نیوٹرل

کیا کروں، حالات ایسے ہیں کہ میں نے جن لوگوں کو ووٹ دئیے انہوں نے انتہائی مایوس کیا اور جنہیں میں نے ووٹ نہیں دیا ۔ ان کے بارے میرے خیالات اچھے نہیں تھے۔ جن کے بارے میں سوچتا تھا کہ وہ قومی مجرم ہیں۔جنہیں میں ظالم اور سفاک جانتا تھا، جو اپنے عملوں کے سبب اس ملک کی سیاست سے عملاً فارغ ہو چکے تھے۔لوگوں کی نظروں سے گر چکے تھے۔میرے اپنے لیڈروں کی ناا ہلیوں اور نکمے پن کے سبب وہ پھر لیڈر بن چکے اور آج ایک بار پھر عوام کے لئے قابل قبول ہیں۔ وہ تبدیلی جس کی آس میں لوگ گھروں سے دیوانہ وار نکلے تھا، اب ایک بھیانک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔وہ پرانے نام نہاد رہنما ایک بار پھر عوام کو نئے فریب دینے کو میدان عمل میں ہیں، ان کی حالیہ پھرتیاں دیکھنے کے باوجود میں نے مستقبل میں بھی انہیں ووٹ دینے کیا کبھی سوچا بھی نہیں۔مایوسیوں نے اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ کبھی کوئی دوست پوچھ لے کہ آج کل کس کی حمایت کر رہے ہو تو میں سینہ تان کر کہتا ہوں کہ بھائی آج کل میں نیوٹرل ہوں۔ میرے خیال ہے کہ نیوٹرل وہ شخص ہوتا ہے جو دو فریقوں کے کسی بھی معاملے میں کسی اختلاف، کسی جھگڑے یا لڑائی کی صورت میں کسی کا بھی ساتھ نہ دے۔ جو اختلافی صورت حال میں کسی کے بھی ساتھ کھڑا نہ ہو۔اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھے۔

ویسے ہر مضمون اورموقع کے اعتبار سے نیوٹرل کے مختلف معنیٰ ہیں۔اردو لغت کے مطابق نیوٹرل کا مطلب ہے، غیر متعصب، غیر جانبدار، عدم دلچسپی کا شکار،سچا اور کھرا۔ ایک گاڑی کو چلانے کے لئے آپ کو گیئر لگانا پڑتا ہے لیکن آپ گئیر اور انجن کا رابطہ ختم کر دیں تو گاڑی کی وہ پوزیشن نیوٹرل کہلاتی ہے۔کیمسٹری میں محلول دو طرح کے ہوتے ہیں۔تیزابی یا الکلائن، لیکن جو چیز نہ تیزابی ہو نہ ہی الکلائن وہ نیوٹرل ہوتی ہے جیسے پانی۔فزکس میں ایسے ایٹمی جرثومے جن کا چارج نہ تو مثبت ہو اور نہ ہی منفی، نیوٹرل کہلاتے ہیں۔دو ملکوں کی لڑائی میں جو ملک کسی کا بھی ساتھ نہیں دیتے بلکہ چپ سادھ لیتے اور دونوں کی تباہی کا مزہ لیتے ہیں وہ نیوٹرل ملک کہلاتے ہیں۔ بجلی کی وائرنگ میں تین تاریں استعمال ہوتی ہیں جو اس کا سرکٹ مکمل کرتی ہیں ان میں ایک پازیٹیووائر، ایک ارتھ وائر اور تیسری نیوٹرل وائر کہلاتی ہے۔سیاست میں اپنے ووٹ کو استعمال نہ کرنے اور اپنا جمہوری حق نہ استعمال کرنے والا شخص نیوٹرل ہوتا ہے۔

آج کے دور میں ہر وہ شخص جس کے پاس دولت یا اقتدار ہو اپنے وقت کا ارسطو شمار ہوتا ہے۔ اس کی دولت یا مرتبہ اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ وہ جو کہتا ہے اور جو سمجھتا ہے اسے من وعن قبول کیا جائے۔ اس کی ہاں میں ہاں ملائی جائے ۔ہم جیسے کیڑے مکوڑے جن کی حیثیت کچھ نہیں ہوتیان کے لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ شاید اسی کو جینے کا سلیقہ کہتے ہیں۔آج کے حکمران اور میرے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نیوٹرل کا مطلب ہے جانور ہونا۔کیا خوبصورت بات ہے۔ سچ کہا ہے۔میں وزیر اعظم کی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں۔ میرے جیسے لوگ جو حالات سے تنگ آ کر خود کو نیوٹرل جانتے ہیں عملاً جانور ہیں۔ جانور نہ ہوتے توکچھ احساس ہوتا، کچھ سوچ ہوتی۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے۔ ہم بت پرست ہوتے، جمہوری لوگ ہوتے۔ جدھر کوئی جم غفیر رواں دواں نظر آئے اسی طرف چل پڑتے ۔مگر ہم جانور ہو گئے ہیں۔

