فرقہ واریت کا طوفان : وقت منصف ہے فیصلہ دے گا

دو سال کے بعدکورونا کے بغیر رمضان کا مبارک مہینہ تو شر پسندوں نے رام نومی کے بہانے فرقہ پرستی کا وائرس پھیلانا شروع کردیا ۔ اس بار برپا ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی ابتداء 2؍ اپریل کو راجستھان کے کرولی سے ہوئی ۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہندوؤں کا نیا سال چیتر اور اس سے منسلک نوراتری مسلمانوں کے مبارک مہینے رمضان کے ساتھ آرہی ۔ اس موقع پروزیر اعظم نریندر مودی نےبھی 2؍اپریل کو رمضان کی مبارکباد دی مگر اسی دن شام تقریباً 6 بجے کرولی میں ہندو سالِ نو کے موقع پر نکالی گئی ریلی میں مبینہ پتھراؤ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا اور شہر میں کشیدگی پھیل گئی ۔ اس کے سبب بعض علاقوں میں بنیادی سہولیات دودھ اور اخبارات جیسی ضروری چیزوں بھی نہیں پہنچ سکیں ۔ انٹرنیٹ کی خدمات بند ہو گئیں اس کے باوجود بائیک ریلی پر پتھراؤ کی ویڈیو سامنے آگئی ہے۔اس میں مبینہ طور پر ریلی کے گزرتے وقت کچھ لوگ گھروں کی چھتوں سے پتھر اؤ کر تے نظر آرہے تھے ۔ پتھر بازی ایس ایچ او سمیت تین پولیس اہلکار اور دیگر کچھ افراد زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد شرپسندوں نے بازار میں واقع دکانوں میں آگ لگا ئی۔ حالات کو قابومیں کرنے کے لیے جے پور سے 600 پولیس اہلکاروں کی ٹیم کو بلانی پڑی۔

یہ ایک ایسا مخصوص سرکاری بیانیہ ہے کہ جس کے اندر ڈھکے چھپے انداز میں مسلمانوں کو فساد کے لیے موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ایک نہایت پرامن جلوس پر مسلمانوں نے حملہ تشدد برپاکردیا لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟ اس طرح کی رپورٹ میں یہ بات چھپا دی جاتی ہے کہ جلوس فساد کرنے کی نیت اور تیاری کے ساتھ مسلم محلے میں داخل ہوا تھا۔ اس نے مسجد کے پاس رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائےاور پتھر بازی کی جس کے ردعمل میں ہنگامہ برپا ہوگیا ۔ جلوس چونکہ تیاری سے آیا تھا اس لیے اس نے چن چن کر مسلمانوں کی دوکانوں کو نقصان پہنچایا اور گھروں کو بھی جلایا۔ واقعات کا ایک رخ پیش کرکے دیگر علاقہ کے لوگوں کو دنگا فساد کے لیے اکسانے کا کام بلواسطہ انتظامیہ اور میڈیا کی جانب سے ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالم کو مظلوم بنادیا جاتا ہے۔ اس بیانیہ میں انتظامیہ اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کر دیتا ہے ۔ وہ نہیں بتاتا پہلے سے تشدد کا اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا؟ جلوس کو مسلمانوں کے محلے میں گھس کر اشتعال انگیزی سے کیوں روکا نہیں گیا؟ وہ کون لوگ ہیں جن کا جانی و مالی نقصان ہوا؟

