کیا پاکستانی محسوس کرنے والی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں؟

آج کی جدید دنیا میں جہاں تقریبن ہر شہری خود ساختہ صحافی بنا ہوا ہے کیونکہ اس کے پاس ہر وہ سامان ہے جو کہ ایک صحافی کے پاس ہوتا ہے سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی مدد سے وہ اپنا ردعمل پوری دنیا کہ سامنے رکھ سکتا ہے اور اگر کہیں ایسا واقعہ ہو تو اسے بغیر کسی روکاوٹ کے پوری دنیا کے سامنے دکھا بھی سکتا ہے فرد کی اسی طاقت نے آج اسے بے پناہ طاقت اور آزدی دی ہے سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایسا شعور اور ایسی جگہ دی ہے جہاں لوگ اپنا موقف کھل کے دے سکتے ہیں اور کسی بھی مسئلے پے کھل کے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں آج سے پہلے لوگوں کو نہ تو اتنی آزادی تھی اور نہ ایسا کوئی پلیٹفارم تھا جہاں وہ اپنی بات کہہ سکیں پر آج سوشل میڈیا نے یہ ممکن بنایا ہے کہ لوگ اپنا رد عمل دیں۔ آج دنیا کےطاقتور ترین افراد بھی سوشل میڈیا کی طاقت سے ڈرتے ہیں انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی چیز لوگوں کے سامنے نہ آئے جسے ان کی شخصیت خراب ہو آج دنیا کے سپر پاور ممالک کے سربراہان مملکت بھی اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں ان کا تاثر صحیح رہنا چاہیئے ۔ اس وقت دنیا میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں اور جتنی بھی حکومتیں ہیں ان تمام کی سوشل میڈیا ٹیمز بنی ہوئی ہیں جن کا کام اپنی اپنی سیاسی پارٹی یا حکومت کو سب سے بہترن ثابت کرنا ہوتا ہے اور وہ ایسا مواد اپنے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس میں رکھتے ہیں جس سے ان کا عام لوگوں تک اچھا تاثر جائے اور ان کے حمایتیوں میں اضافہ ہو سوشل میڈیا اب اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ اس کی مدد سے حکومتیں بنا ئی بھی جا سکتی ہیں اور حکومتوں کو بدنام کر کہ گرا یابھی جا سکتا ہے ہم نے دیکھا ہے عرب ملکوں میں جو عرب اسپرنگ آیا تھا وہ بھی سوشل میڈیا کے بدولت آیا تھا اور کرڑوں لوگ روڈوں پے آگئے تھے اور انہوں نے انقلاب برپا کر دیا تھا یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ممکن ہوا اس وقت بھی ایک ہیشٹیگ کا ٹرینڈ کسی کو ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بنا سکتا ہے کوئی بھی واقعہ اگر سوشل میڈیا پے ہیشٹیگ ٹرینڈ میں آگیا تو اس طوفان کو کوئی نہیں روک سکتا آج مغربی ملکوں میں اگر سوشل میڈیا ہیشٹیگ حکومت کو گرانے کے لئے استعمال ہو تو وہ حکومت کو گرانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کی اس طاقت کے پیچھے ڈیجٹل انقلاب ہے جس نے دنیا کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا یہاں تک کہ جنگوں کے تصورات بھی تبدیل ہوگئے ہم نے دیکھا ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد روایتی جنگ نہیں ہوئی جب کہ سائبر وار کا نظریہ تقریبن قابل عمل بن چکا ہے اس کے علاوہ مستقبل میں وہ ملک عظیم پاور کہلائے سگے گا جس کے پاس سب سے زیادہ ڈیٹا ہوگا کیونکہ آج دنیا کی تمام آبادی میں سے ٪ 50 سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ استعال کر رہے ہیں اور ان میں سے زیادہ تعد اد ان افراد کی ہے جو کہ انٹرنیٹ کا استعمال محض سوشل میڈیا کی وجہ سے کرتے ہیں سوشل میڈیا نے لوگوں کی سیاسی سمجھ بوجھ کو بڑی حد تک بڑھا دیا ہے لوگوں کے اندر اب سیاست کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے اب دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ سیاستدان کے بیانوں پے اعتبار نہیں کرتے بلکہ اس کے عمل کو دیکھ کہ اس کے حوالے سے اپنی رائے بناتے ہیں اور یہ سوشل میڈیا کی ہی وجہ سے ممکن ہوا ہے کیونکہ وہاں بغیر کسی سنسرشپ کے چیزیں شیئر کی