ہائیر ایجوکیشن کمیشن جو HEC کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو تعلیمی اداروں کے
درمیان ایک میثاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ HEC کے وجود نے تعلیمی نظام کو محفوظ
راہیں تو بخشیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کی بقاءاور معیار کا کریڈٹ بھی
HEC کو جاتا ہے۔ کم و بیش 4 ہزار طلباءو طالبات جو دوسرے ملکوں میں تعلیم
حاصل کررہے ہیں اور پاکستان کا روشن مستقبل کہلاتے ہیں وہ بھی HEC کے مرہون
منت ہیں ۔ صوبوں کے درمیان تعلیمی تفاوت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مضامین
کے درمیان امیتاز (فرق) کو ختم کرکے ہر صوبے کی ڈگریز کوبرابر سطح پر لا
کھڑا کیا۔ جعلی ڈگریز کے اجراءکی روک تھام کی اور کافی حد تک کامیاب رہا
اور دوسرے لفظوں میں اسے سٹوڈنٹس کی عدالت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
کیونکہ اس نے طلبا و طالبات کو ان کے معیار کے مطابق نوازا۔ HEC بہت ہی کم
عرصہ میں ترقی کی راہ پر گامزن ادارہ آج سیاستدانوں کے قہر کی نظر ہورہا ہے۔
پچھلے چند برسوں سے پاکستان کی مقدس سرزمین کے محب وطن لوگوں کا حق غصب
کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات اور روشن مستقبل کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
کبھی ریلوے کی نجکاری تو کبھی سٹیل ملز کی نیلامی، ہماری سابقہ گورنمنٹ اور
موجودہ حکومت نے عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیںچھوڑی ۔ ایک اور خدمت اور
تحفہ جس سے عوام کو نوازا جا رہا ہے، وہ ہے HECکی تحلیل۔ بانی پاکستان
قائداعظم کے چودہ نکات اور 1973 ءکے آئین کی اس شق پر عمل کیا جا رہا ہے۔
کہ صوبوں کو مکمل خود مختیاری ہو گی۔ مطلب تجوریاں بھرنے کے ساتھ ساتھ اب
ڈگریاں حاصل کرنے میں بھی خودمختیاری ہوگی۔ بانی پاکستان کے مقدس نکات کو
اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ HEC کی تحلیل سے ہر صوبے کی اپنی
ڈگریاں اور مضامین میں امتیاز ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر ایک صوبے کے انسان کو
دوسرے صوبے میں نوکری کا کوئی حق نہیں ہوگا کیونکہ ڈگر میں مضامین مختلف
ہونگے۔ ہر صوبہ اپنی زبان کو ساتھ لے کر چلے گا۔ اور ہماری اردو زبان جو کہ
قومی زبان ہے دھری کی دھری رہ جائے گی۔ میں حکومت سے ایک طالبعلم ہونے کے
ناطے 7 کروڑ طلباءطالبات کی التجاء پیش کرتا ہوں کہ خدارا ہمارے مستقبل کے
اجالوں اور خوابوں کی تعبیر کو پاش پاش نہ کریں۔ کیونکہ طلباءطالبات اور (ویل
آرگنائزڈ) نظام تعلیم معاشرے کی اور ملک کی خوبصورتی ہواکرتا ہے۔ اور میں
HEC اور حکومت سے التجاءکرتا ہوں کہ ہمیں موجودہ تعلیمی نظام جدید تقاضوں
اور اسلامی ضابطوں کے عین مطابق مرتب کرنا ہوگا تاکہ ایک صحت مند اور
مستقبل میں اچھا اسلامی معاشرہ قائم ہوسکے۔ تعلیم میں ہمیں اسلامی حوالے سے
سوشل سائنسز کو پڑھانا ہوگا تاکہ طلبا پوری اسلامی دنیا کے متعلق معلومات
حاصل کرسکیں اور اسکے نتیجہ میں پوری امت مسلمہ ایک ہی اسلامی تہذیب و
ثقافت کے رنگ میں رنگی جائے۔ امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت 7 کروڑ طلباءکی
آواز کو رد نہ کر کے جمہوری حکومت ہونے کا ثبوت دے گی۔ انشاءاللہ۔
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگانغمہ توحید سے |