رصغیر کی تاریخ میں 23 مارچ 1940 کا دن بہت اہمیت کا حامل
ہے۔ اس دن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے قائد اعظم
کی نڈر قیادت میں اپنے ستائیسویں سالانہ اجلاس (منعقدہ لاہور) میں ایک
آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق
کا تحفظ یقینی ہوسکے اور وہ اپنے دین کے مطابق زندگیآسانی سے گزارسکیں۔
مسلمان برصغیر پاک و ہند میں بحثییت فاتح آئے تھے۔ دنیا میں ہندوستان واحد
ملک ہے جہاں مسلمان قریبا ہزار سال حکمران رہے، لیکن نہ تو انھوں نے
ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت
کی، یہی وجہ ہےکہ ہزارسال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے۔‘‘۔
قرارداد لاہور سے پیشتر قائد اعظم نے 9 مارچ 1940 کو مشہور انگریزی ہفت
روزہ ٹائم اینڈ ٹائڈ میں واضح طور پر ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں
لکھا تھاکہ ہندوستان کا سیاسی مستقبل کیاہے؟
1940 کو لاہور کے مشہور منٹو پارک میں جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے، مسلم
لیگ کا کل ہند سالانہ اجلاس شروع ہوا۔ اس سے چار روز پیشتر لاہور میں ایک
ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، خاکساروں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
جلوس نکالا اور حکومت پنجاب نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے متعدد
خاکساروں کو شہید کردیا، اس وجہ سے شہر میں کافی کشیدگی پھیل چکی تھی، بعض
لوگوں نے قائد اعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن قائد اعظم نے ان
کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور جلسہ مقررہ تاریخ پر منعقد کرنے کا فیصلہ
کیا۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس تاریخی لحاظ سے بہت اہم تھا اور اس اجلاس میں
ہندوستان کے کونے کونے سے پچاس ہزار سے بھی زائد مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس
کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فی
البدیہہ خطبہ صدارت دیا۔ اپنی طویل تقریر میں قائد اعظم نے ملک کے سیاسی
حالات کا تفصیلی جائزہ لیا اور کانگریسی لیڈروں سے اپنی گفتگو اور مفاہمت
کی کوششوں کی تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کی وضاحت
کی ’’ہندو اور مسلم فرقے نہیں بلکہ دو قومیں ہیں۔ اس لیے یہاں مغربی
جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی۔
چونکہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے
مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح
ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔ ہندو
مسلم مسئلے کا صرف یہی حل ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل ٹھونسا گیا تو وہ
اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے
‘‘۔ قائد اعظم کی اس تاریخی تقریر سے اگلے روز یعنی 23 مارچ 1940 کو شیر
بنگال مولوی فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی جسے قرارداد لاہور کہا
جاتا ہے جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی’’
آج تجدید عہد وفا کا دن ہے آج ہمیں عہد کرنا چاہیئے کہ یہاں اپنی آنا ذاتی
پسند نا پسند سب کو بالائے طاق رکھ کر مادرِ وطن کی بقا کی خاطر یک زباں یک
جاں ہو کر یکجہتی اور اتحاد کا عہد کرتے ہوئے ملک کو در پیش حالات سے باہر
نکالنا ہے ۔ پاکستان ہم سب مسلمانوں کیلیے اللہ تعالی کا ایک انمول اور
قیمتی تحفہ ہے ِاس تحفے کی حفاظت ہم سب پر فر ض ہے ہم سب پاکستانی عہد
کرلیں تو دشمن ہماری پیاری سرزمین پر حملہ تو کیا اِس کی طرف میلی آنکھ سے
دیکھنے سے پہلے بھی ہزار بار سوچے گا۔ ہم پر لازم ہے کہ آج کے دِن ہم ایک
عہد کریں کہ ہم پاکستان کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کے رہنما اصولوں کی
روشنی میں آگے بڑھائیں گے۔ یہاں ہر پاکستانی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
اِس ملک کو سنوارنے کی ذمہ داری صرف حکومت ِ وقت اور ہماری بہادر افواج ِ
پاکستان کی ہی نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی مجموعی قومی ذمہ داری ہے کہ اِس ملک کی
حفاظت وترقی کیلیے لایعنی قسم کے اختلافات بھلا کر اتحاد واتفاق کی مثال
قائم کریں پاکستان زندہ باد!
خدا کرے میری ارضِ پاک پہ اترے ، وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو (آمین)
|