آج طلاق اتنی آسان کیوں؟ گھر ٹوٹنے سے بچانا چاہتے ہیں تو شادی شدہ زندگی میں ان 2 باتوں کا ضرور خیال رکھیں

image
 
وہ تین بچوں کی ماں تھی بچے ابھی چھوٹے، اوپر تلے کے ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر اس پر منحصر تھے۔ سب سے چھوٹا ابھی نو ماہ کا تھا اپنے چھوٹے بیٹے کو سلا کر فارغ ہوئی تو بڑی بیٹی ماہم اور اس سے چھوٹے عابس کو ناشتہ کروانے بیٹھی۔
 
وہ اپلائڈ کیمسٹری میں ماسٹرز تھی لیکن ابھی فی الحال اس کی توجہ کا مرکز گھر اور بچے تھے۔ وہ اپنے طور پر اپنی سب ذمہ داریاں اچھی طرح نبھانے کی کوشش کرتی تھی لیکن شاویز اس کا شوہر اس سے اکثر نالاں رہتا تھا۔ ان کی پسند کی شادی تھی اور شاویز کے مطابق وہ بدل گئی تھی۔ وہ دبئی میں تھی شاویز پاکستان اپنی امی کے پاس گئے تھے۔
 
عموماً جب وہ پاکستان جاتے تھے تو ان کے جھگڑے ہوتے تھے وہ ہی روایتی ساس بہو کی شکایتیں اب وہ ان جھگڑوں سے تھک سی گئی تھی، اسے ذہنی سکون چاہیے تھا۔ ابھی وہ گھر کے کاموں کو نمٹانے کی پلاننگ کر رہی تھی کہ موبائل بجنا شروع ہو گیا– شاویز کی کال تھی اس نے کال اٹھائی معمول کے مطابق ادھر سے شکوے شکایات شروع ادھر سے ساس کا چڑھاوہ بھی جاری تھا اتنی گرماگرمی ہوئی کہ بات طلاق تک پہنچ گئی۔
 
image
 
کیا یہ اتنا کمزور رشتہ تھا۔۔۔۔ کیا کسی کی مداخلت اس بندھن کو اتنے آرام سے توڑ سکتی تھی ۔۔۔وہ یہ تو کبھی بھی نہیں چاہتی تھی۔ بس وہ چاہتی تھی کہ اس کو سمجھا جائے– زندگی میں آنے والی مشکلات کا وہ مل کر سامنا کریں۔۔
 
ایسے ہی کتنے کیسز ہیں جن میں گھر ٹوٹنے کا سبب کمیونیکیشن گیپ اور غصہ ہے۔ یہ بھی تو ایک بیماری ہی ہے بلکہ ہر بیماری کی جڑ ہے اگر ہم غصے کا بھی دوسری بیماریوں کی طرح علاج کریں تو بڑے نقصانات سے بچ سکتے ہیں غصہ تو ویسے بھی حرام ہے۔
 
رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے ایک دوسرے کو قابو کرنے کا سوچنے کے بجائے زندگی کے ایک بڑے کینوس کو سوچا جائے ایک دوسرے کی عزت کی جائے اور بالخصوص اپنے غصے پر قابو پانے کی بھر پور ٹریننگ کی جائے تو شاید بلاوجہ کی گھریلو ناچاقی سے بچیں کیونکہ طلاق دو لوگوں کی ناکامی ہے۔
 
ایک تازہ سروے میں پولیس رپورٹس کے مطابق 2020 میں صرف کراچی میں 3800 طلاق کے کیسز درج ہوئے اور راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ عدالت میں جنوری تا نومبر 2021 میں 10312 کیسز طلاق و خلع کے درج ہوئے۔13000 مزید کیسز فیملی کورٹ میں منتظر ہیں۔
 
image
 
کریمنل اور فیملی عدالت کے وکیل حامد رشید گوندل کا کہنا ہے کہ دیہاتوں کے مقابلے میں شہروں میں یہ شرح زیادہ ہے کیونکہ لوگ شہروں میں آ کر کیس درج کرواتے ہیں۔ طلاق کا رجحان کیوں اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے ؟ آج کے دور میں مرد ہو یا عورت دونوں میں صبر اور برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو تو میں میں شروع ہو جاتی ہے اور دونوں میں سے کوئی پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا نتیجتاً ذہنی انتشار اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ ہی ہوتا جو اوپر بیان کردہ واقعے میں ہوا اور اس کا حاصل صرف پچھتاوہ ہے۔
 
تحقیق کے مطابق طلاق کی وجوہات میں ٪98 جذبات میں آکر کی گئی شادیاں، جلدی میں کی گئی اور ظاہری نمودو نمائش سے متاثر ہو کر کی گئی شادیاں ہیں۔ ویسے یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔ہمارے مذہب اور سوسائٹی میں طلاق ایک ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ صرف ان کیسز کے لیے ہے جن میں طلاق کی کوئی حقیقی وجہ نہ ہو اور بعد میں صرف پچھتاوہ رہ جائے اب اس سے کیسے بچا جائے۔
 
تجویز:
ازدواجی زندگی میں بڑے مقصد کو ذہن میں رکھا جائے۔ شادی کا بنیادی مقصد دو لوگوں نے مل کر ایک مضبوط گھر بنانا ہے جہاں رہنے والے لوگوں کو حفاظت اور تازگی کا احساس ہو، گھر میں ایک صحت مند ماحول ہو جس میں ہماری بہترین نسلیں پروان چڑھیں زندگی تو ایک جہد مسلسل ہے آندھیاں بہت آئیں گی لیکن میاں بیوی نے ان آندھیوں کا اپنی برداشت اور در گزر کے ذریعے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ یہ ہیں وہ 2 چیزیں جن کی ٹریننگ والدین نے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے اپنی اولاد کو دینی ہے۔ کیونکہ ہاتھ صرف پکڑنا نہیں مضبوطی سے تھامنا ہے!!
YOU MAY ALSO LIKE: