سیمسٹر کے فائنل کے پیپر میں نے طلبا کو دکھائے اور واپس
لے لئے۔ایک بچی جس کے بارہ (12) نمبر تھے ۔ اس کے پیپر پر نمبر بڑھا کر
بتیس(32) کر دئیے گئے تھے۔ اندر سوالوں پر بھی ہر چیز بڑی صفائی سے بدل دی
گئی تھی۔ میں نے ٹوٹل چیک کیا وہ پورا تھا۔ میرے دئیے ہوئے نمبروں کو بڑی
خوبصورتی سے تبدیل کیا گیا تھا۔میں نے بچی کو بلایااور اس سے پوچھا کہ بیٹا
، تم نے یہ غلط حرکت کیوں کی۔ وہ رونے لگی کہ سر میرا تعلق فلاں پسماندہ
علاقے سے ہے، میرے والدین نے بڑی امیدوں سے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ کوئی اور
ہوتا تو ہنس کھیل کے منا لیتی مگر آپ تو بڑے پروفیشنل ہیں ،آپ سے بات کرتے
ڈر لگتا ہے۔ آپ فیل کر دیں۔ گھر تو جا نہیں سکتی، کچھ پتہ نہیں کیا کروں۔
اس لڑکی کے حلیے ، لباس اور انداز سے کہیں بھی پسماندگی نظر نہیں آرہی تھی۔
کلاس کے دوسرے بچوں نے تصدیق کی کہ اس کا تعلق اسی علاقے سے ہے مگر یہاں
آنے کے بعد اس نے خود کو تیزی سے بدلا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں شہر میں اس
کے کئی رشتہ دار جنم لے چکے۔ وہ زیادہ شامیں ہوسٹل سے باہر رشتہ داروں میں
گزارتی ہے، پڑھنے کا وقت نہ ہونے کے سبب اساتذہ ، خصوصاً نوجوان اساتذہ کو
منتوں کے سبب ہی پاس ہوتی ہے۔میں سوچنے لگا کہ اساتذہ بھی عجیب ہیں، کیوں
ایسی بچیوں کو ہنسی مذاق میں گنجائش دے دیتے ہیں۔ یہ ہنسی مذاق اور یہ
گنجائش بہت ساری خرابیوں کو جنم دیتے ہیں۔
میرے ایک دوست جو اپنے ڈیپارٹمنٹ کے HOD تھے۔کہنے لگے یونیورسٹی میں لڑکیوں
کی تعداد اسی (80) فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ میرے ڈیپاٹمنٹ میں ہمیشہ
پانچ سو کے قریب لڑکے اور چالیس پچاس لڑکیاں ہوتی تھیں مگر اب معاملہ بالکل
الٹ ہے اس وقت ڈیپارٹمنٹ میں پانچ سو لڑکیاں اور بمشکل پچیس کے قریب لڑکے
ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ1971 میں جب میں طالب علم تھا تو ایم ایس سی
ریاضی میں ہم چالیس لوگ تھے اور فقط ایک لڑکی ۔ اب ریاضی میں ہر جگہ ایک یا
دو لڑکوں کے علاوہ سب لڑکیاں ہوتی ہیں۔پڑھی لکھی لڑکیوں کی اس بڑی تعداد کے
لئے میچنگ رشتے حاصل کرنا والدین کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور آئندہ
مستقبل قریب میں بہت مشکل کا باعث ہو گا۔پریشان والدین ابھی شارٹ کٹ کی
تلاش میں نظر آتے اور اپنے بچوں کی بہت سی خامیوں کو نظر انداز کر رہے ہوتے
ہیں۔ یہ وہ خرابی ہے جو پورے سماج کو برباد کرنے جا رہی ہے۔
میں ایک جگہ بیٹھا تھا ۔ قریب دو عورتیں تشریف فرما تھیں۔ ایک نے بتایا کہ
اس کی بچی کو فلاں یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔دوسری نے پہلے خوشی کا
اظہار کیا پھر کہنے لگی۔ ایک بات بچی کو بتا دینا کہ رشتے اتنا پڑھنے کے
بعد ملنے بڑے مشکل ہو جاتے ہیں۔ تم ان بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ کہاں ماری ماری
پھرو گی۔اس کے ساتھ ارد گرد کے علاقوں سے آئے بہت سے لڑکے ہوں گے ، کسی سے
اچھے تعلقات بنا لے تو تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائے گی۔ماں باپ کی یہ سوچ
گو فطری نظر آتی ہے مجبوریاں جانے کیا کیا کرا دیتی ہیں مگر یہ مجبوریاں ہی
بربادیوں کا سامان کرتی ہے۔ہمارے وقتوں میں فون صرف گھر میں ہوتا تھا۔ کسی
بچے نے لمبی بات کرلی تو باقاعدہ تفتیش ہوتی کہ اتنی لمبی بات کس سے کی اور
کیوں کی۔ اب موبائل کا دور ہے۔ فون پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ بچیاں گھنٹوں بات
کرتی ہیں۔ کوئی پوچھے تو کلاس فیلو ہے، اس کے بعد ہر شخص مطمن نظر آتا ہے۔
دوسری طرف لڑکا ہے یا لڑکی، والدین کو پرواہ ہی نہیں۔ یہ کھلی بات چیت
برائیوں کے کئی در کھول دیتی ہے۔لیکن بچے کی کسی غلطی کی صورت میں تعلیمی
ادارہ ذمہ وار ہوتا ہے۔ بچے کو بگارٹے والدین ہیں اور قصور وار استاد ہوتا
ہے۔ ٹھیک ہے کچھ ذمہ داری اس کی بھی بنتی ہے۔
جنسی ہراسیگی کے حوالے سے کچھ عرصے سے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تذلیل کا
سلسلہ اخبارات میں کچھ زیادہ ہی اچھالا جاتا ہے۔بہت زیادہ تعداد میں بڑے
عجیب عجیب سے قصے ہیں۔جب کوئی گھٹیا واقعہ ہوتا ہے توً سوشل میڈیا پر تو
لوگ مادر پدر آزاد ہو جاتے ہیں اور اپنے عزیزواقارب کی کہانیوں کو بھی
یونیورسٹی سے منسوب کرکے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں
اگر سینکڑوں استاد بچوں میں پیار ، شفقت، علم اور خلوص بانٹ رہے ہیں تو کسی
ایک کے قصور کو اجتماعی رنگ دینا یقیناً غلط ہے۔ کالی بھیڑیں کہاں نہیں
ہوتیں۔ کس محکمے میں نہیں ہیں بلکہ تعلیم کے محکمے سے بہت زیادہ۔ لیکن یہ
سب ایک سماجی المیہ ہے۔جس پر غور کی ضرورت ہے۔میں نے اٹھائیس (28) سال
کالجوں میں پڑھایا ہے اور پچھلے بیس (20) سال سے ایک یونیورسٹی میں پڑھا
رہا ہوں۔ میں نے زیادہ تر استادو ں کو انتہائی با کردار اور صاف ستھرا پایا
ہے ایسے ایسے نایاب ، نیک، پرہیز گاراور سچے استاد نظر آتے ہیں کہـ’’دامن
نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۔ اور یہ لوگ بہت بڑی اکثریت میں ہیں۔ چند لوگ
بلکہ بہت معمولی تعدادجو حادثاتی طور پر اس شعبے میں آ جاتے ہیں وہ بدنامی
کا باعث بنتے ہیں، ان کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں، شاید ان کے اپنے
گھروں کا ماحول اس کی اجازت دے دیتا ہے۔ لیکن بہت سی صورتوں میں شاید لڑ کی
کا بھی اس میں کچھ نا کچھ قصور ہوتا ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ اگر لڑکی صاحب
کردار ہو تو کوئی اس کی طرف دیکھنے کی جرات کر سکے اچھی بچیوں کے ساتھ ایسا
بہت کم ہوتا ہے ۔ ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ بھی کمینے اور بزدل ہوتے ہیں۔
وہ تو ذرہ سا بھی پریشر برداشت نہیں کر سکتے۔ لڑکی استقامت دکھائے تو کچھ
نہیں ہوتا۔لیکن اس کی طرف سے کوئی مزاحمت نظر آئے تو۔میں استاد ہوں اور
میری شاگرد میری بیٹیاں ہیں اور بیٹیاں سب اچھی ہوتی ہیں۔ استاد کی سوچ اس
کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اور جو کچھ اور سوچتا ہے وہ استاد نہیں ہو سکتا وہ
بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا ہے۔
اصل خرابی اور کمزوری ہمارے ماحول کی ہے ،ہماری تعلیم کی ہے۔مرد کے لئے ایک
ریاکار عورت بارود سے کم نہیں ہوتی۔ اس کے لئے بچوں میں اخلاقی تعلیم کی
شدید ضرورت ہوتی ہے مگر ہم نے تعلیم کے اخلاقی پہلوؤں کو پوری طرح نظر
انداز کیا ہوا ہے۔ اس تعلیمی پہلو پر کام کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت
ہے۔ہمارے اداروں کے سربراہ جہاں کمزورہیں اور حالات پر گہری نظر نہیں
رکھتے، وہاں بھی کچھ خرابی کا امکان ہوتا ہے۔اٹلی کا مشہور فلسفی دانتے
کہتا ہے کہ انسان کو تین طرح کی زندگی ملی ہے۔نباتاتی، حیوانی اور عقلی۔
نباتاتی زندگی میں وہ مفید چیزیں تلاش کرتا اور پودوں جیسی فطرت کا حامل
ہوتا ہے۔ حیوانی زندگی میں وہ اپنی مسرت کے لئے جانوروں جیسی فطرت کا حامل
ہے۔ عقلی زندگی میں وہ حق و صداقت کی تلاش کرتا ہے اور فرشتوں سی صفت کا
حامل ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اچھا انسان وہی ہے جو عقلی زندگی کا حامل
ہواور جس کی زندگی کے نباتاتی اور حیوانی پہلو بھی اس کی عقل کے تابع ہوں
اور ایک اچھا استاد تو سراپا عقلی زندگی کا علم بردار ہوتا ہے۔ تنویر صادق
|