پاکستانی ڈراموں کے نوجوان نسل پر اثرات


ہماری نوجوان نسل جو زیادہ تر اپنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ پاکستان میں بناۓ گئےڈرامے جن کے ہماری نوجوان نسل پر گہرے اثرات مرتب ہوے ہیں ۔ان میں سوتن ،جلن ، اس پیار کے صدقے ، خدا اور محبت، دیوانگی، ایمان اور عشقیہ شامل ہیں ۔ان ڈراموں میں محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔سسر جیسا رشتہ جو باپ کے برابر ہوتا ہے اس رشتے کی دھجياں اڑا دی گئیں ہیں اس "پیار کے صدقے " جس میں مرکزی کردار یمنہ نے ماہ جبین کا کردار ادا کیا گیا اور انہیں لوگوں نے کافی پسند بھی کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف بہت سے شیاقين کی جانب سے اس ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ پاکستانی ڈراموں میں محرم رشتوں کا وقار خراب کردیا ہے ۔مَحرَم :وہ رشتہ دارجس سےقرابت،رضاعت، یاسسرالی رشتہ کی وجہ سے نکاح کرناہمیشہ حرام ہو۔باپ، بھائی، چچا، ماموں، سسر، بیٹا، پوتا، نواسا، شوہر کا بیٹا، داماد، بھتیجا اور بھانجا محرم ہیں۔

ایمان ڈرامہ جس میں باپ اپنی سوتیلی بیٹی کی عزت کے ساتھ کھیلتا ہے ۔باپ تو باپ ہی ہوتا ہے ہر لڑکی خود کو باپ کے پاس سب سے زیادہ محفوظ سمجھتی ہے ۔دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ باپ اور بیٹی کا ہوتا ہے ،لیکن ہمارے ڈراموں میں باپ کے کردار کو بھی نہیں بخشا ، اسی طرح ڈراموں میں جب بھی کوئی غریب لڑکی کا کردار ہوتا تو اسے ڈوپٹہ پہنا دیا جاتا اور امير کی پہچان اس بات سے کی جاتی ہے وه مسلمانوں کا لباس نہیں ، بل کے بغیر دوپٹے اور ٹائٹ کپڑوں میں نظر آتی ہیں، کہنے کو تو آزاد ہیں ہم لیکن کیا فائدہ ایسی آزادی کا جہاں آپ اسلام کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے اور آج بھی ہم ذہنی طور پر بھارت کے غلام ہیں زبان انگریزوں کی ، لباس غیروں کا ، رسم و رواج ،غرض ہر چیز میں ہم بھارت کی پیروی کر رہے ہیں کبھی تو آج ہماری قوم زوال کا شکار ہو گئی ہے ۔

خدا اور محبت ڈرامے کی بات کی جائے تو( اقرا عزیز) لڑکی کے گھر میں بہت پردہ ہوتا ہے لیکن وه پردہ صرف باہر کے مردوں سے ہوتا ہے۔ گھر میں نوکروں سے کوئی پردہ نہیں ہوتا مطلب اس ڈرامے نے لڑکیوں کے ذہن میں منفی سوچ پیدا کردی ہے کیونکہ اقرا عزیز جو اس ڈرامہ کا مرکزی کردار ہیں وه عبایا پہنتی ہے نقاب کرتی ہے لیکن دوسری جانب نظر آتا ہے وه اپنی سہیلی کی شادی میں بال کھلے ، سر پر ڈوپٹہ نہیں اور نہ کوئی شرم و حیا بلکہ اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ وه ایک پردہ کرنے والی لڑکی ہے ۔ان ڈراموں نے ہماری نوجوان نسل پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں ، میں روزانہ یونیورسٹی جاتی ہوں، بہت سی لڑکیاں گھر سے عبایا پہن کر آتی ہیں اور وہاں آکر عبایا اتار دیتی ہیں ۔لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ وه اپنے والدین کو بیوقوف بنا رہی ہیں، جبکہ وه خود کو دھوکہ دے رہی ہوتی ہیں کسی نامحرم کو اپنا چہرہ دکھا کر خود کو بہت حسین سمجھ رہی ہوتی ہیں ، لڑکوں سے دوستیاں رات بھر ان سے چیٹنگ کرنا ، اس سب کا انجام نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اس کی کڑی سزا ہے ۔ والدين تو چاہتے ہیں کہ وه کسی غلط کام میں نہ پڑ جائیں اس لیے روک ٹوک کرتے ہیں۔ہمیں ان کی نصیحتوں پر عمل کرنا چاہیے ۔

