مالک مکان

میں نے مو بائل آن کیا تو سلطانہ باجی کی آہوں سسکیوں ہچکیوں بلکہ دھاڑیں مارتی پر سوز آواز میری سماعت سے ٹکرائی ۔بھائی جان میں رات سے آپ کو کال کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن آپ کا فون آف تھا میرے اوپر قیامت گزر گئی میں پریشان برباد ہو گئی میرا واحد سہارا دنیا سے چلا گیا میرا مالک مکان رات کو انتقال کر گیا وہ نیک انسان اب اس دنیا میں نہیں رہا بیچاری خوب رورو کر مجھے اپنے مالک مکان کی وفات کی خبر سنارہی تھی میں بھی مالک مکان کو خوب جانتا تھا میری بھی اُس سے کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں یہ خبر میرے لیے بھی بہت دل چیرنے والی تھی مجھے بھی بہت جھٹکا لگا میں بھی بہت سو گوار ہو گیا دنیا ایک اچھے انسان سے محروم ہو گئی تھی میں او ر سلطانہ باجی دیر تک مالک کی باتیں کرتے رہے وہ واقعی بہت اچھا انسان تھا میری پور پور غم میں ڈوب گئی تھی مجھے چند سال پہلے کا وہ دن یاد آگیا جب میری مالک صاحب سے پہلی ملاقات ہو ئی تھی سلطانہ باجی اپنی بیٹیوں کے رشتوں کی وجہ سے بہت پریشان تھیں بیوہ عورت جوان بیٹیوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی تھی لوگ رشتہ لے کر آتے جب پتہ چلتا کہ مکان کرائے کا ہے باپ سر پر نہیں ہے ماں بچوں کو ٹیوشن اور لڑکیاں مختلف دفتروں میں نوکری کرتی ہیں خاندان کا نام بھی نہیں لاوارث سمجھ کر لوگ رشتہ پسند کر کے بھی چھو ڑ جاتے ہیں اِس تلخ حقیقت کی وجہ سے رشتے نہیں ہو رہے تھے جب رشتے نہیں ہو رہے تھے تو روحانی علاج اور رشتوں کی بندش ختم کرانے کے سلسلے میں سلطانہ باجی مختلف بابوں سے گزر کر میرے پاس پہنچ گئیں مجھے جب پتہ چلا باجی بیوہ اور بچیاں یتیم ہیں تو میں نے خاص توجہ دینی شروع کر دی میں نے مختلف ذکر اذکار باجی کو اور بچیوں کو بتائے جو انہوں نے دل جمی سے کرنا شروع کر دئیے باجی کو کسی عامل نے وہم ڈالا تھا کہ اُس کے گھر پر آسیبی اثرات ہیں جب تک کوئی عامل اُس گھر میں جا کر پڑھائی نہیں کرے گا گھر صاف نہیں ہو گا اِس لیے باجی پہلے دن سے بضد تھیں کہ اُن کے گھر کا چکر لگاؤں اور جاکر پڑھائی کروں تاکہ آسیبی اثرات ختم ہو جائیں پھر رشتے آسانی سے ہو جائیں گے شروع میں تو میں ٹال مٹول کر تا رہا لیکن جب باجی سلطانہ اور بچیوں نے بہت درخواست کی تو آخر کار میں اِن کی تسلی کے لیے اُن کے گھر میں گیا دس مرلے کا خوبصورت پتھر ٹائل والا گھر تھا جس کو بہت شوق سے بنایا گیا تھا باجی نے گھر کو صاف ستھرا رکھا ہوا تھا میرے گھر آنے پر بہت زیادہ خوش تھیں میں نے قرآنی آیات کا ورد کیا اُن کی تسلی کے لیے بند کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی بھی کر دیں پڑھائی کے بعد چائے وغیرہ کے دوران میں نے باتوں باتوں میں پوچھا باجی گھر تو بہت شاندار اچھا بنا ہوا ہے اِس کا تو کرایہ بھی بہت ہو گا آپ کی آمدنی تو بہت محدود ہے آپ کس طرح یہ مہنگا بڑا گھر افورڈ کرتی ہیں تو باجی بولی بھائی میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی اِس گھر کا کرایہ صرف دس ہزار ہے لوگوں کو میں چالیس ہزار بتاتی ہوں جبکہ سچ یہ ہے کہ اِس کا کرایہ صرف دس ہزار ہے جو پچھلے پندرہ سالوں سے اتنا ہی دے رہی ہوں دس ہزار سن کر میں الرٹ ہو گیا حیرت سے باجی کی طرف دیکھ کر بولا واقعی اِس گھر کا کرایہ صرف دس ہزار ہے اور پچھلے پندرہ سالوں سے اِس کا کرا یہ نہیں بڑھایا گیا تو باجی بولی جی بھائی جان مالک مکان فرشتہ صفت ہے سالوں پہلے جب میں کرائے دار کے طور پر اِس گھر میں آئی تو مالک مکان نے مجھے بے آسرا سمجھ کر یہ گھر دس ہزار کرائے پر دے دیا اُس وقت میں اور میری بچی نوکری کرتے تھے ایک سال بعد جب کرایہ بڑھانے کا وقت آیا تو مالک بولے باجی میں نے ایک سال میں آپ کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے آپ اور آپ کی بیٹیاں نیک خاندان سے ہیں آپ اِسی کرائے پر میرے گھر میں رہیں میں آپ سے سالانہ کرایہ نہیں بڑھاؤں گا پھر پانچ سال گزر گئے تو میں نے کہا بھی مالک سے کہ اب ہمارا گھریلوپارلر بھی اچھا چلنے لگا ہے آپ کرایہ بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھا لیں تو مالک بولا باجی اپنی چھوٹی بیٹی کو خوب تعلیم دلائیں میں کرایہ نہیں بڑھاؤں گا بلکہ جب تک میری زندگی ہے آپ دس ہزار کرایہ ہی دیں گی پھر سالوں پر سال گزرتے چلے گئے اب پندرہ سال ہو گئے ہیں میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مالک کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتی ہوں پھر میں اور باجی دیر تک مالک کی خوبیوں پر باتیں اور دعائیں دیتے رہے مالک مکان کی انسان نوازی میرے دل میں اُتر کر مجھے اُس کا گرویدہ کر گئی تھی میں واپس آنے لگا تو باجی سے کہا جب آپ کا مالک کبھی لاہور آئے تو مجھے بتا ئیے گا میں اُس سے ملوں گا کیوں کہ وہ لاہور سے دورکسی دوسرے شہر کا رہنے والا تھا پھر میں خوبصورت تجربے کے بعد واپس آگیا جلد ہی دعائیں رنگ لائیں سلطانہ باجی کی بیٹی کا رشتہ ہو گیا نکاح کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی تو باجی نے مجھے خوشخبری سنائی کہ مختصر نکاح کی تقریب مالک مکان بھی آرہے ہیں باجی نے میری کوئی کتاب مالک کو دی جو اُس کو پسند آئی مالک نے بھی خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی پروفیسر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں باجی نے مجھے بھی دعوت دی لہذا میں بھی مقرر ہ دن بیٹی کے نکاح میں شریک ہوا تو مالک سے بھر پور ملاقات ہوئی نمبروں کا تبادلہ بھی کیا کہ جلدی ملاقات ہو گئی پھر جلدی ہی جب مالک لاہور آیا تو مُجھ سے بھی ملنے آیا تو بو لا پروفیسر صاحب مُجھ پر اﷲ کا خوب کرم ہے ایسی تسبیح عمل بتائیں کہ آخرت میں سرخرو ہو جاؤں تومیں بو لا جناب جو نیکی آپ سالوں سے سلطانہ باجی کے ساتھ کرائے کی شکل میں کر رہے ہیں یہ آپ کو جنت کا حقدار بنا ئے گی تو عاجزی سے بولے جناب یہ راز تھا جو باجی نے آپ کو بتا دیا میں کونسا اپنے پاس سے کر تا ہوں اﷲ کے دئیے سے ہی کرتا ہوں پھر انہوں نے مکان کے حوالے سے اپنی وصیت بھی مجھے بتادی کہ اُن کے مرنے کے بعد وہ کیا چاہتے ہیں اِس کے بعد کبھی فون پر رابطہ ہو جا تا وہ لاہور آتے تو ضرور ملنے کی کو شش کر نے مجھے بھی ان کی انسان دوستی بہت پسند تھی میں بھی اُن کی قربت بہت پسند کر تاتھا وہ اِس مردہ بانجھ معاشرے کے توازن میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے کسی تشہیر کے بغیر وہ زندہ ولی کے طور پر بے آسرا خاندان کا آسرا بنے ہوئے پھر آج سلطانہ باجی کا فون آیا کہ وہ اِس دنیا میں نہیں رہے میں نے دوبارہ باجی کو فون ملایا اور کہا باجی وہ فرشتہ جاتے جاتے بھی ایک بڑا کام کر گیا ہے وہ یہ مکان اپنی زندگی کے بعد آپ کے نام کر گئے ہیں آپ کے کرائے کے پیسے بھی آپ کی بیٹیوں کی شادی کے لئے آپ کو مل جائیں گے میں نے وہ نمبر دیا جس کے پاس وصیت کے کاغذ تھے باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں نے مالک کی تصویر نکالی اپنے ہونٹ تصویر پر رکھ دئیے گلوگیر لہجے میں بولا یار تم جیسے فرشتوں کو جانا نہیں چاہیے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.