جاتی ہیں جسے عام شخص فرق کر لیتا ہے کہ ریاست کہاں کھڑی ہے اور حکومت اس کے تحفظ کے لئے کیا کیا اقدامات کر رہی ہےاور اس کا ٹیکس کا پیسہ کہاں خرچ کیا جارہا ہے اس لئے آج ترقی یافتہ ملکوں میں یہ ممکن ہی نہیں کہ حکومت ایسی جرئت کرے اور کوئی ایسا عمل کیا جائے جو ریاست میں رہنے والے لوگوں کے فائدے میں نہ ہو کیونکہ حکومت کرنے والوں کو پتا ہے کہ آج عام لوگوں میں اتنا شعور اور اتنی حمت ہے کہ وہ اپنے حقوق کے خلاف کئے گئے کسی بھی قدم کو برادشت نہیں کریں گے اور روڈوں پے آکہ احتجاج کریں گے آمریکا میں ہونے والے حال ہی کے انتخابات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا کتنا پاور ہے پہلی بات جو کہ بعد میں سامنے آئی کہ ٹرمپ کی الیکشن کپین میں اور اس کی جیت میں سب سے بڑا کردار سوشل میڈیا کا تھا جس کو ٹرمپ کی حمایت میں بہت زیادہ استعمال کیا گیا بڑی بڑی سماجی ٹیٹورکنگ سائٹس پے ایڈ لگائے گئے جن کی مقصد ٹرمپ کی مقبولیت کو بڑھانا تھا پر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اشتہاروں میں ایسا تصور دینے کی بھی کوشش کی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا بہرحال! وقت آنے پے آمریکی عوام کو سب پتا لگ گیا اور انہوں نے اگلے الیکشن میں اپنا ردعمل ووٹ کے ذریعے دیا۔ ٹرمپ کے صدر بن جانے کہ بعد بھی اس کی شخصیت جو کہ سوشل میڈیا میں کھل کہ سامنے آئی اس میں بیانات، تقاریر، باڈی لینگویج، اس کی ٹویٹس سے آمریکی لوگوں کو غیر سنجیدگی کا انثر لگ رہا تھا جس کی وجہ سوشل میڈیا میں لوگوں کا ردعمل ٹرمپ کہ مخالف ہوتا چلا گیا اور نتیجے میں اسے الیکشن میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ امید یہ کہ جارہی تھی کہ ٹرمپ الیکشن جیت جائیں گے پر ایسا نہیں ہوا اور ردعمل ٹرمپ کے خلاف آیا ٹرمپ کی شکست کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا بنا کیونکہ سوشل میڈیا نے ٹرمپ کی شخصیت کو کھل کہ آمریکی عوام کے سامنے رکھ دیا اور نتیجے میں اپسیٹ ہوا اور ٹرمپ الیکشن ہار گئے لوگوں نے اپنا ردعمل دیا اب سوال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا والے لوگ بھی تو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں وہاں کیونکہ نہیں لوگ ایسا ردعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا میں ان کے ٹرینڈز بھی عمومن غیر سنجیدہ باتوں اور مسئلوں پے ہوتے ہیں جبکہ سماج میں بہت سارے ایسے مسائل ہیں جسے ٹرینڈ میں لانا چاہیے اور بہت سارے ایسے واقعات ہوتے ہیں جنہیں سوشل میڈیا ٹرینڈز کی ضرورت بھی ہوتی ہے پر انہیں کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا ایسا بلکل کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں لوگوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا کا استعمال تو کرتی ہے پر وہ اسے اپنے سماجی مسائل حل کرنے کی بجائے محض تفریحی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے جب کہ سوشل میڈیا ایک اسی چیز بن چکا ہے جسے حکومتیں گرائی اور بنائی جاسکتیں ہیں ایسا نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالکوں میں کچھ نہیں ہوا یہاں بھی لوگوں میں سوشل میڈیا کی وجہ سے شعور پیدا ہورہا ہے اور انہیں اپنے بنیادی حقوق کا پتا بھی لگ رہا ہے پر ابھی تک اس سطح کی صورتحال نہیں بنی جو کہ ہونی چاہیے ابھی بھی یہاں ایسے بہت سارے واقعات ہوتے ہیں اور ایسی ایسی ناانصافیاں لوگوں سے ہورہی ہیں جسے کوریج کی اشد ضرورت ہوتی ہے پر کوئی ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں بدقسمتی سے ہوتا یہ ہے کہ ہم یہاں کسی بھی واقعے کی پوسٹ پر کمینٹ ، ٹوئٹ اور ری ایکٹ تو کرتے ہیں پر جس سبب کی وجہ سے واقعہ رونما ہوتا ہے اس کی جڑ کو ختم کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہم سے!
پاکستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں اور نا انصافیوں کہ خلاف نکلے ہوں پاکستان کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ لوگ خود نکلیں ہوں آج تک جتنے بھی دھرنے ہوئے ہیں وہ سب لائے گئے لوگ ہوئے تھے جنہیں یا تو پیسے دئے گئے تھے یا پھر کھانے کی لالچ دے کہ لوگوں کو لایا گیا تھا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لوگ خود کوئی مقصد لے کہ آئے ہوں بلکہ پاکستان میں جن لوگوں کو دھرنوں میں لایا جاتا ہے انہیں یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس مقصد کے لئے لائے گئے ہیں زیادہ تر لوگ جلسوں میں تفریح کرنے آتے ہیں جبکہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے پر انہوں نے اسے سماجی مسائل حل کرنے کےلئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی سیاسی سمجھ حاصل کی جسے وہ اپنے حقوق کے لئے باہر نکل سکیں۔عمومن دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی مسئلے یا واقعے کہ ر دعمل میں کمینٹس اور ری ایکشن ہی کئے جاتے ہیں اور پھر انہیں بھلا دیا جاتا ہے ۔ پاکستان جیسے ملکوں میں سماجی مسائل پے پردہ پڑا ہوا تھا سوشل میڈیا کے عام ہونے سے وہ مسائل کھل کے لوگوں کے سامنے بھی آرہے ہیں پھر بھی لوگ خاموش ہیں یہاں سیاستدان کو تو سب گالیاں دیتے ہیں پر یہ نہیں دیکھا جاتا کیا پاکستانی قوم نے کبھی حکمرانوں کو یہ تاثر بھی دیا ہے کہ ہم مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور ہمیں تکلیف کا احساس ہے ہمیشہ اس کے الٹ ہی ہوا ہے 1947 سے لیکہ 2022 تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستانی عوام اپنے ظالم حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو بلکہ بدترین حالات میں بھی احتجاج کرنے کی بجائے مشکل وقت میں بھی ایڈجیسٹ ہونے کی بات کی جاتی ہے اور ذہنی طور پر ہر آنے والی مشکل کے لئے اپنا ذہن بنا لیا جاتا ہے یاد رہے کہ فوجی بغاوتیں وہاں کامیاب جاتی ہیں جہاں عوام بلکل خاموش ہو اور اسے احساس ہی نہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا جارہا ہے عوام کی طاقت بہت بڑی طاقت ہے کسی بھی جرنیل کی کتاب بڑھ لیں وہ یہی لکھتا ہے کہ مارشلا نافذ کرنے کے وقت کس طرح انہیں عام عوام کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ لوگ جاگ نا جائیں جنرل ضیا سے لیکہ مشرف تک سب کا یہی حال تھا پر کیونکہ یہاں عوام اتنی بے حس ہوچکی ہے کہ انہیں کسی چیز کا احساس ہی نہیں پاکستان کے عام لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سیاست سے عام لوگوں کو کوئی واستہ نہیں جبکہ کوئی انہیں جاکہ بتائے کہ سیاستدان اور جرنل کی طاقت اصل میں عام عوام کی ہی دی ہوئی طاقت ہوتی ہے دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اس کی سب سے بڑی طاقت خود وہ لوگ ہوتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں اور اسی ٹیکس سے ملک چلتا ہے اسی ٹیکس سے سیاستدان سمیت فوجی اور ملک کے تمام اداروں کے لوگوں کو تنخوا ہ ملتی ہے اس لئے یہ بات مان لینی چاہیے کہ اصل طاقت عوام کی ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک عوام کو یہ فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا پاکستان میں 22 سے 25 کروڑ لوگ رہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے ان میں سے اگر صحیح معنوں میں محض ایک لاکھ لوگ بھی اپنے حقوق لینے کے لئے نکلیں تو ملک میں انقلاب آجائے گا اور سارا نظام رک جائے گا پر ہائے قسمت ! انہیں اپنی طاقت کا احساس ہی نہیں پاکستان میں عام شہری حکومتی توجہ سے بہت دور ہے بہت سارے ایسے کام ہیں جو کہ ریاست کی ذمیداری ہوتی ہے وہ نہیں کئے جاتے پاکستان کی معشیت کی خرابی کا سارا نقصان عام لوگوں پے ٹیکس لگا کہ پورا کیا جاتا ہے یہاں عام شہری بڑی مشکل سے جیتا ہے سرکاری دفتروں میں امیروں کہ کام تو جلدی ہوجاتے ہیں پر غریب یا مڈل کلاس دفتروں کے چکر لاگاتے رہتے ہیں یہاں غربت اور مفلسی کے دل دہلانے والی صورتحال ہے ۔