ستم زدہ بیٹیاں

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے،" اﷲ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ برائی کا اعلان کیا جائے سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو"۔کہتے ہیں کہ ماں سب کی ایک ہوتی ہے اور ہر ماں اپنے بچوں سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کچھ گھٹیا عناصر ایسے ہیں جنہوں نے ایک تفریق باندھ رکھی ہے، یعنی لڑکی جس گھر میں بھی بیاہ کر جائے وہاں جا کر اپنے والدین بہن بھائی خاص طور پہ ماں کو تو بالکل ہی بھول جائے ان شارٹ لی یعنی اگر گھر بسانہ ہے توشروع سے اپنے والدین کے ساتھ رابطہ واسطہ ختم کر دے۔ اور بعض کند ذہن لوگوں خاص طور پہ ہمارے معاشرے کے 60 فیصد مرد حضرات اور ان کے گھر والوں کا یہ ماننا ہے کہ جو لڑکی اپنا میکہ بساتی ہے وہ اپنا گھر نہیں بسا سکتی۔ اب جن لوگوں کی ایسی سوچ ہے وہ کیوں ہے ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے بالکل عاری ہیں۔ میری اس سوچ سے ناجانے کتنے مرد اور ان کے گھر والے اتفاق نہیں کریں گے، میں جانتی ہوں اور چونکہ ہمارا معاشرہ زیادہ تر ایسے ظالم لوگوں سے بھرا پڑا ہے کہیں مجھے گالیاں نا د ینا شروع کردیں۔ خیر جس نے جو سوچناہے سوچے اورجو کہنا کہے’’آئی ڈونٹ کئیر ‘‘۔ ایک جرنلسٹ ہونے کی حیثیت سے میرا یہ کالم لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ معاشرے کو ایسے افراد سے بچایا جائے اور جن لوگوں کے متعلق میں نے یہ کالم لکھا ہے وہ ذرا اپنی مسلسل کی جانے والی دادا گیریوں سے باز آ جائیں۔

گوجرانوالہ کے شہر میں ایک لڑکی ط کی اپنی دوست کے بھائی ح کے ساتھ شادی ہو گئی۔ یہ کوئی پسند کی شادی نہیں تھی کیونکہ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید دوست کا بھائی تھا تو پسند کی ہو،ایسا بالکل نہیں تھا۔ لڑکی کے والدین نے یہ شادی صرف اسلئے کی تھی کیوں کہ ان کی بیٹی کی دوست ع اس سے بہت محبت ظاہر کرتی تھی۔ بہنوں جیسا بن کے دکھانا اپنے سسرال میں پیش آنیوالے تمام واقعات بتانا، نندوں اوردیورانی وغیرہ کے متعلق ساری گوسپ کرنا یعنی اپنی ہر بات شیئر کرتی تھی اور اپنے بھائی کی شادی کیلئے تو کافی پریشان رہا کرتی تھی۔ واضح رہے کہ ع لوگ تین بہن بھائی ہیں اور ط لوگ دو بہنیں جو اپنے والدین کی پوری کائنات ہیں۔ ع لوگ مال و دولت، پہننے اوڑھنے اور ماحول میں بہت کم حیثیت اور ط لوگ اپنے والدین کی کافی مال دار اور پر آسائش زندگی گزارنے والی بیٹیاں تھیں۔ ع ایک ہوشیارِ زمانہ عورت، لوگوں سے پرینک کرنا، اور اپنے آپ کو ایک توپ چیز سمجھنا اس کا شیوا تھا۔ اور ط ایک سادہ اور لوگوں سے ڈرنے والی۔ ع لوگ شادی سے پہلے ط لوگوں کے ساتھ کافی اچھے سے پیش آتے تھے لیکن نکاح ہوتے ہی ع سمیت سب گھر والوں کے رنگ ڈھنگ بدلنا شروع ہو گئے۔ جیسا کہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کی ہر بات پہ مخالف چلنا، لڑکی کے والدین خاص طور پہ والدہ کی ہر وقت تذلیل کرنا، جہیز کا مطالبہ کرنا، کپڑوں کا مطالبہ کرنا جو کہ خود ع اور اس کی چھوٹی بہن نے کیا تھا۔ وہ ایک لفظ ہے’’ میٹھی چھری ‘‘ ع نا اْسی میٹھی چْھری کا کردار ادا کرتی تھی ہر واقعہ کی سرغنہ وہ خود ہوتی تھی لیکن بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے گھر والوں کو اپنی چھوٹی بہن کو یا اپنے بھائی کو آگے کر دیتی تھی۔ ط کے والدین ایک سال تک منگنی رکھنا چاہتے تھے لیکن ع کادباؤتھا کہ دو ماہ تک شادی کر دی جائے کیوں کہ وہ فروری تک اپنے باڈی بلڈر شوہر کے ہمراہ امریکا چلی جائے گی۔ واضح رہے کہ ع مہینے کے چار دن سسرال اور باقی کے دن اپنے میکے میں گزارتی تھی۔ اور ان چار دنوں میں بھی دن رات اپنے والدین سے ویڈیو کالز سے رابطے میں رہتی۔ خیر ط کی شادی ہوئی ع کے بھائی ح کے ساتھ۔ شادی والے دن ہی ط کے شوہر اور ع لوگوں نے زندگی دشوار کر دی تھی۔ ان شرائط کے ساتھ کے اگر گھر بسانہ ہے تو ہماراطورطریقہ فالو کرنا ہوگا۔ ان کے اصول کچھ اس طرح تھے کہ ط موبائل فون نہیں رکھے گی۔جب اس کا شوہر چاہے گا اپنے فون سے بات کروائے گا۔نا تو ط اپنے والدین کے ساتھ آزادی سے ملے گی اور بات چیت کرے گی اور نا اس کے والدین اور بہن کو اجازت ہو گی۔ط کہیں باہر نہیں آ جا سکتی اور اس کا شوہر اسے کوئی خرچہ نہیں دے گا۔ اپنی ضرورت کی ہر چیز میکے سے لائے گی۔

کتنی عجیب بات ہے نا کہ چیزیں بھی میکے سے لاؤ لیکن ان سے کوئی تعلق نا رکھو واہ۔ط کے گھر والوں پر یہ سب ضابطے بجلی بن کر گرے تھے۔ ط اور اس کے گھر والوں کیلئے یہ بہت عجیب تھا اور خاص طور پہ اس کی اس بہن پر جسے اس نے ماؤں جیسا پیار دیا تھا اور جو دو بہنیں 22 برسوں میں کبھی جدا نہیں ہوئی تھیں۔ ط کی جب بھی اپنے شوہر کے فون سے گھر بات ہوتی تو اس کی ماں اور بہن اپنا سارا غصہ ط پر نکال دیتی اور پوچھتی کہ ایسا کیوں ہے ؟ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو وغیرہ کیوں کہ ع لوگوں کی گھٹیا حرکات کی وجہ سے ط کے والدین شادی سے پہلے کئی بار رشتہ توڑنا چاہتے تھے لیکن ط زمانے کی باتوں سے ڈرتی تھی اسلئے والدین کو رشتہ توڑنے سے منع کرتی رہی۔ اور شادی کے بعد بھی ہرپابندی کے ساتھ رشتہ برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ان لوگوں کو پتا لگا کہ جو بھی بات وہ اپنی بیٹی سے اْس کے شوہر کے فون پہ کرتے ہیں سب کال ریکارڈنگز کے ذریعے سنی جاتی ہیں۔ آپس میں ماں بیٹی اور بہنیں کیا باتیں کرتی ہیں ح اور اس کے سب گھر والے سنتے تھے۔ اب آپ لوگ خودی سوچیں آپس میں دو لوگ بات کر رہے ہوں اور کوئی اپ کی پرسنل باتیں سنے تو کیا گزرتی ہے انسان پہ۔ چونکہ ط کی والدہ اور بہن اْسے یہی کہتی تھیں کہ ایسے بے حس لڑکے اور اس کے گھر والوں کو چھوڑ دے اور ط کی بہن چونکہ جرنلسٹ ہے ط کو کہتی کہ ایسے لوگوں کو میڈیا درست کر دے گا۔ اب لڑکے والے تو سب سنتے تھے انہوں نے ان باتوں کو وجہ بنا کر کئی بار ط کو گھر سے نکالا، اس کے گھر والوں سے بار بارمعافیاں منگوائیں خاص طور پہ ط کی ماں اور بہن کو نشانہ بنائے رکھا۔ وقت گزرتا گیا اور ط کو مزید پابندیوں کے ساتھ اپنے والدین اور بہن سے دور کر دیا گیا۔ کیوں کہ ط زمانے سے ڈرتی تھی اسلئے اپنا گھر بچاتی رہی۔ ط کا شوہر خود سارا دن رات موبا ئل فون پر لگا رہتا، آدھی رات کواٹھ اٹھ کر دوستوں کے ساتھ فون پہ لگا رہتا اور H اور Z نامی اشیاء محفوظ رکھتا اور جب ط سوال کرتی تو غصہ دکھاتا۔

جب بھی ط کے والدین پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ح اور ع لوگ طلاق اور سختیاں کرنے کی دھمکی دیتے رہتے۔ چوں کہ ط اپنادامن طلاق کے داغ سے بچانا چاہتی تھی ا سلئے سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ وقت گزرا اور ماہ رمضان 2020 ء میں جب ط کے والدین کی قوت برداشت ختم ہو گئی تو ط کے والد اپنے داماد ح سے گزارش کی کہ اب بس کر دے لیکن اس کے بدلے بھی ط کے شوہر نے چال چل کے ط کے والدین کو گھر بلایا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر ط کے والدین کو ڈھیروں گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہوئے سامان سمیت بیٹی کو گھر بھیج دیااور کہا جب تک بچہ نہیں ہو جاتا ہم سے کو ئی رابطہ نہ کیا جائے ورنہ سخت قدم اٹھائیں گے۔ ان سب کے بعد بھی ط نے ہزار بار اپنے شوہر اور سسرال والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ا نہوں نے کبھی فون نہیں اٹھایا اور اس دوران ط کا شوہر اور اس کے گھر والے ط کے محلے، رشتہ داروں، حتیٰ کے شادی کا فوٹوگرافر اور جہیز بنانے والے تک کے پاس چکر لگاتے رہے اور ط کی والدہ اور بہن کو منفی باتوں سے بدنام کرتے رہے۔ ط لوگ سب جاننے کے باوجود خاموش رہے کہ کیا پتا بچہ ہونے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے۔ماہ نومبر میں ط کی حالت روز بروز بگڑتی رہی اور اس کے والدین کے شب و روز کبھی خون لگوانے اور ڈرپیں لگوانے میں گزر جاتے۔ اور دن رات ہسپتال میں خوار ہوتے رہتے۔ 13 دسمبر 2020 ء کو ط کے ہاں ایک پیارے سے بیٹے کی پیدا ئش ہو ئی یہ تو ط کے گھر والوں کی دعائیں تھی جو اﷲ تعالیٰ نے اسے نئی زندگی دی ورنہ ڈاکٹرز نے توجواب دے دیا تھا۔ ط کے سسرال والوں نے اسے ذہنی اور جسمانی غلام بنا رکھا تھا۔ سسرال والوں کی اشتعال انگیزی کے باعث ط زندگی موت سے لڑتی لڑتی بچی تھی۔ 14 دسمبر کو ط کے والدین گھر کھانا لینے آئے، ط کے پاس اس کی بہن اور ممانی تھیں۔ ط کی بہن نیچے ا دویات لینے آئی تھی اور جب اوپر آئی تو ط اور بچے کی چیخ و پکار آ رہی تھی۔ باہر ط کا شوہر اور سسر صاحب کھڑے ہسپتال انتظامیہ سے گوسپ کر رہے تھے اور اندر ع ، ط کی بڑی نند بچہ چھین رہی تھی۔ ط کی بہن نے یہ منظر دیکھا اور بہن اور بھانجے کی محبت میں اس بھاری بھرکم عورت ع کے منہ لگ پڑی۔ اس عورت نے ط کی بہن کو زور دار مکا دے مارا جس کی وجہ سے بہن کے منہ سے خون بہنے لگا۔

