تیس ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرو اور آنا بھی نہیں... ڈیرہ غازی خان کی یونیورسٹی نے آٹھ بلوچ طلبا کو یونیورسٹی سے کیوں نکالا؟

image
 
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کی غازی یونیورسٹی نے آٹھ بلوچ طلبہ اور ایک ٹیچر کو مبینہ تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں یونیورسٹی سے نکال کر کے ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔
 
جمعے کو غازی یونیورسٹی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق دو خواتین سٹوڈنٹس سمیت چھ بلوچ طلبا کو جامعہ کے ڈسپلن و قواعد کے قوانین کی خلاف ورزی اور یونیورسٹی سے باہر کے افراد کے ساتھ ملک کر تخریبی کارروایاں کرنے کے الزام میں دو سال کے لیے یونیورسٹی سے نکالنے، تیس ہزار روپے جرمانے اور یونیورسٹی کی حدود میں داخلے پر پابندی کی سزائیں دی گئیں ہیں۔
 
جبکہ دو بلوچ طلبہ کو ایک سال کے لیے یونیورسٹی سے نکالنے، تیس ہزار روپے جرمانے اور یونیورسٹی حدود میں داخلے پر پابندی کی سزا دی گئی۔
 
اس کے علاوہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھانے والے ایک بلوچ استاد رفیق قیصرانی کو مبینہ تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کا تشخص خراب کرنے کے الزام میں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
 
جبکہ دو دیگر بلوچ طلبا جن کا تعلق غازی یونیورسٹی سے نہیں ہے کہ خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی سفارش کی ہے۔
 
تاہم ان بلوچ طلبہ کا دعویٰ ہے کہ 'انھیں یونیورسٹی کی جانب سے یہ سزا اس لیے دی گئی کیونکہ انھوں نے یونیورسٹی میں سٹڈی سرکل منعقد کیا جس کے دوران ایک ٹیچر کی جانب سے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا گیا اور اس واقعے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔'
 
طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ 'اس واقعے کے بعد بلوچ طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔'
 
image
 
غازی یونیورسٹی میں طلبا کو نکالنے کا معاملہ
غازی یونیورسٹی کے بی ایڈ کے طالب علم حامد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ 27 اپریل 2022 کو بلوچ طلبہ تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی (بی ایس اے سی) کی جانب سے 'تعلیم کی اہمیت' کے موضوع پر ہفتہ وار سٹڈی سرکل منعقد کیا گیا تھا جس میں چار خواتین سمیت 20 طلبہ شامل تھے۔
 
'اس سٹڈی سرکل کے دوران علی تارڑ نامی یونیورسٹی کے ایک استاد کلاس روم میں داخل ہوئے اور بند کمرے میں سٹڈی سرکل منعقد کرنے پر سخت لہجے میں اعتراضات اٹھائے اور ساتھ ہی طلبا اور طالبات کی بغیر اجازت ویڈیوز بھی بنائیں۔'
 
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں غازی یونیورسٹی کے استاد کو بلوچ طلبہ سے یہ پوچھتے دیکھا جا سکتا ہے کہ 'یہ کون سی پڑھائی ہو رہی ہے جس میں آپ کنڈی لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں لڑکیوں کے ساتھ۔'
 
حامد حسین کے مطابق سٹڈی سرکل کے دوران کلاس روم کا دروازہ ضرور بند تھا لیکن وہ لاک نہیں تھا۔
 
'ہم نے انھیں سٹڈی سرکل سے متعلق بتانے کی کوشش کی لیکن وہ ہم پر الزامات لگاتے رہے اور بعد میں انھوں نے یونیورسٹی کی سکیورٹی کو بھی بلا لیا۔ ان کے اس رویے کے خلاف سٹڈی سرکل میں شریک بلوچ طلبہ نے یونیورسٹی گیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔'
 
حامد کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس دھرنے کو ختم کروانے کے لیے پہلے تو پولیس کو بلایا گیا لیکن بعدازاں طلبہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے مابین مذاکرات اور واقعے کی تحقیقات کروانے کی زبانی یقین دہانی پر یہ احتجاجی دھرنا ختم کر دیا گیا۔
 
بلوچ طلبہ تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی (بی ایس اے سی) کے رکن اظہر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچ طلبہ کی آگاہی کے لیے ان کی تنظیم مختلف موضوعات پر سٹڈی سرکل کرتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر ادبی بحث ہوتی ہے۔ 27 اپریل کو وہ اور ان کی تنظیم کے جرنل سیکٹری وقار احمد کو غازی یونیورسٹی مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ 'تعلیم کی اہمیت' کے موضوع پر بات کریں۔
 
انھوں نے بتایا کہ 'ہم نے سٹڈی سرکل کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بلوچ طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کی بغیر اجازت ویڈیوز بنانے کے خلاف احتجاج کیا جس کی وجہ سے ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی گئی۔'
 
تاہم یونیورسٹی کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے جب غازی یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر اللہ بخش گلشن سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے سوالات سننے کے بعد فون بند کر دیا۔ جب انھیں سوال نامہ بذریعہ فون میسج پر بھیجا گیا تو تاحال انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا ہے۔
 
image
 
یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ پر تیس ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے پر طالب علم حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق ایک غریب بلوچ خاندان سے ہے اور ان کے والد ایک چرواہا ہیں۔
 
'میری سمسٹر کی فیس میرے دوستوں نے جمع کروائی تھی اب مجھے نہیں معلوم کہ سٹڈی سرکل میں شرکت کرنے کا اتنا بڑا جرمانہ میں کیسے ادا کروں گا۔'
 
بلوچ طلبہ سے کراچی یونیورسٹی حملے سے متعلق سوالات
غازی یونیورسٹی کی بی ایس کیمسٹری کی آخری سمسٹر کی طالب علم فہمیدہ عطا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 28 اپریل کو جب اس واقعے کے تحقیقات کے لیے انھیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بلایا گیا تو ان سے اس واقعے پر بیان لینے کے بعد ایک سوال نامہ پُر کرنے کو دیا گیا جس میں 27 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے حملے سے متعلق پوچھا گیا۔
 
خیال رہے کہ اس حملے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری بلوچ شدت پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
 
image
 
'انھوں نے مجھ سے پوچھا میں کراچی حملے کے بارے میں کیا جانتی ہوں اور یہ کہ بلوچ طلبہ سٹڈی سرکلز کیوں منعقد کرواتے ہیں اور اس میں کس قسم کے موضوعات ہوتے ہیں۔'
 
فہمیدہ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ان سے ان کا قومی شناختی کارڈ نمبر اور ایک پاسپورٹ سائز تصویر بھی مانگی گئی۔
 
'میں نے ان سے پوچھا کہ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت میں نے یہ سب معلومات جمع کروائی تھی تو اب اس کا مطالبہ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ میری کلاس میں یا اس سٹڈی سرکل میں شریک کسی طالب علم سے اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔'
 
خیال رہے کہ پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈ کواٹرز پر حملے کے بعد بھی ملک بھر کی جامعات میں پڑھنے والے بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے انھیں ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے جس کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے لیا تھا۔
 
غازی یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف یونیورسٹی کے ایک لیکچرار رفیق قیصرانی نے اپنے فیس بک پر شدید الفاظ میں مذمت کی تھی جس کے بعد یونیورسٹی کی جانب سے انھیں بھی نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: