میں صوفیاء کے جس قبیلہ کی بات کر رہا ہوں ان کا
ذاتی کردار صاف و شفاف ہوتا تھا ۔ان کا دل خشیتِ خدا وندی کا مظہرہوتا
تھا۔وہ دنیا داری سے کوسوں دور ہوتے تھے ۔حر س و طمع انھیں چھو کر نہیں
گزرتی تھی ۔ وہ ہمیشہ اپنی خاکساری کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔بادشاہوں کے
درباروں سے انھیں کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا ۔تختِ شاہی سے ان کے کوئی
مفادات وابستہ نہیں ہوتے تھے ۔تاجِ سرِ دارکی جانب وہ نگاہ اٹھا کر بھی
نہیں دیکھتے تھے ۔انھیں ہوسِ سیم و زر نہیں ہوتی تھی ۔ قوت کے ایوانوں سے
ان کا عدمِ تعلق تا ریخ کے پنوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکا ہے۔وہ دنیا
دار ی کی نہیں بلکہ روح کی سرشاری کے داعی تھے لہذاہر مذہب کے پیرو کاروں
سے محبت ان کی شناخت تھی۔کمزوروں پر دستِ شفقت اور محروموں کی دل جوئی ان
کی ذات کا جزوِ لا ینفک تھا۔وہ ہر دل میں محبت اور صرف محبت کے پھول کھلاتے
تھے جن کی خوشبو سے عوام الناس ان کی جانب کھینچے چلے آتے تھے اور یہی
خوشبو ان کی حقیقی قوت تھی۔یہ خوشبو بے قرار دلوں میں جا گزین ہو جاتی تھی
اور ان کے سارے زخموں پر مرہم سازی کا کام کرتی تھی۔وہ اپنے علی کردار کی
اسی خوشبو سے بے راہ روں کو صراطِ مستقیم کی جانب کھینچ کر لاتے تھے۔کیا یہ
ان کا احسانِ عظیم نہیں کہ ہم جیسے لاکھوں خاندان ان کی سعی ِ جمیلہ سے
اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے؟برِ صغیر پاک و ہند کی دھرتی جو شر ک و بت
پرستی کی آماجگاہ تھی ان کی نظرِخاص سے اسلام کا قلعہ بن کر سامنے آئی ۔ یہ
وہی برِ صغیر پاک و ہند ہے جس کے بارے میں محبوبِ خدا ﷺنے کہا تھا کہ( مجھے
ہند سے اسلام کی خوشبو آتی ہے۔ )۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ
سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ جس دھرتی پر اسلام کا جھنڈا لہرانے کی خوشخبری
سنا رہے ہیں وہ کیسے حقیقت کا جامہ پہنے گی کیونکہ ہندوستان حجاز سے کافی
دوری پر واقع تھا۔فارس وروم اور قیصرو کسری کی بادشاہت کے خاتمے کی خوشخبری
جب غزوہ احزاب میں سنائی گئی تھی تو اس وقت اسلام کی اپنی بقا پر بھی کئی
سوالیہ نشان تھے ۔پورا عرب اسلام کو مٹانے کے لئے امڈا ہو ا تھا لیکن
سردارِ انبیاء ﷺآزمائش کے ان جان لیوا لمحوں میں اسلام کی عالمگیریت کا
اعلان فرما رہے تھے۔قرآنِ حکیم کا واشگاف اعلان ہے ( حق آ گیا اور باطل مٹ
گیا اور باطل کو ایک دن مٹ جانا ہو تا ہے ) لہذا اس اعلان کے بعد ہر چیز
واضح ہو جاتی ہے لہذا وہ تمام اعلان جو اسلام کے غلبہ اور اس کی عالمگیری
کے بارے میں کئے گے تھے ایک مخصوص مدت کے حقیقت بن کر سامنے آئے ۔اس فتح کا
سہرا ان اہلِ صفا لوگوں کے سربندھتا ہے جن کا علی کردار سب کے لئے مشعلِ
راہ بنا تھا۔بقولِ اقبال۔(گما ں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا ۔،۔ بیا
