|
|
دنیا ترقی کی رفتار میں تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی ہے اس
ترقی نے جہاں معلومات اور شعور کے دروازے کھولے ہیں وہیں پر ایسی تمام
رسموں کو بھی ختم کرنے پر زور دیا ہے جس کی بنا پر انسانوں کو ان کی جنس کی
بنیاد پر یا ان کی نسل کی بنیاد پر تفرقہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے- |
|
مگر اس کے باوجود دنیا کے کچھ علاقے آج بھی ایسے ہیں
جہاں پر انسانوں کو ان کی ذات پات کی بنیاد پر بہت سارے بنیادی حقوق میسر
ہی نہیں ہیں اور ان کے ساتھ وہی غلامانہ سلوک کیا جاتا ہے جو کہ پتھروں کے
دور سے چلا آتا رہا ہے- |
|
ایسا ہی علاقہ بھارت کے راجستھان کا بندی ڈسٹرکٹ ہے جہاں
پر گزشتہ 32 سالوں سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور دلت ذات کے لوگوں کے درمیان
بارات کے موقع پر دولہا کے گھوڑے پر بیٹھنے کو لے کر تنازعہ موجود ہے- |
|
|
|
یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب کہ اعلیٰ ذات کے افراد کی
جانب سے نچلی ذات کے دلت لوگوں پر شادی کے موقع پر دولہا کے گھوڑے پر
بیٹھنے سے منع کیا گیا اور یہ مخالفت صرف زبانی نہیں تھی بلکہ اگر اس کی
خلاف ورزی نچلی ذات کے دلت لوگوں کی جانب سے کی گئی تو اس کے بدلے میں ان
کو نہ صرف بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کو گاؤں سے بھی نکال دیا
گیا- جس کے نتیجے میں گاؤں میں کئی خواتین شادی کے دن کے بعد سے اب تک
کنواری اپنے دولہا کے انتطار میں بیٹھی ہوئی ہیں جن کو گھوڑے پر بیٹھنے کی
پاداش میں گاؤں سے نکال دیا گیا یا پھر ان کی جان بھی لے لی گئی- |
|
ایسی ہی ایک خاتون جس کے دولہا کو گھوڑے پر بیٹھنے کی
پاداش میں نہ صرف مارا گیا بلکہ گزشتہ بارہ سالوں سے گاؤں میں داخلے پر بھی
پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے وہ بارہ سالوں سے صرف اپنے شوہر کے انتظار
میں بن بیاہی سہاگن کے روپ میں اس کا انتظار کر رہی ہے- مگر اس کو یہ ڈر ہے
کہ اگر اس کا شوہر گاؤں میں داخل ہوا تو اعلیٰ ذات کے لوگوں کی جانب سے اس
کی جان لے لی جائے گی- |
|
پولیس کے اعداد و شمار کے تحت گزشتہ ایک دہائی میں
تقریباً ستر سے زيادہ دلت قومیت کے دولہا کو اس کی شادی کے موقع پر گھوڑے
پر بیٹھ کر بارات لے جانے پر نہ صرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان
میں سے کئی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے- |
|
اس حوالے سے پولیس پوری کوشش کر رہی ہے کہ اعلیٰ ذات کے
افراد کو دلت قوم کے ساتھ بٹھا کر کوئی سمجھوتہ کر لیں مگر اس میں اب تک ان
کو کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے- یہاں تک کہ اگر بارات کے وقت
بھاری سیکیورٹی کے ساتھ اس بارات کو تحفظ بھی فراہم کر دیا جائے تو آنے
والے وقت میں اس جرم کی سزا کے طور پر اس دولہے کو شدید تشدد کا نشانہ موقع
ملنے پر بنایا جاتا ہے- |
|
|
|
اس حوالے سے اعلیٰ ذات کے افراد کا یہ ماننا ہے کہ ان کے
مندر کے سامنے سے نچلی ذات کے لوگ جب گھوڑے پر بیٹھ کر گزرتے ہیں تو اس سے
ان کے بھگوان کی شان میں کمی واقع ہوتی ہے جس کی وہ اجازت نہیں دے سکتے ہیں- |
|
جب کہ نچلی ذات کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اعلیٰ ذات کے
لوگ ان کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں کہ اگر انہوں نے ان کو گھوڑے پر
بارات لے جانے کی اجازت دے دی تو اس سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا
ہے اور نچلی ذات کے لوگ ان کی برابری کا دعویٰ کر سکتے ہیں جس کو وہ برداشت
نہیں کر سکتے ہیں- اس وجہ سے وہ نچلی ذات کے لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے
محروم رکھنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں- |
|
اس قسم کے واقعات بھارت کے سیکولر رویے پر ایک سوالیہ
نشان ہیں جو دنیا کے سامنے اپنے وسیع النظر ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر
اب بھی قدیم ذات پات کے نظام میں الجھے ہوئے ہیں- |