کیا آزادی کا مطلب سڑکوں پر نکلنا ہے، بے مقصد آزادی نہیں چاہیے مجھے بااختیار بننا ہے

image
 
سارہ ایک آزاد خیال لڑکی تھی۔ یونیورسٹی کی بےباک طالبہ ہر میدان میں آگے رہنے والی، آجکل آزادی نسواں کی تحریکوں میں سرگرم تھی۔ اس کے والد سلیم صاحب نے اسے کبھی روک ٹوک نہیں کی وہ اپنی بیٹی میں کسی قسم کی محرومی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی بیٹی ایک ہمدرد دل رکھتی ہے اور ساتھ ہی وہ کافی سمجھدار بھی ہے ۔ بس انھوں نے اپنی بیٹی کو کہا ہوا تھا کہ ماں باپ کی عزت پر آنچ نہ آنے دینا۔
 
سارہ عورت مارچ کے لئے کافی دنوں سےسرگرم تھی لیکن وہ اب کچھ الجھن محسوس کر رہی تھی اسے تو ان سرگرمیوں میں آزادی کا مقصد گم ہوتا نظر آیا ۔ اس کے نزدیک عورت کی آزادی کا مقصد عورت کو بااختیار دیکھنا ہے۔ لیکن کیا بااختیار ہونے کا مطلب سڑکوں پر نکلنا تھا؟ وہ تو کمزور عورت کو بااختیار بنانا چاہتی تھی پھر اس نے اس الجھن کے حل کے لئے فیصلہ کیا کہ بس اب اس کا مقصد عورتوں کو تعلیم دلوانا ہے۔ اس نے اپنے والد سے بات کی سلیم صاحب کو اپنی تربیت پر ناز تھا انھیں پتا تھا ان کی بیٹی بہت جلد صحیح مقصد کو پا لے گی اور پھر انہوں نے اپنی بیٹی کا لڑکیوں کے لئے اسکول فنڈنگ میں بھرپور ساتھ دیا۔
 
سارہ کی طرح ہم سب کو بھی یہ امر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کی آزادی کا مقصد کیا ہے۔تعلیم اور کسی ہنر کے ذریعے انکو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ مردوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ کسی کی محتاج نہ ہوں اور ایک مضبوط عورت کے طور پر ایک کامیاب خاندان تیار کر سکیں۔ دونوں صنف اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ مرد جسمانی طور پر مضبوط ہیں تو عورت ایک خاندان کو جنم دیتی ہے۔ دونوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔
 
image
 
اب دیکھنا یہ ہے کہ عورت کو بااختیار کیسے بنایا جائے؟ سب سے پہلی راہ تو تعلیم ہے۔ کم از کم پرائمری تک مفت تعلیم فراہم کرنے کے لئے اسکولوں کی تعمیر کی جائے جس کے لئے فنڈز اکٹھا کئے جائیں۔ اور پسماندہ علاقوں میں جا کر شعور پیدا کیا جائے کہ لڑکیوں کے لئے تعلیم لازمی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے جس طرح کرونا ویکسینیشن میں حکومت کوشاں تھی اسی طرح عورتوں کو تعلیم نہ دلوانے پر کوئی سزا مختص کی جائے۔
 
دوسرا دستکاری سنٹرز قائم کیے جائیں جہاں ان کو دستکاری وغیرہ سکھائی جا سکے تاکہ نہ صرف وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے بلکہ اپنے خاندان اور ملک کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ جب وہ مضبوط ہوں گی تو میرا نہیں خیال کہ ان کے حقوق کوئی سلب کر سکے گا۔ ہمیں تو اپنے مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے ہیں۔ عورت کو آزادی تو ہمارے مذہب ہی نے دی ہے اور آج یہ مادر پدر آزاد مغرب ہمیں عورت کی آزادی سکھاتے ہیں۔
 
image
 
اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: