کراچی جیسا ایک میگاسٹی قابل بھروسہ پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے بغیر کیسے زندہ رہتا ہے اور کام کرتا ہے؟ ایک معمہ

image
 
پبلک ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کے شہریوں کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ پچاس پرائیوٹ گاڑیوں کے مقابلہ میں ایک پبلک بس نہ صرف ایندھن بچاتی ہے بلکہ کم آلودگی کا بھی سبب بنتی ہے۔ ہماری بیشتر آبادی پرائیوٹ ٹرانسپورٹ رکھنے کی حامل نہیں ہے۔ اپنی سیکیورٹی اور وقت کی بچت کے لئے مڈل کلاس آبادی اپنا پیٹ کاٹ کر پرائیوٹ گاڑیاں افورڈ کر بھی رہے ہیں تو ٹریفک جام نے انکی کمر توڑی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑیوں کا حشر نشر کر رکھا ہے۔
 
سونے پہ سہاگہ کراچی شہر میں ٹریفک جام ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ ڈکیتوں کو ہوتا ہے۔ ادھر گاڑی رکی ادھر یہ وارد ہوگئے۔ ٹریفک جام ڈکیتی، ایمبولینس میں مریضوں کی موت، اور تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹریفک جام کی وجہ سے درآمدی ایندھن بہت مہنگا پڑتا ہے غرض مسائل بیشمار آخر ہم کن کن مسائل کو روئیں۔ لیکن ان مسائل کی نشاندہی ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے لازمی ہے۔
 
کراچی شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت ماس ٹرانزٹ سسٹم کو مناسب طریقے سے وسعت نہیں دے رہی ہے۔ حکام کے لیے یہ شرمناک ہونا چاہیے کہ لوگ اپنے خستہ حال نظام پر پرائیویٹ گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے دیگر مسائل میں ناقص انفراسٹرکچر اور محکمہ ٹریفک میں بدعنوانی شامل ہے۔ دنیا میں ہر جگہ کنسٹرکشن شروع کرنے سے پہلے متبادل راستے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس یہاں لوگوں کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور کھلے مین ہولز سے خود ہی نمٹنا پڑتا ہے۔
 
image
 
پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیورز جن کے سیاسی تعلقات ہوتے ہیں تیز رفتاری اور دیگر خلاف ورزیوں سے فرار ہو جاتے ہیں، کمزور قانونی نظام کی وجہ سے انہیں سزا نہیں دی جا سکتی۔
 
ایک بڑا مسئلہ مسافروں کی اوور لوڈنگ ہے (اوسط 45 مسافر فی بس)۔ نصف سے زیادہ مسافروں کو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی، خاص طور پر رش کے اوقات میں (صبح 8 سے 9:30 اور شام 5 بجے سے شام 7 بجے تک )۔ وہ دروازوں کے کنارے پر لٹکنے یا چھت پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ یہ مسئلہ زیادہ تر بڑی مانگ کو پورا کرنے کے لیے دستیاب بسوں کی کمی کی وجہ سے ہے۔
 
کراچی جیسا ایک بڑا شہر قابل بھروسہ پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے بغیر کیسے زندہ رہتا ہے اور کام کرتا ہے یہ ایک معمہ ہے جو بہت سے لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہر 1500 افراد کے لیے 100 سیٹوں والی بس ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں سڑکوں پر چلنے والی بسوں کی تعداد اس حساب کتاب سے بہت کم ہے۔ زیادہ تر محنت کش طبقے کے لوگ پرائیویٹ گاڑیاں برداشت نہیں کر سکتے اس لیے وہ پبلک ٹرانسپورٹ سروسز پر انحصار کرتے ہیں۔
 
 پبلک ٹرانسپورٹ پالیسی بنانے والوں نے بہت سی مختلف پالیسیاں بنائی ہیں۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے2019 میں ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان 2030 کا اعلان کیا تھا جس میں چھ بس ٹرانزٹ روٹس (BRT) کا وعدہ کیا گیا تھا۔جس کے تحت یہ راستے 95.1 کلومیٹر پر محیط ہوں گے اور روزانہ تقریباً 350,000 لوگوں کو ٹرانسپورٹ فراہم کریں گے۔
 
image
 
سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ قادری نے کہا تھا "ہم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے موجودہ مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اسی لیے ہم نے کراچی میں بی آر ٹی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہو گا ۔آنے والے دنوں میں بی آر ٹی اور ریلوے منصوبوں کو فوری طور پر نافذ کیا جائے گا اور ان کو عالمی معیار کے مطابق برقرار رکھا جائے گا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ منصوبے بدعنوانی سے پاک ہوں گے، حفاظتی معیارات کو برقرار رکھیں گے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی بہت زیادہ مانگ کو پورا کرنے میں مدد کریں گے،" -
 
2022 آگیا آخر یہ وعدے ہیں کہاں!!
YOU MAY ALSO LIKE: