موسمیاتی آفات اور عالمی لائحہ عمل

روس اور یوکرین کے درمیان موجودہ تنازعہ کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق 30 مارچ تک اس تنازعے کی وجہ سے کم از کم 40 لاکھ یوکرائنی پناہ گزینوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ہے۔یکم اپریل تک اس تنازعے کے باعث 1,276 یوکرائنی شہری ہلاک اور 1,981 زخمی ہوئے ہیں۔ یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد مہاجرین کی آمد کے حوالے سے سب سے بڑے دباؤ کا سامنا ہے۔اس سے نہ صرف عالمی توانائی کے وسائل اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والا یورپی سلامتی اور بین الاقوامی نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ ایک موقع پر، روس نے یہاں تک اشارہ دیا ہے کہ اگر اس کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ روس۔یوکرین تنازعہ کے ساتھ ساتھ دنیا کو بدستور کووڈ۔19کا بھی سامنا ہے جس نے انسانیت کے تحفط اور بقاء کے لیے سنگین چیلنجز لائے ہیں وبا نے انسانی زندگی اور معاش میں شدید خلل ڈالا ہے اور پوری دنیا کی معیشتوں اور سپلائی چین کو بھی متاثر کیا ہے۔

انہی تمام چیلنجز کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کا عفریت بھی بنی نوع انسان کے لیےایک مشکل آزمائش ہے جو فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔ آج، موسمیاتی تبدیلی دنیا کے تقریباً سبھی ممالک پر اثرانداز ہو رہی ہے اور گزشتہ سال موسمیاتی آفات کی ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے۔ جنگل کی آگ، خشک سالی اور گرمی کی لہروں سے لے کر یورپ اور چین میں سیلاب تک جس سے 3.4 بلین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جو مجموعی عالمی آبادی کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حقیقی اور پائیدار موسمیاتی تبدیلی کے حل کی ضرورت آج کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ وبائی صورتحال کے پہلے برس 2020 میں ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں کمی واقع ہوئی کیونکہ معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار تھیں۔ متعدد حلقوں نے اُس وقت یہ امید ظاہر کی تخفیف کاربن اخراج ایک نیا رجحان بن جائے گا، جس سے سبز بحالی کی جانب بڑھا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ جیسے ہی 2021 میں اقتصادی سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہوئیں، عالمی سطح پر کابن اخراج میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی تازہ ترین رپورٹ واضح کرتی ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران انسانیت نے عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے اضافے کی اجازت دی ہے۔جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے کہ کاربن اخراج میں کمی اور موسمیاتی اثرات کے مطابق دنیا کو ڈھالنے کی ضرورت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ مشکل اور پیچیدہ صورتحال کے باوجود دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے نمایاں ماحول دوست اقدامات سامنے آئے ہیں ، جن میں ممالک، شہروں اور کمپنیوں کے ذریعے کاربن اخراج میں کمی اور ڈی کاربونائز کے وعدے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 155 ممالک نے کاربن اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ایکشن پلانز جمع کروائے ہیں، 83 ممالک نے زیرو کاربن اہداف کا اعلان کیا ہے، جی سیون معیشتوں اور چین نے کوئلے کی بیرون ملک فنانسنگ روکنے کا عزم کیا ہے۔چین چونکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سمیت دیگر کثیر الجہتی تعاون میکانزم کے تحت دنیا کا اہم شراکت دار ہے ، لہذا چین کی ماحول دوست ترقی کے لیے اقدامات کی ایک کلیدی حیثیت ہے۔چین نے اپنی عالمی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے اہداف کااعلان کرتے ہوئے دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔
اسی طرح نومبر 2021 میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں دنیا نے جنگلات کی کٹائی کو روکنے، میتھین کے اخراج میں کمی، گاڑیوں کی برق کاری میں اضافہ، کوئلے کی کھپت کو کم کرنے اور مزید ماحول دوست وعدوں کا ایک سلسلہ دیکھا ہے۔ مجموعی اعتبار سے یہ وعدے اور عزائم دنیا کو مزید پائیدار ترقیاتی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے تمام شعبوں میں درکار انتظامی تبدیلیوں کے لیے ایک واضح سمت کا تعین کرتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1159 Articles with 457876 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More