باں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی ) ۔،۔
لاہور،آگرہ ،ملتان ،اجودن سیالکوٹ،دہلی،گجرات ، سہون اور کئی دوسرے علاقوں
میں صوفیاء کی آمد سے برِ صغیر پاک وہند میں ایک تہلکہ مچ گیا۔اجودھن جیسا
علاقہ جہاں کوئی مسلمان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا اس علاقہ میں بابا
فرید شکر گنج جیسی خدا پرست شخصیت کو بھیجا گیا تا کہ وہ وہاں کے مکینوں کو
اسلام کی اجلی تعلیمات سے روشناس کروائیں اور خدائے واحد کے نظریہ سے ان کے
دلوں کے قفل کھولیں۔اجودھن جیسا بت پرست شہر خدائے واحد کے گیت گانے والا
شہر پاک پٹن کیسے بنا ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے ۔توحید کے متوالوں کیلئے
یہ خبر دلی مسرت سے کم نہیں ہونی چائیے کہ اجودھن جو شرک و بت پرستی کا
گہوارہ تھا اب توحیدی سوچ کا گہوارہ ہے۔اب وہاں پر اﷲ اکبر کی فلک شگاف
صدائیں گونجتی ہیں جبکہ توحیدی سوچ کے سامنے اصنام پرستی جیسی ہر سوچ قصہ
پارینہ بن گئی ۔(مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ۔،۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے
کیسے ) ۔آخرِ کار رام کے پچاریوں کو اسلام کے دامن میں پناہ لینی پڑی
کیونکہ یہی انسانیت کی راہ تھی۔بات الہام ،کشف اور کرامات کی نہیں تھی بلکہ
یہ اعلی کردار اور عظمتِ انساں کے اس لا جواب اظہاریہ کی تھی جو سیدھی
ہرانساں کے دل میں پیوست ہوگئی۔اب اگر کوئی طالع آزماایسے بلند کردار
انسانوں کے خلاف لب کشائی کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیتا ہے تو پھر اس کی عقل
پر ماتم کیا جا سکتا ہے ۔ ہر وہ انسان جو دوسروں سے محبت کا اظہار کرتا ہے
اور انھیں عزت و تکریم سے نوازتا ہے انسانی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے کیونکہ
محبت ہر کسی کو تسخیر کر لیتی ہے۔لوگ ایسے انسانوں کی تعظیم کرتے اور انھیں
خود سے اعلی و بر تر سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ہر وہ انسان جو دوسروں کو ہدفِ
ملامت نہیں بناتا،ان کی تضحیک نہیں کرتا،ان پر تنقید کے نشتر نہیں چلاتا
اور نہ ہی ان کو برا بھلا کہتا ہے ایک دن خود بخود سب کی آنکھ کا تاراہ بن
جاتا ہے ۔ سقراط کا دعوی تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا لہذا وہ سب سے کہتا تھا
کہ آئیے سچائی کی تلاش کریں ۔ صوفیاء سچائی کا زندہ پیکر ہوتے ہیں۔اور اہلِ
جہاں انھیں دیکھ کر اپنی ذات میں سکون و طمانیت کا احساس اجاگر کرتے ہیں
۔آئیے اپنے وقت کے عظیم دانشور اقبال کی زبان سے پاکباز اور صالحین کی عظمت
کا احوال سنیں۔( قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت ۔،۔ یہ چار عناصر ہو ں تو
بنتا ہے مسلمان) ۔،۔
انسانوں کی پہچان ان کے کردار اور اعلی صفات سے ہوتی ہے ۔مجھے تو کم از کم
تاریخ میں کہیں ایسا لکھا ہوا نہیں ملا کہ ہمارے صوفیاء افعال و کردار میں
کسی کمزوری کا شکار تھے۔اﷲ تعالی سے انھیں جو بے پناہ محبت اور عقیدت تھی
اس کی خاطر وہ شبوں کو جاگتے رہتے تھے ۔ انھیں آہِ سحر گاہی کا جو چسکا لگا
ہوا تھا وہ اسی میں شاداں و فرحان رہتے تھے۔وہ سب کے سب اعلی ادب کے نقیب
ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی کردار کے نقیب بھی تھے ۔وہ عبادت گزار ہونے کے ساتھ
ساتھ پرہیز گار بھی تھے۔خدا کے بارے میں ان کے اپنے خیالات تھے لہذا ربِ
ذولجلال کا دل کی نگاہوں سے نظارہ کرنا ان کی واحد کی خواہش ہوتی تھی جوعام
انسانوں کی سوچ سے بالا تر تھی لہذا وہ ان کی اس ادا ئے دلبرانہ کو سمجھنے
سے قاصر تھے ۔کیا کہیں ایسا لکھا ہوا ملتا ہے کہ انھوں نے کھلے عام عوام سے
یہ کہا ہو کہ ہما رے وصال کے بعد ہماری قبروں کی پرستش کرنا ، انھیں سجدہ
گاہ بنا لینا،ر ان کے سامنے اپنی حاجات کی برو مندی کیلئے ماتھا ٹیکنااور
ہماری قبروں کو اپنے لئے وجہِ نجات بنا لینا۔یہ سب کچھ شرک و بت پرستی کے
زمرے میں آتا ہے اور کوئی با شعور انسان ایسا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا ۔
ہمارے وزیرِ اعظم عمران خان نے عظیم صوفی بابا فرید شکر گنج کے مزار کی
دہلیز پر جس طرح سجدہ کیا عوام نے اسے نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا
۔کوئی انسان کتنا بھی پاکیزہ کردار کا حامل ہو جائے اسے سجدہ نہیں کیا جا
سکتا کیونکہ یہ کھلا شرک ہے۔یہ عمران خان کا اپنا ذاتی فعل ہے جس کا الزام
بابا فرید شکر گنج کی ذات پر نہیں لگایا جا سکتا۔بابا فرید شکر گنج تو خود
موحد تھے اور ان کی ساری زندگی شرک و بت پرستی میں آلودہ افراد کو خدائے
واحد کی جانب لانے میں گزری تھی ۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ صوفیاء
اکرام کی عظیم خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بجائے کچھ کم ظرف انسان
اور مذہبی حلقے ایسے با صفا انسانوں کے خلاف تواتر سے ہرزہ سرائی کرتے رہتے
ہیں۔یہ آسمان پر تھو کنے کے مترادف ہے لیکن بدبختوں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ
اپنے ہی محسنوں کی کردار کشی کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔فرقہ بندی کے دائروں
میں بٹے ہوئے علماء کرام اپنی ذاتی تشہیر اور فرقہپرستی کو بڑھاوا دینے
کیلئے ایسا کھیل رچاتے ہیں لیکن ان کے منفی پرو پیگنڈہ کے باوجود ان اہلِ
صفا انسانوں کی شہرت،عزت ،تقدس ، حرمت اور شان و شوکت کا دریا ٹھاٹھیں مار
رہا ہے اور عوام الناس ان کی محبت کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ
اسلام کی حقیقی خادم تھے ۔کسی کے کہنے سے نہ تو سورج نکلتا ہے اور نہ ہی
سورج غروب ہو تا ہے۔ہیرے کا کام چمکنا ہے اور اسے اپنی چمک کیلئے کسی
بیرونی سہارے کی ضرور ت نہیں ہوتی ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ایک دفعہ
مہاتما گاندھی کو لکھا تھا۔ ( گلاب کو کسی بھی نام سے پکار لو وہ گلاب ہی
رہتا ہے)۔،۔
|