ارشادِ ربانی ہے:’’سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع
کرو ‘‘۔ قرآن مجید کی اس آیت میں صاف طور پر برائی کو دفع کرنے کی تاکید
کی گئی ہے ۔فی زمانہ بہت سارے لوگوں پر بیجامثبتیت کابھوت سوار ہے۔ ایسے
لوگ اقدام تو دور دفع کرنے کی بات سےبھی گریز کرتے ہیں حالانکہ ان دو پہیوں
کے بغیر کسی بھی منزل کا حصول ناممکن ہے۔ عام طور پر یکسوئی پر زور دینے کی
خاطرفٹ بال کی مثال دینےوالے بھول جاتے ہیں کہ ہر کھلاڑی آگے کی طرف گول
کرنے کی لیے نہیں دوڑتا بلکہ کچھ لوگوں کو دفع کرنے کی خاطر پیچھے کی صف
میں تعینات کیا جاتا ہے کیونکہ مخالف کے حملے سے بے فکر ہوجانے والے بڑی
آسانی سے زیر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے برائی کو دفع کرنا بھلائی کو فروغ دینے
سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفاع کیسے کیا
جائے ؟ اس بابت عام رحجان ’’جیسے کو تیسا ‘‘ کا ہے ۔ یعنی جیسا عمل سامنے
آئے اسی لب و لہجے میں ردعمل کا اظہار کیا جائے ۔
یہ بات سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہے لیکن ہر مرتبہ ممکن نہیں ہوتی مثلاً
اگر کسی کو کتے نے کاٹ لیا تو وہ جواب میں اس کو چبا نہیں سکتا ۔ یہ نہ تو
ممکن اور نہ ہی مناسب ہے کیونکہ اہل ایمان اوردشمنان اسلام کے درمیان پائے
جانے والے جوہری فرق کا بھی پاس و لحاظ لازمی ہے۔ارشادِ قرآنی ہے:’’جو لوگ
ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے
روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے
حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے
جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ اس آیت
سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مخالف سمتوں کے مسافروں کا رویہ یکساں نہیں
ہوسکتا ۔ اس کے فوراً بعد حضرت ابراہیم ؑ اور نمرود کا قصہ مذکورہ فرق کو
واضح کردیتا ہے۔ کتاب اللہ کی اس آیت میں برائی کو دفع کرنے کے طریقۂ کار
کی پہلی خوبی تو یہ بتائی گئی کہ برائی کے جواب میں بھلائی کی جائے اوراگر
بھلائیوں کا ایک سے زائد آپشن موجود ہو تو ان میں سب سے بہترین کا انتخاب
کیا جائے۔
قرآن حکیم کا یہ اعجاز ہے کہ اس کی آیات مختلف حالات پر اس طرح منطبق
ہوجاتی ہیں کہ گویا اسی موقع کے لیے نازل ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔اترپردیش
میں فی الحال انتخابات کا دور دورہ ہے ۔ ۷؍ میں سے ۴؍ مراحل گذر گئے اور ۳؍
باقی ہیں ۔ اس تناظر میں پہلے مرحلے کے انتخاب کی مثال لیں جہاں جاٹ اور
مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ علاقہ روایتی طور پر سنگھ پریوار کا مخالف رہاہے
ہیں لیکن مظفر نگر کے فساد نے بازی الٹ دی ۔ مسلمانوں اور جاٹوں کے درمیان
پڑنے والی دراڑ کا فائدہ اٹھا کر فسطائیوں نے لگاتا ردوبارقومی اور ایک
مرتبہ صوبائی انتخاب میں زبردست جیت درج کرائی۔ اس زندہ طلسمات کا استعمال
کرنے کے لیے انہوں نے حسبِ روایت پہلے فساد کے زخموں کو کریدااور پھر اس پر
مرہم رکھنے لگے ۔
اس فساد کا گہرا زخم تو مسلمانوں کو لگا تھا اس لیے ان کے پاس بھی یہ موقع
تھا کہ اپنے دفع میں جس طرح وہ فسادات کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کررہے
تھے ہم بھی وہی کرتے لیکن ایسا کرنے سے پھر ایک بار مخالفین کا بھلا ہوجاتا
۔ کسان تحریک کی بدولت جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان کی کدورت کم ہوئی تھی
اس لیے دونوں کے قریب آنے کا امکان مخالفین کےلیے نقصان دہ ہونے کے سبب
امت کی خاطر بلاواسطہ مفید تھا ۔ ایسے میں بہترین بھلائی سے برائی کا دفع
کرنے کے آپشن کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پرانے زخموں کو بھلا کر دشمن کو نیا
زخم دیا جائے۔ عام مسلمانوں کی سیاسی بصیرت نے ان سے یہی حسن انتخاب کروایا۔
اس طرح پہلے ہی مرحلے میں دشمنانِ اسلام کے حوصلے اس طرح پست ہوئے کہ ہوا
اکھڑتی چلی گئی اوروہ ہنوز سنبھل نہیں سکے۔ اس حکمت عملی کے راستے کی سب سے
بڑی رکاوٹ کا ذکر کرنے سے پہلے فرمایاکہ :’’ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ
بناتے ہیں‘‘ اور پھر یہ دعا سکھائی کہ :’’اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب
تیری پناہ شیاطین کے وسوسو ں سےاور اے میرے رب تیری پناہ کہ وہ میرے پاس
آئیں ‘‘۔
|