زندگی کیا ہے یہ بات اکثر ہم کو سوچنے پر مجبور کر دیتی
ہے کبھی کبھی تو لگتا ہے زندگی ایسی نعمت ہے۔ جو دل کرتا ہے کبھی ختم نہ ہو
ہمارے اردگرد جو ہمارے اپنے ہیں کبھی ہم سے نہ بچھڑیں۔ وقت رک جاۓ اور ہم
زندگی کو اتنا انجوائے کریں جتنا کرنے کا حق ہے ۔ اور کبھی کبھی ہم زندگی
سے اتنا اکتا جاتے ہیں یوں لگتا ہے یہ کوئی سزا ہے جو ہم کو مسلسل مل رہی
ہے ۔ دل کرتا ہے ہمارے پاس کوئی نہ آئے ہم سے کوئی بات نہ کرے بس انسان
چاہتا ہے سانس بند ہو اور جان نکل جاۓ اور کہانی ختم ۔ مگر ان دونوں باتوں
کے برعکس تیسری اہم بات یہ ہے کہ زندگی اللّه پاک کی دی ہوئی وہ امانت ہے
جسے اللہ پاک جب چاہے واپس لے لیں ۔ اس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں کوئی
بس نہیں یہ تو اس امتحان جیسی ہے جس کے پیپر کو حل کر نے کے لیے اللہ تعالی
نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم اسکول یا کالج میں امتحان
کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں ایک سادہ کاغذ تھما دیا جاتا ہے اور کچھ سوال کا
آپشن دے دیا جاتا ہے کہ ان میں سے اتنے سوالوں کا آپ نے صحیح جواب دینا ہے
۔اور ہم نے انہیں سوالوں میں سے جواب لکھنا ہوتا ہے جو ہمیں پڑھایا گیا ہوں
یا سکھایا گیا ہو۔ اگر ہم اپنی طرف سے اس سوال کے جواب میں کوئی ملتے جلتے
لفظ بھی لکھتے ہیں تو قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اور ہم کو اس پیپر میں فیل کر
دیا جائے گا اور اس پیپر کو دوبارہ لکھنے کا موقع بھی نہیں ہوگا اس کے لئے
ہمیں ایک سال کا انتظار کرنا پڑے گا دوبارہ امتحان دینے کے لئے ۔ بالکل
زندگی بھی اس طرح ہے اللہ تعالی نے جو احکام ہم کو دے کر بھیجے ہیں ہم نے
اسی پر عمل کرنا ہے۔ اپنی طرف سے اس میں نہ کوئی کمی کرنی ہے نہ کوئی اضافہ
کرنا ہے۔ بلکہ زندگی کا پیپر تو بہت آسان ہے اور واضح طور پر ہمکو بتا دیا
گیا ہے۔ کہ یہ راستہ جنت کی طرف جاتا ہے اور دوسرا جہنم کی طرف ۔ اب یہ ہم
پر میسر ہے کہ ہم اس کو کس طرح حل کرتے ہیں اور زندگی وہ امتحان ہے جس میں
دوسرا موقع نہیں ملتا۔ یعنی جب تک سانس ہے تب تک چانس ہے سانس ختم چانس ختم
۔کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کے سامنے سے ایک جنازہ جا رہا تھا اور اور اس بزرگ
نے اپنے قریب کھڑے ہوئے آدمی سے پوچھا یہ جو جنازہ جا رہا ہے اگر اس انسان
کو دوبارہ زندگی مل جائے تو یہ کیا کرے گا ؟ تو اس آدمی نے کہا اگر اس کو
دوبارہ زندگی مل جائے تو یہ کوئی گناہ نہیں کرے گا اور اللہ کی نافرمانی
نہیں کرے گا اور شاید پوری زندگی سجدے میں ہی گزار دے۔ تو اس بزرگ نے اس
آدمی سے کہا کہ یہ تو اس دنیا سے چلا گیا اس کے پاس اب یہ چیزیں کرنے کے
لئے کوئی موقع نہیں ۔ مگر میرے تمہارے اور باقی لوگوں کے پاس ابھی یہ موقع
موجود ہے۔ کیونکہ مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ زندگی ایک بار ہے دو بار نہیں
اور مرنے کے بعد کی زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے ۔ اس میں موت نہیں
بڑھاپا نہیں بیماری نہیں پریشانی نہیں بلکہ یہ وہ زندگی ہے جس کی انسان
خواہش کرتا ہے وہ ہوگی جنت کی زندگی جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ترجمہ مفہوم
:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ
السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا
وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو
میں تمہاری چاہت کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری
کردوں گا ) اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری
چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں
ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔
اس حدیث میں واضح طور پر انسان کے لئے ایک سبق ہے کہ اگر تو انسان اپنی
زندگی اللہ کے حکم کے مطابق گزارے گا۔ تو اللہ تعالی اس کو زندگی میں ہی وہ
چیزیں عطا کر دے گا یا دکھا دے گا ۔ جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کی
واضح مثال انبیاء علیہ السلام کے معجزات اور ہمارے بزرگان دین ہیں جن کو
اللہ تعالی نے بہت سے کمالات سے نوازا تھا ۔ اور جن لوگوں نے سب کچھ ہونے
کے باوجود بھی اللہ کے حکم کو نہیں مانا اللہ تعالی نے کیسے ان کو ذلیل کیا
اس کی واضح مثال نمرود اور فرعون جیسے لوگ ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو بادشاہ
بنا کر ان کا امتحان لیا مگر ان لوگوں نے اللہ کی بات کو ماننے کی بجائے
دنیا میں ظلم کیے تو اللہ تعالی نے ان کو ہمیشہ کے لئے نشان عبرت بنادیا ۔
اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک سبق دے دیا کہ جس نے میرے حکم کو
مانا تو میں نے دنیا میں ہی اس کو جنت کی بشارت سنا دی اس بات کا ثبوت
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اور جنہوں نے نہیں مانا ان کا ذکر بھی
قرآن پاک میں فرما دیا گیا۔ اب انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی زندگی
کو اللہ کے حکم کے مطابق گزار کر اس دنیا سے جاۓ ۔تا کے اس کے بعد آنے
ہمیشہ کی زندگی کو آسان بنا سکے ۔اور یہ حقیقت ہے انسان جو دنیا میں کر کے
جاۓ گا آخرت میں اسی کا بدلہ پاۓ گا ۔ اگر دنیا میں آپکو کوئی تنگی ہوتی ہے
تو اللہ پاک کی طرف سے اس میں کوئی حکمت ہوتی ہے ۔اگر اللّه پاک سب کو
خوشحال زندگی عطا کر دیتے تو دنیا کا نظام کیسے چلتا ۔حدیث کا مفہوم ہے کہ
غریب انسان امیر انسان سےپانچ سو سال پہلے جنت میں جاۓ گا ۔ اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس زندگی کی قدر کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
|