شوہر کی مار برداشت کرلو آخر تمہارے سر کا تاج ہے، کیا بیوی کو شوہر کی مار برداشت کر لینی چاہیے یا آواز بلند کرنی چاہیے؟

image
 
گزشتہ ماہ ڈرامے انگنا کا ایک منظر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا جس میں ایک بیٹا اپنی ماں کے سامنے بیوی پر ماں کی خوشنودی کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ خواتین کے عالمی حقوق کے مہینے مارچ میں اس طرح کے مناظر کے سامنے آنے سے عورت مارچ بریگیڈ کو ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا اور انہوں نے اس سین کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی- جس کے بعد ان کے مخالف گروہ نے بھی اس حوالے سے مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے کہ مرد کے پاس عورت پر ہاتھ اٹھانے کا شرعی حق موجود ہے-
 
بیوی پر ہاتھ اٹھانے والے مرد طاقتور یا کمزور
اللہ تعالیٰ نے مرد کے مقابلے میں عورت کو کمزور بنایا ہے اس وجہ سے اگر مرد جسمانی تشدد پر آمادہ ہو تو عورت اس کو بزور طاقت نہیں روک سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال میں مرد کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا ظلم قرار دیا جاتا ہے- میاں بیوی کا رشتہ دنیا کے ہر رشتے سے زيادہ قریبی رشتہ ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ بعض صورتحال میں بہت نازک بھی ہوتا ہے اس وجہ سے اس کو خوشگوار بنانے کی ذمہ داری دونوں فریقین پر عائد ہوتی ہے-
 
ایک مرد کے اوپر یہ اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ماں اور بیوی کے رشتے کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے دونوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھے کسی ایک کے کہنے پر دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا حقیقی معنوں میں مرد کے کردار کی کمزوری کی دلیل ہوتی ہے اور اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ مرد کمزور شخصیت کا مالک ہے اور رشتوں میں توازن قائم رکھنے میں ناکام رہا-
 
image
 
شوہر کی مار کو برداشت کرنا بیوی کا فرمانبرداری یا بزدلی
بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ شوہر بیوی کا مجازی خدا ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری اس کے ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے- مگر اس کے ساتھ ساتھ جس دین نے مرد کو مجازی خدا قرار دیا ہے اسی دین نے مرد کو عورتوں کا نگہبان بھی قرار دیا ہے اور ان کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے-
 
اس صورتحال میں جب کہ آج کی عورت فکر و شعور سے آراستہ ہے تو اس کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مرد کی جائز معاملات میں ضرور فرمانبرداری کرے مگر جو معاملات جائز نہیں ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانا اس کا حق ہے اور اس سے اس کو کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے-
 
بیوی کے شوہر کے خلاف آواز اٹھانے کے معاشرتی اثرات
بدقسمتی سے ہم سب جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہ مردوں کا بنایا ہوا معاشرہ ہے جہاں اس کی حیثیت حاکم کی ہے اور حاکم کے لیے یہ برداشت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ اس کی رعایا کا کوئی فرد اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرے- یہی وجہ ہے کہ چپ چاپ مار کھانے والی عورتیں تو معاشرے میں ایک اچھی بیوی کا میڈل سجا کر کامیاب ہو جاتی ہے-
 
image
 
جبکہ علم بغاوت بلند کرنے والی عورت کے سینے پریا تو طلاق یافتہ کا میڈل لگا دیا جاتا ہے یا پھر ایسی عورت قرار دیا جاتا ہے جو کہ اپنی ازدواجی زندگی میں ناکام رہی ہے-
 
رویوں کی تبدیلی کی ضرورت
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف مرد کو ظالم اور عورت کو مظلوم سمجھنے کی سوچ بھی غلط ہے فیصلہ حقائق کو دیکھ کر کرنا ضروری ہے تاکہ ایک متوازن معاشرہ تعمیر کیا جا سکے-
 
YOU MAY ALSO LIKE: