یکم مئی دنیا بھر میں کارکنوں اور محنت کشوں کے عالمی دن
کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن جہاں کارکنوں کی عظمت کو خراج تحسین پیش
کرنے کا دن ہے وہاں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ اُن کی فلاح و بہبود اور
روزگار کو ترجیح دیتے ہوئے نئی حوصلہ افزاء مزدور دوست پالیسیاں سامنے لائی
جائیں ،نئے شعبہ جات اور روزگار متعارف کروائے جائیں اور مزدوروں کے حقوق
کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
لیبر ڈے کی مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں محنت کشوں کی
اہمیت کو سراہتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مثالی کارکنوں کی
بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔چین کی بات کی جائے تو یہاں بھی آل چائنا
فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے 2022 کے قومی یکم مئی لیبر ایوارڈ اور نیشنل
ورکر پائنیر کے فاتحین کو سراہنے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔کانفرنس
میں، 200 افراد کو قومی یکم مئی لیبر سرٹیفکیٹس، 966 افراد کو قومی یکم مئی
لیبر میڈلز، اور 956 افراد کو قومی مثالی ورکرز ایوارڈ دئیے گئے۔رواں سال
انعام یافتگان کی فہرست میں صنعتی کارکنوں کا تناسب خاص طور پر نمایاں رہا
اور کل 373 افراد کو ایوارڈز دیے گئے۔
چین کی اعلیٰ قیادت بھی ملکی تعمیر و ترقی میں کارکنوں کے کردار کو بے حد
سراہتی ہے اور گاہے بگاہے اس حوالے سے اہم ہدایات بھی جاری کی جاتی
ہیں۔ابھی چند رو قبل ہی چین کے صدر شی جن پھنگ نے کاریگروں کے لیے پہلی
اختراعی تبادلہ کانفرنس کے موقع پر اس بات پر زور دیا کہ ہنر مند کارکن اہم
قوت ہیں جو چین میں مینو فیکچرنگ کی ترقی اور تخلیق کو آگے بڑھانے کی معاون
طاقت ہیں۔ انہوں نے تمام کارکنوں کی جانب سے ملک کی اعلیٰ معیاری ترقی کو
فروغ دینے میں اپنی اپنی خدمات سرانجام دینے کی حوصلہ افزائی کی اورمختلف
سطحوں کی حکومتوں کو مزدوروں کی ترقی کو اہمیت دینے کے لیے ہدایات بھی جاری
کیں ۔
کارکنوں کی فلاح کی مزید بات کی جائے تو اس ضمن میں آج بلا شبہ ہنرمند
افرادی قوت ، وقت کا اہم تقاضا ہے ۔یہ بات افسوسناک ہے کہ ترقی پزیر ممالک
میں بے روزگار افراد کی اکثریت کسی ہنر یا تکنیکی صلاحیت سے عاری ہے، یہی
وجہ ہے کہ بے شمار سماجی مسائل سامنے آتے ہیں۔ دوسرا اس سوچ کی ضرورت ہے کہ
پیشہ ورانہ یا تکنیکی تعلیم حاصل کرنے ولا شخص ، روایتی تعلیم پانے والے
شخص سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے پیشہ ورانہ تعلیم کو ایسے
بچوں تک ہی محدود کر دیا ہے جو "مارکس یا گریڈ گیم" میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
یہاں بھی چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پیشہ ورانہ تعلیم کو باقاعدہ
قانون سازی کے ذریعے ترقی دیتے ہوئے بہترین ہنرمند افرادی قوت تیار کی جا
رہی ہے۔ لیبر ڈے کے موقع پر ہی چین کا پیشہ ورانہ تعلیم سے متعلق ترمیمی
قانون نافذ العمل ہو رہا ہے ، جو نہ صرف پیشہ ورانہ اسکول سے فارغ التحصیل
افراد کے لیے ملازمت کے مساوی مواقع کو فروغ دے گا بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم
کے معیار کو بھی آگے بڑھائے گا۔
ترمیمی قانون یہ کہتا ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم عام تعلیم کی طرح اہم ہے اور
پیشہ ورانہ اسکول کے فارغ التحصیل افراد کو کیریئر کے یکساں مواقع سے لطف
اندوز ہونا چاہیے۔ یہ پیشہ ورانہ تعلیم میں انٹرپرائز کی شرکت کی بھی حوصلہ
افزائی کرتا ہے اور اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملازمین کی خدمات حاصل
کرتے وقت بھرتی کی ایک اہم شرط" تکنیکی مہارت" کو سمجھیں۔قانون اس بات پر
زور دیتا ہے کہ ملک میں صنعتی تقاضوں کی بنیاد پر اعلیٰ درجے کی
مینوفیکچرنگ کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کے نئے بڑے ادارے قائم کیے جائیں اور
پیشہ ورانہ تعلیم کی ترقی کے لیے بجٹ کو یقینی بنایا جائے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے دنیا کا سب سے بڑا پیشہ ورانہ تعلیم کا نظام
تشکیل دیا ہے، جس میں 11,300 پیشہ ورانہ اسکولوں میں 30.88 ملین طلباء کا
اندراج کیا جاتا ہے اور سالانہ 10 ملین گریجویٹس تیار کیے جاتے ہیں۔اس سب
کے باوجود چین یہ سمجھتا ہے کہ اس نظام میں مزید جدت لائی جائے اور اسے
معاشرے کے تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا کرنے کے قابل بنایا جائے۔اسی
حقیقیت کے پیش نظر ملک نے حالیہ سالوں میں پالیسی اقدامات کا ایک سلسلہ
متعارف کروایا ہے، جس نے ترمیم شدہ پیشہ ورانہ تعلیم کے قانون کے لیے ایک
مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کو عام تعلیم کےمساوی کرنے کا مطلب
یہی ہے کہ دونوں نوعیت کی تعلیم کی اپنی اپنی جداگانہ اہمیت ہے، لیکن
مشترکہ مقصد بہترین افرای قوت کی تیاری ہےجس سے تکنیکی اور ہنر مند افراد
کی ترقی کے لیے ایک نیا راستہ کھلا ہے۔
|