قدرت کا انمول تحفہ

ہر انسان کے لیے والدین قدرت کاانمول تحفہ ہیں ۔ والدین ایک طرف بچوں پر اپنی جان تک نچھاور کرتے ہیں تو دوسری جانب اسے دنیا کا کامیاب ترین انسان بنانے کے لیے اپنا تن من دھن حتی کہ سب کچھ قربان کردیتے ہیں ۔کہاجاتا ہے کہ ایک نومولود بچے نے رب کائنات سے عرض کی: اے پروردگار دنیا میں پہنچ کر تو میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ اپنی خوراک تلاش کرسکو ٗ اپنے اچھے برے کو محسوس اور اپنی جان کی حفاظت کرسکوں تو اس حالت میں ٗ میں کس طرح دنیا میں رہ کر زندگی کے نشیب و فرازسے عہدہ برآ ہوسکوں گا ؟ پروردگار نے فرمایا ایک خالق کی حیثیت سے میں اپنی مخلوق پر اس کی اوقات سے زیادہ وزن نہیں ڈالتا۔ تمہاری پرورش ٗ خوراک ٗ تعلیم و تربیت ٗ سردی گرمی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے میں نے تم پر ایک فرشتہ مقرر کررکھاہے جسے لوگ " ماں " کہتے ہیں ۔ایک اور فرشتہ جو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے تمہیں زمین پر اعتماد سے چلناٗ معاشرے میں باوقار طریقے سے رہنا اور اپنا رزق تلاش کرنے کا طریقہ سکھائے گا اس فرشتے کو لوگ "باپ"کہتے ہیں- سچ تو یہ ہے کہ انسان پوری عمر بھی والدین کی خدمت اور اطاعت میں گزار دے، تب بھی والدین کا احسان نہیں اتار سکتا ۔ جبکہ والدین کی خدمت کا صلہ قدرت الہی کے ہاں بہت مقبول ہے ۔ایک مرتبہ اﷲ تبارک و تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جاکر ہماری قدرت کانظارہ کریں ۔ آپ علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے لیکن وہاں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ آپ علیہ السلام نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگاکر اندر کی خبرلاؤ لیکن یکے بعد دیگر تین جن سمندر کی تہہ میں اترتے اور مایوس واپس لوٹتے رہے پھر آپ علیہ السلام نے اپنے غلام حضرت برخیا ؓ کو حکم دیا۔ وہ سمندر کی تہہ میں اترے اور چار دروازوں والا سفید گنبد نکال کر لے آئے یہ چاروں دروازے موتی ٗ یاقوت ٗ ہیرے اور زمرد کے بنے ہوئے تھے، چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود سمندر کے پانی کاکوئی قطرہ گنبد کے اندر نہیں تھا۔ اس گنبد کے اندر ایک حسین و جمیل نوجوان نماز پڑھنے میں مشغول تھا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہواتو آپ علیہ السلام نے سمندری گنبد کا راز اس نوجوان سے دریافت کیا ۔اس نے عرض کیا یا نبی اﷲ میرے ماں باپ معذور تھے والدہ نابینا تھی میں نے 50 سال ان کی خدمت کی میری والدہ نے انتقال سے پہلے دعا کی تھی ۔اے اﷲ میرے بیٹے کو درازی عمر بالخیر عطا فرما پھر جب میرے والد کی موت کالمحہ آیا تو انہوں نے دعا فرمائی ۔اے اﷲ میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت پر لگا جہاں شیطان مداخلت نہ کرسکے ۔والدین کی تدفین کے بعد جب میں ساحل سمندر پر آیا تو مجھے یہ سفید گنبد نظر آیا میں اس کے اندر داخل ہو کر عبادت کرنے لگا۔ اتنے میں ایک فرشتہ آیا اس نے گنبد کو سمندر کی تہہ میں اتار دیا ۔اس نوجوان نے بتایا کہ حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کے مقدس دور سے یہاں آیا ہوں، حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا گویا تم دو ہزار سال سے اسی گنبد میں اﷲ کی عبادت میں مصروف ہو ۔ اس نے کہاجی ہاں روز ایک سبز پرندہ اپنی چونچ میں کوئی زرد چیز لاتا ہے دنیا کی تمام نعمتوں کی لذت اس میں ہوتی ہے ۔ میں وہ کھا لیتا ہوں جس سے میری بھوک اور پیاس ختم ہوجاتی ہے ۔رلانا ٗ تیز اور ترش نگاہ سے دیکھنا ٗ تکبرانہ انداز سے ان کے آگے چلنا ٗ توہین کرکے تکلیف پہنچانا ٗ والدین کی خامیاں لوگوں سے بیان کرنا ٗ جھڑک کربولنا ٗ حکم نہ ماننا ٗ فضول تکرار کرنا والدین کی نافرمانیوں میں شامل ہے ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں والد کی دعا ٗ مظلوم کی دعا اورمسافر کی دعا رد نہیں ہوتی ۔یہ ضروری نہیں کہ زندگی میں ہی صرف والدین سے حسن سلوک کیا جائے بلکہ مرنے کے بعد بھی والدین بچوں کے حسن سلوک کے اسی طرح مستحق قرار پاتے ہیں جس طرح زندگی میں ۔حضرت ابو اسید ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا میرے والدین کی فرماں برداری میں سے کچھ ان کی وفات کے بعد بھی باقی رہ گیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں چار قسم کی چیزیں باقی ہیں۔ انکے لیے دعا اور استغفار کرنا ٗ ان کے عہد کو پورا کرنا ان کے دوستوں کااحترام کرنا ٗ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا ۔حضرت فضل بن موفق ؓ فرماتے ہیں میں ایک جنازے میں شریک قبرستان پہنچا تو والد کی قبر پر جانے کی بجائے میت کو دفنا کے گھر لوٹ آیا اسی رات والد خواب میں مجھے ملے اور فرمایا کہ بیٹے تم قبرستان آئے بھی لیکن میری قبر پر کیوں نہیں آئے ۔ آپ نے کہا ابا جان آپ کو کیسے پتہ چل گیا۔ والد نے کہا خدا کی قسم جب تو میری قبر پر آتا ہے تو میں تجھے گھر واپس لوٹنے تک دیکھتا رہتا ہوں۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اولاد اور والدین کا رشتہ صرف وقتی یاواجبی نہیں بلکہ دنیا اور آخرت کے کسی پہربھی اس رشتے کی اہمیت اور افادیت کوکم نہیں کیا جاسکتا ہے دنیا میں ہر انسان اپنے والد کے نام سے پہچانا جاتا ہے جبکہ قیامت کے دن ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا ۔اسی لیے تو کہاجاتا ہے کہ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کی دعاؤں میں ولی کامل کا اثر پیدا ہوجاتا ہے بلکہ اﷲ نے بندے سے اپنی محبت کو ماں سے تشبیہ دے کر اس کے مقام کو اور بھی بلند کردیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی مرد باپ بنتا ہے تو اولاد کی پرورش اور تحفظ کے حوالے سے اس کا ہر عمل اﷲ کے ہاں مقبول ہوجاتا ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.