پاکستانی شریف مرد‘ کچھ نام اور کچھ کام کے

اتنا شریف آدمی کہ اس کی موجودہ اہلیہ کے بچے اسے ابا نہیں کہہ سکتے‘ خیر ابا یا پھر بابا تو ہمارے جیسے تھرڈ کلاس شہریوں کی اصطلاح ہے جس معیار کے وہ لیڈر ہیں وہاں تو پپا‘ پپ‘ ڈیڈ ہی چلتا ہے‘ یعنی موجودہ اہلیہ کی بچے اسے والد نہیں کہہ سکتے اور یہ شریف آدمی پوچھ بھی نہیں سکتے کہ آپ ہمیں والد محترم کیوں نہیں کہہ سکتے. تقریبا یہی صورتحال دوسری طرف بھی ہے موصوف کے بچے ان کی موجودہ اہلیہ کو اماں‘ سوری امی‘ سوری مم‘ سوری ممی بھی نہیں کہہ سکتے.یعنی دونوں طرف اگ برابر لگی ہوئی ہیں.

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے اور بیوی ہی کی وجہ سے اسکے رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال شوہر رکھتے ہیں.یعنی ننھیال کے رشتہ دار ہر جگہ پر حاوی ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پٹھان معاشرے میں ماما‘ یعنی ماموں کا رشتہ سب سے طاقتور رشتہ بھی ہوتا ہے اور بچے کم عمری میں بہت زیادہ اگر کسی عام آدمی کو پکارتے ہیں تو ماموں کے رشتے سے پکارتے ہیں‘ یعنی پشتو مثل کے بقول دا بی بی خپل ڈیر طاقتور وی.. یعنی بی بی کی طرف سے رشتہ دار زیادہ طاقتور ہوتے ہیں. اتنی لمبی تمہید اس لئے لکھ دی ہیں کہ سند رہے کہ راقم بھی ان شریف آدمیوں میں شامل ہیں.. موجودہ دور ویسے بھی خواتین کا دور ہے‘ بے چارہ مرد کسی بھی زمرے میں نہیں آتا‘ گھرمیں اگر بیوی کی نہ مانے تو بھی اس کی خیر نہیں‘ اگر دفتر میں بھی کسی خاتون کولیگ کیساتھ ذرا تیز آواز میں بات کردی‘ تو بھی خیر نہیں‘ کیونکہ ایسے ایسے قانون بنائے گئے ہیں کہ مردوں کو پشتو مثل کے بقول " وضو میں چلنا پڑتا ہے" شرافت اور بیوی کا ہمارے معاشرے میں چولی دامن کا ساتھ ہے اتنا کہ پاکستانی معاشرے میں بیشتر مرد شریف ہیں‘ کچھ پیدائشی شریف ہیں‘ کچھ کے نام شریف ہیں‘ کچھ ڈر اور خوف کی وجہ سے شریف ہیں اور کچھ شریف بنے پھرتے ہیں.

ویسے یہ بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام سی بات ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ گھر میں بدمعاشی اور تیزی کرنے والا باہر شریف ہوتا ہے اور گھر کا شریف باہر بدمعاش اور تیز ہوتا ہے‘ جو کسی حد تک درست بھی ہے اور یہ تقریبا ہر سطح پر ہے‘ نچلی سطح سے لیکر بڑے سطح تک سب مرد ہی یکساں ہیں -یقین نہیں آتاتو دیکھ لیجیے عالم اسلام کے ایک بڑے لیڈر جو جھوٹ تو بالکل نہیں بولتے‘ اور جب بولتے ہیں تو اتنے ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ ان کے پیروکار آنکھیں بند کرکے اسے سچ مان لیتے ہیں اور پھر اس کی سچائی کی قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اسے پھیلاتے بھی ہیں خیر ہمیں ان کے سچ اور جھوٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ الحمد اللہ‘ ہمیں اللہ تعالی نے ان سمیت دیگر بہت سوں سے سے دور کیا ہے جس پر راقم اللہ تعالی کا شکر گزار ہے.

عالم اسلام کے اتنے بڑے لیڈر کا حال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے ایک صاحبہ جن کے نام کیساتھ گوگی آتا ہے لیکن شائد یہ غلط ہے کیونکہ جب سے ان کا نام اربوں روپوں کے کھاتے میں آتا ہے بالکل خاموش ہیں اس لئے ان کا نام یقینا پہلے لفظ کیساتھ گونگی ہوگا تبھی تو مدینہ کے نام پر ڈھول بجا کر عوام کو نچانے والی شخصیت ان گونگی شخصیت کی وجہ سے خود بول پڑے ہیں موصوف نے گونگی کو بے قصور ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ان کیساتھ ظلم ہورہا ہے.خیر یہ ان کا اپنا معاملہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح بھی ہو جائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ چونکہ وہ گوگی سوری گونگی موصوف کی اہلیہ کی دوست ہے اس لئے ان کی صفائیاں موصوف پیش کررہے ہیں‘ حالانکہ ان سے قبل ان کی حکومت کے ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں موصوفہ یعنی گونگی صاحبہ کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں‘ ان کی بات بھی صحیح ہے کیونکہ ان کی رشتہ دار تھوڑی ہے رشتہ دار تو صاحب کی بیوی کی ہے اور ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے جبکہ عالم اسلام کا رہنما بھی شریف آدمی ہے اس لئے اپنی اہلیہ کی دوست کی صفائیاں دینے میں مصروف عمل ہے‘ کوئی ان پر یقین کرے یا نہ کرے ہمیں یقین ہے کہ خود پسند شخصیت کا حامل عالم اسلام کا لیڈر شریف آدمی ہے. اتنا شریف آدمی کہ اس کی موجودہ اہلیہ کے بچے اسے ابا نہیں کہہ سکتے‘ خیر ابا یا پھر بابا تو ہمارے جیسے تھرڈ کلاس شہریوں کی اصطلاح ہے جس معیار کے وہ لیڈر ہیں وہاں تو پپا‘ پپ‘ ڈیڈ ہی چلتا ہے‘ یعنی موجودہ اہلیہ کی بچے اسے والد نہیں کہہ سکتے اور یہ شریف آدمی پوچھ بھی نہیں سکتے کہ آپ ہمیں والد محترم کیوں نہیں کہہ سکتے. تقریبا یہی صورتحال دوسری طرف بھی ہے موصوف کے بچے ان کی موجودہ اہلیہ کو اماں‘ سوری امی‘ سوری مم‘ سوری ممی بھی نہیں کہہ سکتے.یعنی دونوں طرف اگ برابر لگی ہوئی ہیں.