اپنے لیڈر کے بیان کے بعد میری سوچ میں بھی عظیم تبدیلی آئی ہے۔ دوپہر کا وقت تھا اور میں انہی سوچوں میں گم تھا۔ میں نے بیگم کو آواز دی کہ تھوڑا سا چارہ ڈال دو۔ وہ حیران نظروں سے مجھے دیکھنے لگی کہ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے کیا کہہ رہے ہیں۔کھانا لگا ہوا ہے، اٹھیں اور کھا لیں۔ میں سمجھ گیا کہ اس تک وزیر اعظم کا پیام نہیں پہنچا اسی لئے اسے اپنے جانور ہونے کا پتہ نہیں چلا۔ حالانکہ وہ مجھ سے بھی زیادہ نیوٹرل ہے۔مہنگائی اور گھر کے بجٹ میں خرابی کے بعد اس نے تبدیلی کے خواب دیکھنے بند کر دئیے ہیں۔ اس نے کسی سیاسی سوچ کو ذہن میں جگہ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ پوری طرح نیوٹرل ہے ، ایک مکمل جانور۔ گھر کی معیشت کے گورکھ دھندے اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ سہ پہر کو ہم کچھ دیر آرام کے لئے لیٹے تو میں خیالوں میں کچھ سوچ کر بڑبڑا رہا تھا۔میری بیگم کچھ ناراض ہو گئی کہ آرام کرنے کی بجائے تم کسی گائے یا بھینس کی طرح جگالی کیوں کئے جا رہے ہو۔ واہ واہ ، اس کی اس بات نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ میں نیوٹرل شخص واقعی ہی ایک جانور ہوں۔ شام کو میرا دل کبھی کسی اور کبھی کسی جانور کی طرح آوازیں نکالنے کو چاہ رہا تھا۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں چھپ کر بہت سی آوازیں نکالنے کی کوشش کی مگر کچھ مزا نہیں آیا۔ میں فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ کون سی آواز مجھے سوٹ کرے اور خود کو اس جانور کا نام دے سکوں۔ویسے خوشی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے بیان کی روشنی میں یہ مان لیا ہے کہ وہ جانوروں کے اس جنگل کے بادشاہ ہیں۔ کوئی زمانہ تھا جنگل پر شیر کی حکومت ہوتی تھی۔ اب شیر ناپید ہیں ۔ اﷲجانتا ہے کہ جس جنگل سے شیر غائب ہو جائیں وہاں حکمرانی کس جانور کی ہو سکتی ہے۔ مگر حکمرانی تو بہر حال ہوتی ہے، حکمرانی کی یہ کرسی خالی نہیں رہ سکتی۔ نیوٹرل یا جانور ہونے کے باوجود سب کی نظر اس پر ہوتی ہے۔مگر جمہوریت کا دور ہے اس لئے اس پر براجماں وہی ہوتا ہے کہ جمہوری جانور جسے تسلیم کر لیں۔

سچ تو یہ ہے کہ حالات خطرناک حد تک جا چکے۔اس ساری ابتری کی وجہ تعلیم پر حکومتوں کی توجہ نہ ہونے پر ہے۔ہمارا نظام تعلیم گریڈوں کے متلاشی بے حس اساتذہ تو بڑی تعداد میں دے رہا ہے مگر وہ جذبہ کہ جس نے پوری قوم کویک لڑی میں پرونا ہے مفقود ہے۔ہم سندھی پنجابی پٹھان اور بلوچ تو ہیں لیکن پاکستانی کہیں سے نظر نہیں آتے۔وہ نظام جس نے ہم سب کو ویلڈ کرنا ہے، موجود نہیں۔ہم ڈھونڈھ کر ایسے ماہرین تعلیم لے کر آتے ہیں جنہیں نہ زمینی حقائق کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی کلاس روم کا کوئی عملی تجربہ۔ وہ کاغذوں میں ہمارے اداروں کو زمین سے اٹھا آسمان تک پہنچا دیتے ہیں۔ مگر حقیقت ہمیشہ اس برعکس ہوتی ہے۔ ہمارے پی ایچ ڈی اساتذہ میں زیادہ تر کی ڈگریاں یا توجعلی ہیں یا جعلسازی سے حاصل کی گئی ہیں اور ہمارا سسٹم اس جعلسازی کو فروغ دیتا ہے۔ایسے اساتذہ صرف اور صرف سیاست کرتے اور پڑھانے سے کتراتے ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی یہ سمجھے کی ہم جانوروں کے سوا کچھ انسان بھی حاصل کر پائیں گے ، بالکل ممکن ہی نہیں۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 21167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.