1947 سے لیکہ آج تک پاکستانی عوام اپنے بنیادی حقوق اور حکومتوں کی نالائقی ، کرپشن ، ناانصافی، ظلم و بربر یت ، مہنگائی ،اور بڑے بڑے ٹیکسوں کےخلاف نہیں نکلے بلکہ انہیں حقیقت یا اپنی غلطی سمجھ کہ سر تسلیم خم کرتے آئے ہیں آج بھی ایک چاکلیٹ سے لیکہ گاڑی تک اتنے زیادہ ٹیکسز لگائے ہیں کہ چیز کی اصل قیمت سے زیادہ اس پے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے مطلب ایک چیز کی اصل قیمت سے زیادہ اس پے ٹیکس لگایا جاتا ہے یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے پاکستانی عوام نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کہ ان کہ ٹیکس کا پیسہ جاتا کہاں ہے اور کہاں خرچ کہاں ہوتا ہے بدقسمتی سے آج کی حکومت سمیت ماضی کی تمام حکومتیں محض اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لئے پاکستان کہ غریب لوگوں کہ ٹیکس کا پیسہ خرچ کرتی آئی ہیں اور ایسے ایسے فضول خرچ کئے گئے ہیں کہ جس کا حساب ہی کوئی نہیں پاکستان کا دفاعی بجیٹ اس کی زمینی حقائق سے الٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیفینس مضبوط ہوگا تو پاکستان سلامت رہے گا پر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں وہاں اربوں ڈالرز ہتھیاروں پےخرچ کرتے جائیں جبکہ دنیا کہ بہت سارے ملکوں نے اپنے دفاعی بجیٹ کم کرنے شروع کئے ہیں ۔پاکستان میں سیاسی شعور پیدا نہ ہونے کا سبب مذہبی کارڈ ہے جو کہ 1947 سے پہلے اور بعد میں ہر دفعہ استعمال کیا گیا ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کو "مذہب خطرے میں ہے" کا بول کہ چپ کرایا گیا ہے پر بدقسمتی سے عوام کہ یہاں بھی تعلیم سے دوری نے انہیں اندھیروں میں دھکیل دیا ہے اور دوسری طرف تعلیمی نظام میں اتنی خرابیاں ہیں کہ معاشرے میں افسر تو بن رہے ہیں پر معاشرہ پھر بھی پیچھے کی طرف جارہا ہے اور کہیں بھی بہتری کی امید نہیں ہر ادارے میں لاتعداد مسئلے ہیں کیونکہ پاکستان میں نصابی تعلیم محض نوکری حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور جو لوگ وہاں بھرتی ہوتے ہیں وہ محض رٹا لگا کہ آئے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے تعلیم کا وہ اثر جو انسان کو انسانوں کے مسائل حل کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے وہ نہیں ہوپاتا۔ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ یہاں عوام حکومت کو گالیاں تو دیتی ہے پر اپنی اصل طاقت کو استعمال کرنے سے قاصر ہے یہاں حکومت جتنی چاہے من مانی کرے اور بے رحمانہ ٹیکس لگائے پر عوام اپنے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف نکلنے کو تیار نہیں بلکہ کسی بھی مسئلے میں یہ لوگ چیخ چیخ کہ باتیں تو کر سکتے ہیں پر احتجاج کرنے سے قاصر ہیں اس لئے پاکستان کے سیاستدان اور ادارے عام لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں اب پتا چل چکا ہے کہ ہم کچھ بھی کریں یہ برداشت ہی کریں گے بحرحال! پاکستان کہ عوام کو دیکھ یہ گماں ہوتا ہے کہ کہیں یہ محسوس کرنے والی صلاحیت سے محروم تو نہیں ہوچکے ؟
پاکستان کی عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک وہ اپنے حق اور ملک کی خوشحالی خود نہیں نکلیں گے تب تک کچھ نہیں ہوسکتا پر یہاں قائد کی ضرورت جو اس مایوس لوگوں کی قیادت کرے اور ان میں بیداری پیدا کرے انہیں احساس دلائے کہ سب کچھ عوام ہے اور انہیں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں سے بھی خبردار کرے پاکستان میں مذہب ایک سیاسی ہتھیار بن چکا ہے اور چند لوگ اسے استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور وقت آنے پے استعمال بھی کرتے ہیں لیڈر جو صحیح معنوں میں لیڈر ہو کنٹینر اور تبدیلی والے لیڈر مزید مایوسی پہلا چکے ہیں قوم کو اصل لیڈر کی ضرورت ہے جو قوم کو جذباتی تقریریں کرنے اور مذہبی جنون پیدا کرنے کی بجائے لوگوں کی زندگیاں بہتر کرے بحرحال! سوشل میڈیا کی وجہ سے کہیں نہ کہیں ایک امید ہے کہ پاکستانی قوم بھی اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرے گی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کرنا بھی سیکھ ہی جائے گی جو کہ ہے تو مشکل پر امید پے دنیا قائم ہے ۔

 
Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 5778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.