بلاول بھٹو جمہوریت کی آخری امید۔

2018ء میں انتخابات سے قبل وزیراعظم صاحب اپنے مختلف جلسے جلوسوں اور تقریبات میں جو خطاب فرماتے تھے، انہیں سوشل میڈیا پر جاکرآج بھی باآسانی دیکھا جاسکتاہے،ان کی تقریروں میں غریب عوام کے لیے بڑی بڑی خوشخبریاں ہوتی تھی اور یہ کہاجاتاتھا کہ ان کی ٹیم نے تمام تر ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور وہ سارے کے سارے معاشی ایکسپرٹ پہلے سو دنوں کے پلان کے مطابق ملک کے کونے کونے میں دودھ کی نہریں بہادینگے، کپتان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کے پاس ہر شعبے کے ماہرین کی ٹیمیں موجود ہیں، بسا نہیں ایک بار حکومت ملنے کی دیر ہے پھر سب کچھ عوام کی دہلیزپر ہوگا اور عوام کے ساتھ جو جو زیادیتیاں ہوئی پچھلے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں ان سب کی کسر نکل جائے گی۔اور کپتان صاحب کو حکومت ملی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ ان کی حکومت کے چار سالوں میں جو اس ملک کا کھاتا پیتا طبقہ تھا وہ بھی غربت کی لکیرسے نیچے چلے گیا،اور جو غریب تھا اس کے ہاتھ مزید زمین پر لگ گئے، اس جھوٹے اور اور نااہل اورجھوٹے کپتان کی جھوٹی تسلیوں، جھوٹے وعدوں نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا،لیکن یہ وزیراعظم صاحب کا بڑا پن ہے کہ اب انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ انہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس وجہ سے وہ کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تین ماہ تو ان کی ٹیم کو یہ سمجھنے ہی میں لگ گئے کہ معاملات کیسے چلانے ہیں، پاور سیکٹر کی ڈیڑھ برس تک سمجھ ہی نہیں آئی۔ نتیجہ انہوں نے یہ نکالا کہ مناسب ٹریننگ اور تجربے کے بغیر کسی کو حکومت دینی ہی نہیں چاہئے جس وقت وہ یہ خطاب کر رہے تھے اس وقت تقریب میں موجود وزراء کے ماسک میں چھپے ہوئے چہروں کے باوجود آنکھوں کی بے چارگی بتا رہی تھی کہ وہ اپنے کپتان کی باتوں پر حیران و پریشان ہیں بھلا یوں بھی کوئی اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے،اب اس پر بہت سے لوگوں کو حیرانی ہو رہی ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم کے خلاف تحریک چل رہی ہے اور استعفا مانگا جا رہا ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم اپنی ناکامی اور ناتجربہ کاری کا اعتراف کر رہے ہیں،انہیں اندازہ ہو گیا ہو کہ یہ نظام جانے والا ہے، اور ایک بار پھر نئے مینڈیٹ کے لئے عوام کے پاس جانا پڑے گا،اس ساری اور پریشان کن صورتحال کے پیش نظر عمران خان سے تحریک انصاف کے لوگ بھی خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں حکومت کے ایک درجن سے زیادہ ارکانِ اسمبلی اپنا فیصلہ کرچکے ہیں اور اب وہ عمران خان کی ناکامیوں کا وزن اٹھانے سے معذرت خواہ ہیں، ان کے ایم این اے پہلے ہی دل ہی دل میں ناراض تھے کیوں کے ہر وزیر یا مشیر کے اوپر لازمی طورپر بیوروکریسی کا کوئی افسر ضرور لگاہواتھاجو کہ فی الحال ایک عجیب وغریب صورتحال تھی اور اس پر کارکنوں کی آہ بقا اب بیچارا ایم این اے اور ایم پی اے کرے تو کیا کرے یہ ہی صورتحال ان کے وزرا اور مشیروں کی رہی اس کے علاوہ عمران خان حکومت کی ایک اور خاصیت یہ بن گئی ہے کہ ایک طرف تو جن ٹیکنوکریٹس کو انھوں نے حکومت میں شامل کیا ہے وہ بھی نہ تو عوام اور نہ ہی عوامی نمایندوں کو اپنے حق میں کر سکے ہیں۔ ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشانات موجود ہیں،جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس وقت قومی معیشت، سیاست، اخلاق و تہذیب کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اور الٹا چور کوتال کو ڈانٹے کے مترادف اپنی غلطیاں سدھارنے کے اب آپ کرسی پر بیٹھ کر اپوزیشن کے لوگوں کو دھمکیاں ہی دے سکتے ہیں۔مہنگائی کنٹرول تو نہ ہوئی اس پر مہنگائی کا عفریت اس قدر پھیلادیا کہ ملک کی ستر سال کی سیاست بھی شرماگئی، اور بے حسی کی انتہا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ میں کوئی آٹے اور گھی کا بھاؤ دیکھنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا ہو،اس پر اب یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ اب آپ اس کرسی کا پیچھا چھوڑدیں اور عوام میں واپس آئیں، آپ کو آٹے دال کا بھاؤ عوام ہی بتائیں گے ، افسوس کہ اس حکومت کی مسلسل ناکامیاں ملکی سیاست دانوں کے خلاف سازشیں، حکومتی نااہلی اور ناکامی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے اس حکومت کا ایک ایک منٹ ملک اور قوم دونوں کے لیے ہی بہت بھاری ہے ،جہاں پنجاب میں ان کے وزیراعلیٰ کے خلاف وہاں کی عوام اور خود ان کے وزیردشمن بنے ہوئے ہیں وہاں اب کراچی میں سازش سے حاصل کیا گیا ووٹ بھی سخت مشکل میں ہے ،تحریک انصاف میں جو سندھی بولنے والے تھے وہ پارٹی چھوڑ گئے یا قیادت سے تنگ ہیں اس کا دیہی سندھ میں کوئی کردار نہیں بچا ہے اور جو غیر سندھی قیادت ہے وہ تو ویسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں جیسی ایم کیو ایم کرتی ہے جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا ہے اور وہ یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ہی حقیقی جماعت ہے۔سندھ میں تحریک انصاف نے ایک بار پھر شاہ محمود قریشی پر انحصار کیا لیکن یہ بھول گئے کہ سندھ میں جو ان کے پیروکار ہیں وہ پیر صاحب کے در پر حاضری دے سکتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دے سکتے۔جہاں تک عوام کو جگانے کی بات ہے توچیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت 27 فروری کو کراچی سے حکومت مخالف عوامی مارچ کا آغاز کیا گیا تھا، تاریخی اعتبار سے بلاول بھٹو زرداری نے جب سے پارٹی قیادت سنبھالی ہے یہ ان کی پہلی سیاسی مہم ہے۔ اس سے قبل وہ صرف جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے رہے ہیں لیکن ملکی سطح پر ان کا یہ پہلا مارچ ہے جس میں ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی شریک تھی اور اس مارچ کی کامیابی کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ اپوزیشن کے تمام دھڑے یکسوئی کے ساتھ آج ایک پلیٹ فارم پر موجود ہیں بلاول بھٹو کے ساتھ میں سابق صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی سیاست میں حالیہ ہلچل کا کریڈٹ دیتا ہوں۔ انہوں نے نہ صرف اپوزیشن رہنماوں کو دوبارہ متحد کیا بلکہ لانگ مارچ کے ذریعے عوامی دباؤ بھی بڑھا دیا ہے،اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے لوگ اب بلاول بھٹو کا بیانیہ سمجھ رہے ہیں،اس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کے وزیراعظم کا وہ سفید جھوٹ بھی ہے جس میں انہوں نے عوام سے پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا بدلے میں لوگوں کے گھر گرا دیے گئے، حکومت نے کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے لوگوں کو بے روزگار کیا،اس لیے عام آدمی سمجھتا ہے کہ بلاول ان کے دل کی بات کررہے ہیں۔پیپلزپارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کا اگر زکر کریں تو ہمیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نئے انتخابات چاہتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نئی منتخب عوامی جمہوری حکومت ہی ملک کو اس دلدل سے نکال سکتی ہے، وہ پیپلز پارٹی کو عوام کی مشکلات کو حل کرنے، ملک کی سیاسی، معاشی، خارجی و داخلی مسائل کے حل کے لیے اہل سمجھتے ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے اس لانگ مارچ کے لیے پیپلز پارٹی کے اغراض و مقاصد بالکل واضح اور کھول کر عوام کے سامنے رکھے تاکہ عوام ان کے ساتھ کھڑی ہوجائے تاکہ وہ لوگوں کو موجودہ حکومت کی مکروہ تبدیلی کے شیطانی اثرات سے نجات دلاسکیں، اور پاکستان کو ایک بہتر، ترقی یافتہ روشن خیال پاکستان بنانے کی ڈگر پرڈال سکیں۔ختم شد ۔
 

Taimoor Meher
About the Author: Taimoor Meher Read More Articles by Taimoor Meher: 15 Articles with 14852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.