ہم خاموشی سے اپنے آس پاس بسنے والے بزرگوں پر نظر
ڈالیں اور اپنے اور اپنے بچوں کا ان بزرگوں سے رویہ دیکھیں۔
نظر انداز کرنا:
کھانے پینے اور انکی پرہیزی غذا میں لا پرواہی۔۔۔۔
بتیسی، عینک، سننے کا آلہ، لاٹھی خراب ہو جانے پر لانے میں دیر کرنا ۔۔۔
کپڑوں اور جسمانی صفائی کا خیال نہ کرنا۔۔۔۔
ڈاکٹر کے پاس لیجانے اور دوائیوں میں کوتاہی۔۔۔۔
خشک ایڑیاں صاف نہ کرنا، جلد اور بالوں کی صفائی کا خیال نہ کرنا، ۔۔۔۔
کمرے میں بہت دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دینا۔۔۔۔۔
جسمانی طور پر:
اٹھنے بیٹھنے چلنے میں اگر انکو مشکل ہو تو انکے لیے کسی مددگار کا انتظام
نہ کرنا، خود بھی جب تک ٹال سکیں، ٹالنا۔
کبھی کپڑے خراب ہو جائیں تو سب کے سامنے اس بات کا ذکر کرنا، یا انکے سامنے
بار بار تذکرہ کرنا۔۔
انکے آرام کے اوقات میں اونچا ٹی وی لگانا اور بچوں کو شور ڈالنے سے منع نہ
کرنا۔۔۔
مالی طور پر:
لین دین، ضروریات اور آسائشوں پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہ دینا۔۔۔
انکی زندگی میں ہی انکی جائداد بانٹنے اور حصوں کا ذکر کرنا ۔۔۔۔
ان سے لیے پیسوں کا انکو جواب نہ دینا کہ کہاں آئے، کدھر گئے ۔۔۔۔
سب گھر والوں کے موسمی کپڑے اور جوتے لینا اور انکو بھول جانا۔ عید، شادی
کے مواقع پر سب کی شاپنگ ہو جانا، انکو چھوڑ دینا۔
بنیادی حقوق کی تلفی:
وقت نہ دینا۔
سلام دعا اور پیسے دے دینے کے بعد سمجھنا کہ حق ادا ہو گیا۔
سب سمجھدار لوگوں سے مشورے کا اہتمام کرنا لیکن والدین کو شامل نہ کرنا
انکے فیصلے خود کرنا، انکو انکی مرضی نہ کرنے دینا ۔۔۔۔
تیز آواز یا سخت لہجے میں چڑ کر جواب دینا ۔۔۔۔
اپنے بچوں کو انکے نانا نانی، دادا دادی کے قریب ہونے کے مواقع نہ دینا،
اور انکے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی ترغیب نہ دینا
ممکن ہے یہی بزرگ جب خود جوان تھے، انہوں نے اولاد کے ساتھ بس پیسہ لو اور
پیسہ دو کا تعلق رکھا ہو۔ بچپن سے کوئی جذباتی تعلق بنایا ہی نہیں ہو۔ لیکن
اب وہ کمزور ہیں۔ ہم نے انہیں امتحان میں نہیں ڈالنا، بڑھاپا خود ہی ایک
امتحان ہے۔ حتی المقدور کوشش یہی کرنی ہے کہ انہیں گھر کا اہم فرد سمجھیں
اور اپنے مال، وقت، اور محبت میں انکا خاص حصہ رکھیں۔ ہم جو آج چار بندوں
کے سامنے بول سکتے ہیں، سلجھے ہوئے طریقے سے اپنے آپ کو پریزیڈنٹ کر سکتے
ہیں، اس سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں انکا ہاتھ ہے، انکی دعائیں ہیں۔ انکے پاس
بیٹھیں، حال احوال پوچھیں، بار بار کے سنے ہوئے انکے قصے کہانیاں پھر سے سن
لیں، ان سے مشورے لیا کریں، دور ہوں تو فون کر لیں۔ ہو سکے تو آن لائن درسِ
قرآن وغیرہ سے جوڑ دیں۔ پکنک وغیرہ پر انکی صحت کے پیشِ نظر اگر ساتھ
لیجانا ممکن نہ ہو تو الگ سے باہر گھمانے پھرانے لیجائیں۔ ٹیکنالوجی جیسے
فون ایپ وغیرہ سمجھانی ہو تو صبر و تحمل سے سمجھائیں۔ کوشش کریں کہ بس اللہ
کی رضا کے لیے انکے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہیں۔
|