ایسا اس لیے ہورہا ہے کیونکہ ڈراموں میں یہ سب کچھ دکھایا جارہا ہے ابھی حال ہی کی بات ہے میں نے ایک لڑکی سے کہا ، آپ تو پردہ کرتی ہیں بہت اچھی بات ہے ، ان کا جواب سن کر میں حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی کہ ماں آج کل بچیوں کی تربیت کس طرح کررہی ہے ۔انہوں نے مجھے جواب دیا میری امی کہتی ہیں اپنے محلے میں پہنچ کر پردہ کر لیا کرو بس ، اگر ماں ہی ایسی سوچ رکھتی ہے تو لڑکیوں کا کیا قصور ؟ آج کل لاڑکياں اللّہ کے ڈر سے نہیں بلکہ محلے میں شریف مشہور ہونے کے لئے پردہ کرتی ہیں تمام لڑکیاں ایک جیسی نہیں ہوتی ، میں چند لڑکیوں کی بات کر رہی ہوں ، لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ وه اپنے والدین کو بیوقوف بنا رہی ہیں جبکہ اصل میں بیو قوف تو وه خود ہیں ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے سورۃ النور (آیت13) میں ارشادِ الٰہی ہے:اور (اے پیغمبر!) مسلمان عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نگاہ نیچی کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوجا ئے اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سینوں پر آنچل (دوپٹے) کا پلو ڈالے رہیں۔چہرہ ہی تو جس سے سارے مسائل پیش آتے ہیں لڑکیاں عبایا پہنتی ہیں لیکن چہرہ نہیں چھپاتی اور آج کل تو پردہ فیشن بن گیا ہے ۔

موجودہ مسلمان سماج میں بہنوئی، دیور، چچا زاد بھائی، ماموں زاد بھائی وغیرہ کو لوگ عملی طور پر غیر محرم سمجھتے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا، ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھانا ، بے پردگی کی حالت میں ان کے سامنے آنا جانا بکثرت رواج ہے۔ حلانکہ مذہبی رو سے یہ گناہ ہے اور یہ سب غیر محرم ہیں۔بات کی جاۓ عشقیہ ڈرامہ کی تو اس میں چھوٹی بہن کے شوہر سے بڑی بہن محبت کیا ، اس ڈرامے میں ایک بات تو یہ تھی کہ لڑکیاں ہر بات اپنے والدین سے ڈسکس نہیں کرتی ہیں ، جب کہ پوری دنیا میں آپ کے ساتھ مخلص صرف آپ کے والدین ہوتے ہیں چاہے آپ کتنی ہی بڑی غلطی کیوں نہ کردیں آپ کے والدین آپ کو سپورٹ ضرورت کرتے ہیں، لہذا لڑکوں سے ڈرنے کے بجائے ہر مسئلہ ہر لڑکی کو اپنے والدین سے ضرور شیئر کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کا ممکنہ حل نکالیں یہ کام بظاہر مشکل ہے ۔ ابتدا میں مشکل ہوتی ہے لیکن آپ اپنی پوری زندگی کو بچاسکتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین کو لڑکیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے چاہیے تاکہ وہ اپنا ہر مسئلہ ان کے ساتھ شیئر کر سکیں اور لڑکیوں کو بھی باہر جانے سے پہلے اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے والدین ان پر بھروسہ کرکے انہیں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں ۔

پاکستانی ڈراموں میں دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی ڈرامے میں اسلام کے مطابق شادی نہیں کی جاتی ہے ڈرامے میں فضول قسم کی رسومات اور ان میں بے حیائی عروج پر ہوتی ہے ڈانس ، مرد و عورت کا ایک ساتھ بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی ،آج کل نکاح کے بجائے لوگ منگنی کرتے ہیں ، اور ہمارے مذہب اسلام میں منگنی کے بعد تنہائی میں ملنا جائز نہیں ہے لیکن آج کل جن کی منگنی ہو جاتی ہے وہ ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں جیسے کہ ان کی شادی ہو گئی ہو ، اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کے بجائے نکاح کریں ۔پاکستانی ڈراموں میں جہیز کے بنا کوئی شادی نہیں ہوتی جہاں بھی کوئی رشتہ مانگنے جاتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی ہے یا غریب ، جبکہ یہ فضول خرچی ہے جہیز ایک لعنت ہے ۔

جس ڈرامے میں بھی آپ دیکھيں ہر شخص ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہے، کوئی دسترخوان نہیں بچھا ہوتا نہ کوئی بسم اللہ پڑھتا نظر آتا ہے ، کھانا کھاتے ہوئے اکثر باتیں کر رہے ہوتے ہیں جب کہ کھانا کھانے کے آداب میں یہ ہے کہ آپ خاموشی سے کھانا کھائیں ۔ اگر اس طرح کی چیزیں بھی دکھائیں جائیں تو بچے سنتوں پر عمل کریں گے ۔اس طرح کے ڈراموں کو دیکھنے سے ہم اپنے مذہب سے دور جا رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر ڈراموں میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی کسی سے حسد کر رہا ہے، کوئی کسی کی خوشی سے جل رہاہے جب کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو خوشی میں دیکھ کر رشک کرنا چاہیے یا اللہ تو نے اسے خوشی عطا کی ہے ماشاءاللّٰه , اس طرح مجھے بھی عطا کر، اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے ،نہ کہ حسد ، بےشک خوشیاں دینے والا اللہ تعالی ہے اگر کوئی پریشان ہے تو اسے صبر کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کی زندگی خراب کریں جیسا کہ پاکستانی ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔
اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں تو دنیا میں موجود کسی لڑکی کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی ، اسلام میں پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ھے لہٰذا پردہ کریں اور اسلام میں مرد کے ساتھ تلخ رویہ رکھنے کا کہا گیا ہے ، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں ، مردوں کو بھی نظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تمام مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 11 Articles with 13258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.