مابعد فساد کی صورتحال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ قتل و غارتگری اور آتشزدگی وغیرہ کے بعد فسادی توتتر بترہوجاتے ہیں لیکن اپنی کارکردگی کی خانہ پوری کے لیے مظلومین کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ کرولی میں بھی بیشتر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں۔ کرولی کا فساد اشوک گہلوت سرکار کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ ان کی انتخابی کامیابی میں مسلمانوں کا حصہ ہے اور اس لیے مسلم سماج کی ان سے توقعات وابستہ ہیں۔ انتخابی سال میں ایسی غلطی ان کو مہنگی پڑ سکتی ہے ۔اس سے سبق سیکھ کر بیاور اور اجمیر کے واقعات کو سختی سے نمٹا گیا ۔ یہی مستعدی کرولی میں دکھائی جاتی تو یہ تباہی اور بدنامی نہیں ہاتھ آتی ۔ فرقہ پرست طاقتیں اس حربہ کو آگے بھی استعمال کریں گی ۔ تیجسوی سوریہ کا مبینہ دورہ اسی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ انتظامیہ نے اسے گرفتار کرکے اس بار تو اپنی ذمہ داری ادا کی ہے لیکن آگے بھی اس کو مستعد رہنا ہوگا ۔ سرکار کی اولین ذمہ داری خاطیوں کو سزا دلوانا اور متاثرین کی نقصان بھرپائی کرنا بھی ہے۔ اسی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن کا فیصلہ ہوگا ورنہ راجستھان میں ہر بار سرکار کے بدلنے کی روایت توموجود ہی ہے۔

راجستھان کے علاوہ آدرش گجرات کے تین علاقوں دوارکا، ہمت نگر اور کھمبات میں بھی اس بار فرقہ وارانہ تشدد دیکھنے کو ملا ۔ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے حالانکہ آج کل وہ گجرات کے بجائے اتر پردیش سے اپنا رشتہ جوڑ کر فخر جتاتے ہیں۔ انسان اپنی کرم بھومی تو بدل سکتا ہے لیکن جنم بھومی کی تبدیلی کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ جہاں تک وزیر داخلہ امیت شاہ کا تعلق ہے ان کی تو جنم اور کرم دونوں بھومی گجرات ہی ہے اس کے باوجود وہاں فساد کا برپا ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ آگ بھی اس سال کے اواخر میں ہونے والے انتخاب کے پیش نظر بھڑکائی جارہی ہے۔ کھمبات اور ہمت نگر شہروں میں تصادم کے واقعات میں بھی من و عن یکساں منظرنامہ دوہرایا گیا ۔دوارکا کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔

ہمت نگر میں جلوس مسلم اکثریتی علاقے میں داخل ہوکر تیز آواز میں گانے بجانے کے بعد قابل اعتراض نعرے لگاتا ہے اور اس کا ردعمل سامنے آتے ہی شرپسندوہاں سڑک پر موجود گاڑیوں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد دوکانوں کو آگ لگائی جاتی ہے ۔ یہ سب چونکہ مسلم محلے میں ہوتا ہے اس لیے ظاہر ہےگاڑیاں اور دوکانیں مسلمانوں کی جلتی ہیں ۔ آخری حصہ گرفتاریوں کا ہے کہ جس میں ظاہرہے پولس کے ہاتھ بیشتر مقامی مسلم نوجوان ہی آتے ہیں۔گجرات کے ہمت نگر شہر میں دوسری بار فساد پھوٹ پڑا تو حالات کی سنگینی کا لحاظ کرتے ہوئے 1000 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ سی آر پی ایف کو تعینات کرنا پڑا۔ اس سلسلہ میں 700؍ افراد کے خلاف کیس درج کرنے کے بعد 20 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

کھمبات کی واردات میں صرف یہ فرق ہے کہ وہاں کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نے ایک نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہونےکی بھی تصدیق کی ۔ متوفی کی عمر تقریباً 65 سال بتائی گئی ۔ لوہر دگا ّ کے علاوہ یہ دوسری موت رام نومی کے جلوس سے وابستہ ہے ۔ پچھلےپانچ سالوں میں کھمبات کے اندر تشدد کا یہ چوتھا سانحہ ہے۔ دو سال قبل جب احمدآباد میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو نمستے کیا جارہاتھا تو اس وقت بھی کھمبات کے اکبر پورہ نامی مسلم بستی پر حملہ کرکےتقریباً 125 مکان و دوکان جلا ئے یا لوٹے گئے تھے نیز 2مساجد اور 3 درگاہوں کو بھی نقصان پہونچایا گیا تھا ۔ اس حملہ میں اپنے گھر کو جلتا دیکھ کر ایک شخص کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوگئی تھی ۔اس وقت پولس نے جن 115 ؍افراد کو گرفتار کیا تھا ان میں 55 ہندو اور 60 مسلمان تھے لیکن جہاں مسلمانوں پر 5 سے زیادہ دفعات لگائی گئیں وہیں فسادیوں پر معمولی دفعات لگائی گئی تھیں تاکہ ان کی رہائی آسانی سے ممکن ہوسکے ۔ ایسے میں شعر یاد آتا ہے؎
وقت منصف ہے فیصلہ دے گا
اب ضرورت بھی کیا عدالت کی

انتظامیہ کی یہ جانبداری فسادیوں کے حوصلے بلند کرتی ہے اور وہ بار بار تشدد کرنے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ سرکار اور پولس ان کی پشت پناہی کرے گی ۔ ان فسادیوں کو اگر قرار واقعی سزا ملنے لگے تو وہ اپنی غلطی دوہرانے کی ہمت نہ کریں ۔ ماضی کی کشیدگی کے پیش نظرکھمبات میں پولس نےاحتیاط نہیں برتا ۔ اس لیے پھر سے فساد ہوگیا۔ دوارکا میں ایک گیروا جھنڈا نذرِ آتش کرکے افواہ پھیلائی گئی لیکن پولس نے بروقت قدم اٹھا کر اعلان کردیا کہ ملزم گرفتار ہوچکا ہے ۔ اسی طرح کی مستعدی کا مظاہرہ اگر ہمت نگر اور کھمبات میں ہوتا تو تشدد کے واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے ۔ شرانگیزی توخیر جھارکھنڈ، بہار ،اڑیسہ اور مغربی بنگال میں بھی ہوئی مگر صوبائی حکومت نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے کنٹرول کرلیا ۔ مدھیہ پردیش ، گجرات اور راجستھان کی سرکاریں اس میں ناکام رہیں ۔

ملک کے ان بڑے اور بظاہر ترقی یافتہ نظر آنے والے صوبوں میں برسرِ اقتدار جماعتوں کو چاہیے کہ وہ دیگر چھوٹی ریاستوں کی حکومتوں سے سبق سیکھیں۔ یہ بات درست ہے کہ فساد کو قابو میں کرنے کی براہِ راست ذمہ داری انتظامیہ پر ہے لیکن اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاوں کے اشارے پر کام کرتا ہے۔ بارہا بغیر اشارے کے بھی اپنی ترقی کے لیے حدود سے تجاوز کرکے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں بھی ایسے قانون شکن افسران کو سزا دلوانے کے بجائے ان چاپلوس لوگوں کو پال پوس کر رکھتی ہیں تاکہ وقت ضرورت استعمال کرکے بلڈوزر چلوایا جاسکے ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اترپردیش کےبابا جی اور مدھیہ پردیش کے ماماجی کی طرح گجرات کے شاہ جی اور راجستھان کے گہلوت جی کو تشد د پر قابو پانے کے لیے بلڈوزر کی ضرورت کیوں نہیں پڑتی ؟ بات یہ ہے کہ بلڈوزر تشدد روکنے کے لیے نہیں بلکہ سیاست چمکانے اور انصاف کو روندنے کے لیے چلائے جارہے ہیں ۔ یہ منحوس سلسلہ اگر جاری رہا تو بعید نہیں کہ ایک دن عدالتوں کو بھی بلڈوزر سے روند دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ عدلیہ کے مستقبل پر یہ شعر سادق آتا ہے؎
کون مصلوب ہوا کس پہ لگا ہے الزام
کشمکش ایسی ہے انصاف عدالت مانگے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.