوں سمیت کھیلوں کی جانب راغب کرنا تھا لیکن ضم اضلاع کے تمام اضلاع میں کہیں پر کوئی ایسا کھیل نہیں جو ان اضلاع میں کھیلا جائے جہاں کے نوجوان ہوں ' لیکن انہیں پشاور لا کر دکھا دینا اس بات کی تصدیق کیلئے کافی ہے کہ پہلے بھی قبائلی علاقہ جات میں کاغذوں میں کام ہوتا تھا اور اب ضم اضلاع جو صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل ہوا میں کاغذوں میں کام ہورہا ہے اگر کسی کو یقین نہ تو صرف ایک کھیل ہاکی سے پتہ کرلیں کہ کتنے کھلاڑیوں کی ٹیمیں بنا کر پشاور کے اسلامیہ کالج میں کھلائی جارہی ہیں ' کٹس کتنے کھلاڑیوں کے نام پر جاری کئے گئے اور کتنی ٹیمیں نہیں آئی تھی جنہیںپہلے روز "واک اور" دیا گیا اور یہ سب کچھ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ جن کے بڑے صاحب بڑے ایماندار ہے کے اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار کی نگرانی میں ہورہا ہے حالانکہ اس سے قبل انڈر 21 کے مقابلوں کیلئے جب ہاکی کی ٹیمیں بنائی جارہی تھی تو صرف خیبر سے ہاکی کے چند کھلاڑی آئے تھے باقی خیر خیریت تھی ' اب ضم اضلاع کے کھیلوں کے مقابلوں میں خیر خیریت والے معاملے میں کتنے کٹس اور کتنا اعزازیہ نکلے گا اس کا جواب " وزیراعلی خیبر پختونخواہ ہ"ہی دے سکتے ہیں کیونکہ باقی تو کوئی اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا.
جواب دہی تو ابھی تک پانچ سال قبل ہونیوالے قبائلی علاقہ جات کے زیر انتظا م سائیکل ریس کیلئے خریدے گئے سائیکلوں کی بھی نہیں ہوئی جس میں "مونگ یو دا خیبر زلمی" کے ایک صاحب نے چند ہزار کی سائیکلیں لاکھوں میں ظاہر کرکے خریدی تھی اور پھر ان سائیکلوں پر گیمز بھی نہیں ہوئی جس کی انکوائری بھی شروع ہوگئی تھی لیکن پھر شائد وزیراعلی کی ڈر سے یہ انکوائری ختم ہوگئی یا پھر نیب کی ڈیل کی نذر ہوگئی لیکن مڑہ "پاکستان دے سوک ئی تپوس کوی"والا معاملہ ہوگیا ہے.اور اب تو بالکل پوچھنے والا بھی نہیں . |