ع نے ویڈیو کیمرہ ط کی بہن پہ آن کردیا اور کہا کے یہ سوشل میڈیا پر تمہاری ویڈیوز دوں گی اور ساتھ ہی کہا کہ وجیہا تم میرے ہاتھوں مرو گی۔ ط کا شوہر اندر آیا اور بستر پر پڑی بیوی کو زمین پہ جوتا مار کر کہا کہ تمہاری اوقات میری نظر میں زیرو ہے۔ مزید ڈرامے بازی کی اور چلتے بنے۔ 30 دسمبر 2020ء کو ط کو پہلی طلاق بھیجی گئی اور اس میں ط اور اس کی بہن پر دنیا کے تمام جھوٹے اور ناحق الزامات لگائے گئے۔ اس طلاق نامے کے بعد ط کی حالت پھر خراب ہو گئی اور بچے کی بھی۔ واضح رہے کہ ط کے شوہر نے کبھی اس کا کوئی خرچہ نہیں اٹھایا سوائے دو وقت کی روٹی کے۔ شادی ہوتے ساتھ ہی ط کے والدین اس کا سارا خرچہ اٹھاتے رہے ہیں اور اب بچہ پیدا ہونے کے بعد بھی بچے کا ہر خرچہ بھی وہی اٹھا رہے ہیں۔ ط کا شوہر ح شادی سے پہلے گوجرانوالہ کے نجی کالج میں پڑھاتا تھا اور پرنٹنگ پریس کا کام کرتا تھا جو اس نے شادی کے فوراً بعد چھوڑ دیا تھا۔اور اپنی دولت بیوی سے چھپا رکھی تھی۔ تاکہ ط کا پہر ا دے سکے اور ط اور اس کے گھر والوں سے پیسا حاصل کر سکے۔ آج 2022ء ہے اور ط کا وہ سابق شوہر آج اپنی پسند کی شادی کر کے زندگی گزار رہا ہے اور ایک بیٹا بھی ہے۔ اور ع جو اس سارے واقعہ کامرکزی کردار ہے وہ بھی اپنے چار بچوں اور شوہر کے ساتھ بغیر کسی ندامت کے زندگی گزار رہی ہے ۔ ط نے اپنا گھر بسانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن اس کا شوہر کچھ اور ہی کھچڑی بنا بیٹھا تھا جس کا ثبوت آج اس کی دوسری بیوی اور بیٹا ہیں۔ کہاں ایک لڑکے کی شادی ہوتی ہی نہیں تھی اور آج چوکے پے چوکا واہ بات ذرا حیران کن ہے۔ ط اور اس کے گھر والے آج اس معصوم بچے کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں جس کا باپ ہوتے ہوئے بھی باپ مر چکا ہے۔ جہیز، لاکھوں کے سونے کی واپسی کیلئے ط نے کورٹ کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا ہے۔ چونکہ ان گھٹیا لوگوں کا کام ہے ط کو اذیت پہنچانا اسلئے ان لوگوں نے پھر پورے محلے اور رشتہ داروں میں بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ میرا ان لوگوں کو واضح پیغام ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظالم کی رسی دراز تو کرتا ہے لیکن جب کھینچتا ہے تو ظالم کہیں کا نہیں رہتا۔ابھی تو میں نے یہ کالم نام ظاہر کئے بغیر لکھا ہے لیکن اگر یہ لوگ بازنہ آئے تو ان شاء اﷲ یہ معاملہ براہ راست نیوزچینل اوراخبارات کا حصہ ہو گا ۔ آخر میں یہ ضرور کہوں گی کہ اگر آپ اپنے بچوں کا نام حسن اور عائشہ رکھیں تو ان کی تربیت بھی ویسی کریں تاکہ ان سے کسی کوتکلیف نہ پہنچے۔
Wajiha Tamseel Mirza
About the Author: Wajiha Tamseel Mirza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.