اسلام آباد ، بے حسی اور حجامے کی ضرورت

چھ لوگ اسلام آباد کو پاکستان کا دل سمجھتے ہیں ، لیکن اگر اسلام آباد واقعی پاکستان کا دل ہے تو پھر اس کی صفائی کی ضرورت ہے کیونکہ اتناکچھ اس شہر میں جمع ہوگیا ہے کہ اسے نکالنے کیلئے اب حجامے کی ضرورت ہے .ایک زمانے میں اس شہر میں افغانی ہوا کرتے تھے جو چھوٹے چھوٹے کاروبار سے وابستہ تھے اب افغانی نہیں لیکن ان افغانیوں کی بڑی تعداد ابڑے ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں اوریورپ جانے کے چکروں میں مصروف عمل ہیں .


اسلام آباد ، کہنے کو تو ایک شہر ہے ، جہاں پر وفاقی وزراءبیٹھتے ہیں اور اسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے لیکن ایک ایسا دل جہاں پر بیشتر رہنے والوں کے دل نہیں ہوتے ، ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر رہتے ہیں ،چھوٹے لوگ تو کلاس فور ہی ہیں جن کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ، جس طرح ہمارے ہاں شریف شوہر کی گھر میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی.اسلام آباد کا اسلام سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی بھی حکمران طبقے کا عوام سے تعلق ہے اس میں موجودہ حکمران سے لیکر گذشتہ کئی دہائیوں سے عوام پر مسلط حکمران اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اسٹبلشمنٹ بھی شامل ہیں جنہیں صرف مفاد تو اپنا عزیز ہوتا ہے لیکن وہ غریبوں کے نعرے لگاتے ہیں اور غریب سو جوتے اور سو پیاز کھا ادھر ہی رہے ہیں بس اتنا ہی اسلام آباد کا اسلام سے تعلق ہے.جس طرح ہماری قوم بھولنے کی بیماری کا شکار ہے ہم بھی اسی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں پتہ نہیں کس نے اس جگہ کا نام اسلام آباد رکھا تھا کیونکہ اسلام تو نہیں آیا لیکن اسلام کے نام پر بہت سارے بھوکے ننگے گاڑیوں اور بنگلوں ے مالک بن گئے ، اپنی لئے تو دنیا آباد کر گئے ہیں لیکن اس ابدی دنیا کا کسی کو خیال ہی نہیں.

اسلام آباد پر لکھنے کا خیال اس لئے آرہا ہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک قومی کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا ، لمبے عرصے بعد جانے کی وجہ سے وہ سڑکیں جہاں پر ہم رات کو مٹر گشتی اور آوارہ گردی کرتے تھے اور جہاں پر موٹر سائیکل سب سے زیادہ ہوتے تھے اب وہاں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں ، کروڑوں اور لاکھوں میں ملنے والے ان گاڑیوں کی وجہ سے اسلام آباد کے ہر سڑک پر انتہائی رش ہے ، ہر کوئی آگے جانے کی چکر میں ہیں ، ہر ایک کے چہرے پر ایک رعونت ہے ، کسی کے پاس وقت نہیں ہر بندہ اپنی دنیا میں مگن ہے.

آج سے کم و بیش دو دہائی قبل جب ہم اسلام آباد میں قلم کے مزدور تھے ، ان دنوں اسلام آباد بہت چھوٹا شہر ہو ا کرتا تھا ، ہم تین صحافی جن میں اللہ بخشے ندیم جو بعد میں سرکاری نیوز ایجنسی میں قلم کی مزدوری کرتے کرتے انتقال کر گیا ہے جبکہ دوسرا دوست آج بھی اسلام آباد میں نیم سرکاری ادارے میں قلم کا مزدور ہے یہ الگ بات کہ اس پر اسلام آباد کا اثر ہوگیا ہے خیر چھوڑیں ، کم و بیش 1997 میں اس شہر میں ایک اتوار بازار ہوا کرتا تھا جس کے نزدیک ہم تین صحافی دوستوں نے ایک ہزار روپے میں کمرہ لیا تھا جو ہم برابر تقسیم کرکے مالک مکان جو کلاس فور ملازم تھا اور اسے فلیٹ گھر والوں کیلئے ملا تھا لیکن اس کے گھر والے جو مری میں رہائش پذیر تھے نہیں آتے تھے اس لئے اس نے یہ کمرے ہم جیسے کئی بندوں کو کرائے پر دئیے تھے. ا ن دنوں اسلام آباد میں سور بہت زیادہ ہوا کرتے تھے اور کھلے عام جنگلوں سے خوراک کیلئے نکلتے تھے . خیر اب سور یعنی خنزیر کہیں اور چلے گئے.

کچھ لوگ کراچی کو پاکستان کا دل کہتے ہیں ، لیکن وہ ایسا دل ہے جس میں ہم لوگوں نے کبھی چھریاں مار کر ار کبھی انجکشن لگا کر اسے اتنا زخمی کردیا کہ کراچی جیسا شہر سسک رہا ہے ، ماحولیاتی آلودگی سے لیکر بے ہنگم ٹریفک ، معیشت کی بدتری سے لیکر امن و امان کی خراب صورتحال اور قبضہ مافیا سے لیکر ہر ایک حکمران کے سامنے لیٹ کر طوائف کا کردار ادا کرنے والے سیاسی پارٹیوں کراچی کو ہر حال میں بدتر کردیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کچھ لوگ اسلام آباد کو پاکستان کا دل سمجھتے ہیں ، لیکن اگر اسلام آباد واقعی پاکستان کا دل ہے تو پھر اس کی صفائی کی ضرورت ہے کیونکہ اتناکچھ اس شہر میں جمع ہوگیا ہے کہ اسے نکالنے کیلئے اب حجامے کی ضرورت ہے .ایک زمانے میں اس شہر میں افغانی ہوا کرتے تھے جو چھوٹے چھوٹے کاروبار سے وابستہ تھے اب افغانی نہیں لیکن ان افغانیوں کی بڑی تعداد ابڑے ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں اوریورپ جانے کے چکروں میں مصروف عمل ہیں .

اسلام آباد وہ شہر ہے جہاں پر حکمران طبقہ رہائش پذیر ہیں لیکن اس طبقے کی وجہ سے عام لوگوں کو کتنی مشکلات اٹھانا پڑرہی ہیں اس کا اندازہ گذشتہ ایک ہفتے سے ہونیوالے حکمران پارٹی اور اپوزیشن کے جلسوں کی ہیں جس میں حکمرانوں نے ایک طرف سرکاری وسائل کا استعمال کیا تو دوسری طرف اس شہر میں اپنا زور دکھانے کیلئے اپوزیشن نے مدارس کے طلباءکو جمع کیا ، جس کے باعث یہا ں پرنہ صرف یہاں کے رہائشی لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہیں بلکہ یہاں پر دوسرے شہروں ے آنیوالے افراد بھی گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں. دونوں اطراف سے عوامی نمائندگی اور حکمرانی سمیت حالات بہتر ہونے کے دعوئے تو کئے جاتے ہیں لیکن کرسی ملنے کے بعد عوام جائے بھاڑ میں.. والی صورتحال ہوتی ہیں..اسلام آباد کی یہ خاصیت یہ خامی ہے کہ پاکستان کا دل کہلائے جانے کے باوجود اس کا اپنا دل نہیں ، یہ کسی کا نہیں ، کتنے ہی حکمران گئے ، کتنے ہی اپوزیشن ارکان تھے ، کتنے ہی بیورو کریٹ تھے ، جن کے آگے ریڈ کارپٹ بچھائے جاتے ان کے آنے پر ہوٹر بجائے جاتے . لیکن اس شہر نے ان سے وفا نہیں کی . یہ خاصیت صرف اس اسلام آباد ہی کی ہے کہ اس پر کسی چیز کا اثر ہی نہیں ہوتا.پاکستان کے دوسرے شہروں کے رہائشیوں کے رویوں کا اثر ان کے شہروں پرلازما ہوتا ہے ، اداسی ، خوشی آپ کو مختلف شہروں میں دیکھنے کو ملے گی لیکن اسلام آباد میں بہار ہو کہ خزاں ، اور یہ بہار و خزاں سیاست میں ہو اسٹبلشمنٹ میں یا موسم میں ، عجیب سی بے حسی اس شہر کے کونے کھدروں سے سسک رہی ہوتی ہیں .

یہ بھی اسلام آباد کی خاصیت سمجھیں یا خامی ، یہاں پر سال ہا سال گزارنے والوں کی اپنی زندگی نہیں ہوتی ، کوئی رشتہ دار یہاں پر نہیں ہوتا ، عید پر بھی ایک دوسرے سے ایسا ملاجاتا ہے جیسے کوئی ڈیوٹی ہو جیسے کوئی ملازم فرض نبھا رہا ہو ، شائد ا س کی وجہ ہے خانہ بدوشوں کی آمد ہے جو ملک کے کونے کونے سے آکر یہاں پر آباد ہوگئے ہیں اور موجودہ دور میں فیس بک پر سٹیٹس پر سٹیٹس ڈال کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ " فیلنگ کریزی " حالانکہ وہ بیٹھے باتھ رومز میں ہوں گے لیکن " فیلنگ کریزی " کا یہ جملہ ان کے فیس بک سٹیٹس پر آتا ہے.یہاں پر سال ہا سال گزارنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص دوسرے شہر جا کر واپس آجائے تو پھر اسے اس شہر میں نئے سرے سے تعلق بنانا پڑتاہے کیونکہ یہاں کے لوگ بھول جانے کی عادتوں کے مالک ہیں کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ کہاں پر تھے ، کہاں غائب تھے ، ملک کے کسی بھی شہر میں آپ جائیں ، حتی کہ کراچی جیسے مصروف شہر میں بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ کدھر غائب ہو، لیکن اسلام آباد میں آنے کے بعد پرانا تعلق بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں بس ہر کوئی نیا تعلق بنانے کے چکر میں ہوتا ہے.


بے ہنگم ٹریفک ، بڑھتی آبادی اور رہائشی سوسائٹیوں نے شہر اقتدار اسلام آباد کو سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے بڑا شہر تو بنا دیا ہے ایسا شہر جس میں ہر چیز ملتی بھی ہیں بکتی بھی ہیں اور ایوانوں تک پہنچتی بھی ہیں جہاں سے ہر کوئی مستفید ہوتا ہے لیکن اسے اپنا کوئی نہیں بنا سکا ہے ، شائد اس کی وجہ اقتدار بھی ہے ، شائد اس کی وجہ حکمرانوں اور بیورو کریٹ کی ذاتی مفادات کی جنگ ہے جن کے دیکھا دیکھی اب ہر کوئی اپنے لئے مفاد حاصل کرنے کے چکر میں ہیں. لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس شہر اقتدار کو اب حجامے کی ضرورت ہے.تاکہ دل صاف ہو اور اگر دل صاف ہو تو جسم صاف ہی رہتا ہے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420350 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More