محنت کش یا فیشن ایبل خواتین کا عالمی دن

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 1.3 ارب افراد غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے جس میں سے70فیصد خواتین ہیں۔شہری علاقوں میں رہائش پذیر 40فیصدغریب گھرانوں کی کفالت خواتین کررہی ہیں جبکہ دنیا بھر میں 50 سے 80 فیصد خوراک کی پیداور محنت کش خواتین کی بدولت حاصل کی جارہی ہے،بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں سے صرف 10 فیصد خواتین اپنی زمین کی مالک ہیں۔دنیا بھر میں آب و ہوا سے متعلق آفات اور تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والوں میں بھی 80 فیصد خواتین اور لڑکیاں ہیں۔انہی تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم ہے”پائیدارمستقبل کے لئے صنفی مساوات“صنفی مساوات سے مراد خواتین کو مردوں کی طرح سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں مساوی شراکت کے مواقع فراہم کرنا ہیں یعنی دنیا کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے صنفی مساوات قائم کرنا ہوگی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اونتونیو گوتریس نے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ”کوویڈ19 وباء کے خاتمہ میں خواتین کا تعاون ناقابل فراموش رہا ہے،پائیدار دنیا کے قیام کے لئے خواتین اور بچیوں کوان کے بنیادی حقوق فراہم کرکے انھیں ہر فیلڈ میں آگے لانا ہوگا۔“

خواتین کوان کے حقوق دلانے کی بات 8 مارچ 1907ء میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں اس وقت شروع ہوئی جب لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کارکن خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ پیش کیا کہ انھیں بھی مردوں کے مقابلے میں معقول تنخواہ دی جائے جس پر پولیس نے ان پر اندھا دھند لاٹھی چارج شروع کردیا اور کئی خواتین کو جیل میں قید کردیا۔وقتی طور پر خواتین کی آواز کو دبا دیا گیا لیکن اس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد 8مارچ1908ء میں نیو یارک کی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر پندرہ ہزار محنت کش خواتین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے،اپنے ووٹ کے حق اور بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے پرزور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مرتبہ بھی حکومت نے پوری طاقت کا مظاہرہ کیا اور احتجاج کرنے والی خواتین پر وحشیانہ تشدد کے تمام تر حربے استعمال کر ڈالے، کبھی گھڑ سوار پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کو بالوں سے پکڑ کر دور دور تک سڑکوں پر گھسیٹا تو کبھی خواتین پراندھا دھند لاٹھیاں برسائی گئیں، کہیں خواتین کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا گیاتوکہیں بہت سی خواتین کو جیل میں بند کردیا گیا۔ اس ہولناک تاریخی واقعہ کے بعد سے آج تک دنیا بھر کی خواتین اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1977ء میں خواتین کا عالمی دن منانے کی باقاعدہ منظوری دی جس کے بعد سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہر سال 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن مناتے ہیں۔حیرت کی ایک بات یہ ہے کہ سن1908 میں خواتین نے اپنے جن حقوق کے لئے آواز بلند کی تھی وہ آج کے دور میں مانگے جانے والے حقوق سے بالکل مختلف ہیں۔سن 1908 میں محنت کش خواتین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے اور ووٹ دینے کے حوالے سے حقوق مانگے تھے لیکن آج کے دور میں محنت کش خواتین کے حقوق کا نام لے کرماڈرن خواتین مغربی آزادی مانگ رہی ہیں۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں خصوصااقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والی مسلمان خواتین اور بچیوں پر ہونے والے ظلم وزیادتی کا بھی نوٹس لیں جہاں شرمناک ایپ بنا کر مسلمان خواتین کو نیلام کیا جارہا ہے،جہاں قابض بھارتی فوج کشمیری خواتین کی عزتوں کو سرعام پامال کررہی ہے۔اس عالمی دن پر مسلمان خواتین کا عالمی برادری سے ایک سوال ہے کہ کیاخواتین اور بچیوں پر ہونے والے مظالم،زیادتی اورتشدد جیسے دلخراش واقعات کا خاتمہ خواتین کے حقوق میں نہیں آتے؟ عالمی برادری خواتین کا عالمی دن منانے سے پہلے انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والی مسلمان خواتین کو ان کے حقوق دلوائے اور ہونے والے مظالم بند کروائے گر ایسا نہیں ہوسکتاتو خواتین کا عالمی دن منانے کا ڈھونگ رچانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

 

Dr Jamshed Nazar
About the Author: Dr Jamshed Nazar Read More Articles by Dr Jamshed Nazar: 48 Articles with 28113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.