اگ برابر کی لگی ہوئی ہیں یعنی حکومت میں آکر حکمرانی کرنے والے بھی یکساں ہی ہیں یعنی یہ بھی صرف نام کے شریف نہیں بلکہ واقعی شریف ہی ہیں یقین نہیں آتا تو کچھ دن قبل پنجاب میں وزیراعلی کی حلف برداری کی تقریب کی تصاویر دیکھ لیں‘ مانسہرہ کا ایک شریف آدمی کرسی پر یوں بیٹھا ہے جیسے اسے بادل نخواستہ کرسی دی گئی ہو یعنی اس کی ضرورت نہیں لیکن چونکہ وہ بھی شریف آدمی ٹھہرا اور شریف لوگوں سے اس کی رشتہ داری ہے اس لئے اس موصوف نے بھی کوئی گلہ نہیں کیا‘ کہ مجھے کس طرح کی کرسی پر بٹھایاہے یہی شریف آدمی کچھ عرصہ تک اپنی اہلیہ کے رشتہ داروں کی صفائیاں کرتا پھر رہا تھا کہ کے ا س کے سسرالی نام کیساتھ ساتھ کام میں بھی شریف ہیں یہ الگ بات کہ ان کی کوئی نہیں سن رہا تھا لیکن چونکہ شریف آدمی ٹھہرا اس لئے اس نے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھیں.

ہمارے ایک دوست جنہیں ہم اپنا بھائی کہتے اور سمجھتے ہیں وہ اتنے شریف ہیں کہ انہوں نے شرافت میں بھی دو شادیاں کرلی ہیں اور بھلے سے زندگی گزار رہے ہیں موصوف اب شائد تیسری بھی کرلیں یہ ان کا دل گردہ ہے لیکن ان کی ہمت دیکھ کر ہم جیسے آہ ہی بھر سکتے ہیں اس لئے نہیں کہ دوسری شادی کریں بلکہ اس لئے کہ ان میں اتنی ہمت ہیں کہ وہ اپنے دونوں بیویوں کو شرافت سے برداشت کررہے ہیں اور ساتھ میں دونوں بیویوں کے رشتہ داروں کو بھی برداشت کررہے ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیویوں کی زبانیں بہت زیادہ لمبی ہو جاتی ہیں اتنی لمبی کہ ہر شریف آدمی اس زبان کی زد میں آکر مار بھی کھا جاتا ہے انہی کے مقابلے میں ایک اور صاحب ہے جواتنے شریف ہیں کہ ہونیوالی اہلیہ اور ان کے رشتہ داروں کی ڈر کی وجہ سے شادی نہیں کررہے یعنی عجیب سی کمبی نیشن ہے. ویسے آپس کی بات ہے کہ یہ بندے بندے پر ڈیفنڈ کرتا ہے کہ کون کتنا اور کہاں پر شریف ہے.

اتنی زیادہ باتیں لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ یار لوگ آج کل عالم اسلام کے خود ساختہ اور خود پسند رہنما کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ گوگی سوری گونگی کیلئے بول رہے ہیں جو ان کے لیول کی بات نہیں‘ جبکہ دوسری طرف پنجاب میں وزارت اعلی کی تقریب میں کرسی پر بیٹھے مانسہرہ کی شریف آدمی کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے بس اتنا سمجھ لیجیئے کہ دونوں اطراف کے مرد شریف ہیں اور شریف آدمی بیوی سے اور بیوی کے رشتہ داروں سے ڈرتا ہے‘ یقین نہیں آتا تو ان رہنماؤں کے لئے جلسوں میں آنیوالے عام لوگوں س یسے پوچھ لیجئے بیشتر کو ان کی بیگمات بھیجتی ہیں کہ جا کر جلسوں میں شریک ہوں‘ کچھ بیگم کے کہنے پر آتے ہیں اور کچھ بیگم کیلئے خریداری کرنے‘ کیونکہ بہت ساروں کو دیہاڑی ملتی ہے جو دیہاڑی دار مرد جا کر بیگم کو دے آتا ہے اس لئے یہ سمجھ لیجیے کہ پاکستان معاشرے کے بیشتر مرد شریف ہی ہیں.کچھ نام کے کچھ کام اور کچھ...
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498119 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More