|
|
ہم میں سے بیشتر افراد ریسٹورنٹ کھانے کے لیے جاتے ہیں،
آرڈر کرتے ہیں- ڈھيروں منگوا کر نصف کھاتے ہیں اور سير ہونے کے بعد باقى
پھینک دیتے ہیں اور ہميں کچھ نہیں ہوتا، کوئى احساس ندامت بھی نہیں- |
|
اس طرح دنیا کا چالیس فیصد کھانا روزانہ ضائع ہوتا ہے جب
کہ لاکھوں افراد بھوکے سوتے ہیں- مگر ہميں کبھى اس بات سے کوئی فرق نہیں
پڑتا غرض ضائع کرنا ہمارى عادت سى بن گئی ہے اور عام بات لگتی ہے- اس مسئلے
کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنى عادت کو نہ بدل ليں- اس کے لیے
ٹھوس اقدامات کرنے سے ہى مسئلے سے چھٹکارا ممکن ہے- |
|
جنوبی کوریا دنيا میں سب سے زیادہ کھانا ضائع کرنے والے
ممالک میں شمار ہوتا تھا کیوں کہ یہاں ایک ڈش میں کھانا نہیں آتا بلکہ
مختلف چھوٹے چھوٹے حصوں میں تھوڑى تعداد میں زيادہ کھانا لایا جاتا ہے، اس
طرح بيک وقت بہت سى ڈشز تيار کى جاتى ہیں چاہے ايک فرد ہى کيوں نہ ہو- |
|
|
|
چونکہ کھانا بہت زيادہ ہوتا ہے اسى لئے فى کورین اوسط
اتنا کھانا نہیں کھا پاتا لحاظہ کھانا کوڑے میں پھینکنے میں ذرا بھی دیر
نہیں لگاتے اور نہ ہی قباحت محسوس کرتے ہیں- کوريا ميں اوسطاً فی فرد 132
کلو سالانہ کھانا ضائع ہوتا ہے جو کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کہيں زیادہ
ہے- |
|
اس مسئلہ کے حل کے لیے کوريا کى حکومت نے ايک
منفرد قانون تشکيل ديا کہ بچا ہوا کھانا اب مفت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بھی
پیسے دینے پڑیں گے یعنی کہ جو آپ نے نہیں کھایا اس کی بھی رقم ادا کرنی پڑے
گی، ہر ایک دن اور ایک کھانے کی- |
|
اس کے لیے ایک خاص منصوبہ بنایا گیا کہ ہر وہ کھانا جو
بچا ہوگا، وہ پھینکنے کے بجائے ايک مشين میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے حساب
سے رقم ادا کى جاتى ہے تو وہاں کا شہرى جتنا کھانا ضائع کرے گا، اتنا ہى
مہنگا پڑے گا- |
|
يہى نہيں اس سے حاصل کردہ رقم حکومت رى سائيکلنگ کے شعبے
کے لئے استعمال کى جاتى ہے- |
|
|
|
دلچسپ پہلو يہ ہے کہ قانون شکنى کى صورت میں لگائے گئے
سيکيورٹى کيمرے از خود سب بتا ديتے ہیں اور اس کے بعد متعلقہ شخص کو حکومت
نہ صرف ڈھونڈ نکالتى ہے بلکہ جرمانے کى صورت میں بھارى رقم ادا کرنی پڑسکتى
ہے- |
|
يہ قانون ايسا سود مند ثابت ہوا کہ اب 10 میں سے صرف 1
گھر کھانا ضائع کرتا ہے- دیگر گھرانوں نے بھی کھانے کا فضلات کو10 فيصد کم
کر دیا ہے - |
|
جمع شدہ خوراک بائيو ايندھن، توانائى اور جانوروں
کى خوراک میں بدل دى جاتى ہے- اس طرح محض 2 فيصد رى سائيکلنگ کرنے والا ملک
98 فيصد پہ لے آيا يعنى کہ 95 فيصد خوراک ضائع نہیں ہوتى- يہى وجہ ہے کہ
جنوبى کوريا کھانے کے فضلہ کى رى سائيکلنگ میں عليحدہ مقام رکھتا ہے- |
|
اگر دنيا میں يہى قانون لاگو ہوجائيں تو خوراک کى کمى کا
خاتمہ ہوجائے اور بھوک و افلاس کا نام ونشان نہ رہے- اسى حکمت کے پيش نظر
چودہ سو سال قبل ہميں ميانہ روى کا حکم ديا گيا تھا، جس پہ آج غير مسلم عمل
پيرا ہیں- |